چین نے تو جیسے تہیہ کر رکھا ہے کہ بھارتی قیادت کو سکون کا سانس نہیں لینے دینا۔ ڈریگن بیدار ہوکر اپنے تمام بدخواہوں کو نگلنے کے درپے ہے۔ بھارتی کوبرا چینی ڈریگن کے سامنے کمزور اور بے بس دکھائی دے رہا ہے۔
ایک زمانے سے نئی دہلی پورے خطے کے معاملات میں مداخلت کر رہا تھا اور حسبِ ضرورت و توفیق اپنے لیے ایڈوانٹیج بھی بٹور رہا تھا۔ ایک مرحلے پر ایسا لگتا تھا کہ یہ سلسلہ طویل مدت تک یونہی جاری رہے گا یعنی بھارت کیلئے مسابقت پیدا ہی نہیں ہوگی اور وہ بلا شرکتِ غیرے پورے خطے میں اپنی مرضی کی فصل اگاکر اپنی پسند کے مطابق کٹائی بھی کرتا رہے گا۔ یہ سلسلہ اِس طور جاری تھا کہ علاقے کے چھوٹے اور کمزور ممالک خود کو بند گلی میں پاتے تھے۔ کوششیں کر دیکھیں مگر کچھ نہ ہوا۔ بھارتی قیادت کی علاقائی ریشہ دوانیوں کے سامنے جو کچھ کمزور علاقائی ممالک نے کیا وہ خاطر خواہ نتائج نہ دے سکا۔ معاملہ یہ رہا کہ ع
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں سے کوئی بھی کبھی اس پوزیشن میں نہیں رہا کہ بھارتی اثرات کے سامنے بند باندھ سکے۔ یہ تب کی بات ہے جب چین میدان میں نہیں آیا تھا۔ بھارتی قیادت پورے خطے کو اپنا آنگن سمجھ کر کھیلنے کودنے میں مصروف رہتی تھی۔ بھارت کی بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں نے بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کو بدگمانیوں میں الجھادیا۔ اب یہ تینوں ممالک چاہتے ہیں کہ بھارت سے حتی الامکان دور رہیں۔ اب مالدیپ بھی اُن پڑوسی ممالک میں شامل ہے جو کسی نہ کسی طور بھارت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ بھارتی میڈیا پر دن رات یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ چین بحرِ ہند کے خطے میں بھارت کی پوزیشن کو چیلنج کرنے کے لیے مالدیپ کی آڑ لے رہا ہے۔ بھارتی قیادت اس بات سے پریشان ہے کہ چین نے مالدیپ میں سرمایہ کاری بھی بڑھادی ہے۔ وہ مالدیپ کا بنیادی ڈھانچا مضبوط بنانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ چین نے یہ عمل کئی ممالک میں کیا ہے۔ افریقہ کے پسماندہ ممالک میں بھی چین نے بنیادی ڈھانچا مضبوط بنایا ہے تاکہ وہ چین کے عظیم تجارتی شاہراہ کے منصوبے میں اپنا کردار ڈھنگ سے ادا کرسکیں۔
مالدیپ بحرِ ہند میں چھوٹے بڑے چند سو جزائر پر مشتمل چھوٹا سا ملک ہے۔ یہ بھارت کی مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام لکش دویپ سے 700 کلو میٹر اور مین لینڈ انڈیا سے 1200 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ 270 قبل مسیح میں جب کلنگ (جنوبی بھارت) کے ایک شہزادے کو ملک بدر کردیا گیا تو اُس نے مالدیپ کو ریاست کے روپ میں بسانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس ملک کے پہلے بادشاہ کا نام سُدرشن آدتیہ تھا۔ اسلام مالدیپ اور جنوبی بھارت میں ساتھ ساتھ پہنچا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی گئی۔ عظیم سیاح ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ مراکش کے ابو البرکات یوسف البربری نے مالدیپ کے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا۔ وہ تبریزو غیفانو کے نام سے معروف ہیں۔ اُن کا مقبرہ مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں ہے۔ آج مالدیپ واضح مسلم اکثریت والا ملک ہے۔
بھارت نے مالدیپ کو ایک مدت سے اپنے انگوٹھے کے نیچے دبا رکھا تھا۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں سے کوئی بھی بھارت کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کر پاتا تھا۔ مالدیپ میں بھارت کا اثر و رسوخ 1986 میں شروع ہوا جب اُس وقت کے صدر مامون عبدالقیوم نے اپنی حکومت کا تختہ الٹے جانے سے بچنے کے لیے بھارت سے امداد کی اپیل کی۔ بھارت نے عسکری مدد فراہم کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ صدر مامون کا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے بھارتی فوج کا سہارا لیا۔ اس کے بعد مالدیپ میں بھارت کے اثرات کا دائرہ پھیلتا گیا۔ آج بھی وہاں بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ مالدیپ کا رقبہ کم اور اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس حقیقت کو اب امریکا اور یورپ بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مالدیپ عالمی تجارت کی سب سے بڑی شاہراہ کے کنارے واقع ہے۔ اس کے خوبصورت جزائر سیاحت کی صنعت کو غیر معمولی تیزی سے فروغ دیتے آئے ہیں۔ مغربی سیاحوں کے لیے مالدیپ خاص طور پر بہت پُرکشش ہے۔ سیاحت ہی مالدیپ کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ مقامی لوگ کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ خوراک کی فراہمی میں سمندر کا بھی اہم کردار ہے۔ مالدیپ کے سابق صدر اور موجودہ اپوزیشن لیڈر‘ عبداللہ یامین نے بھارت کے خلاف آواز اٹھانے کی ابتداء کی۔ 2013ء سے 2018ء کے دوران عبداللہ یامین کے عہدِ صدارت میں مالدیپ کو چین کی بھرپور حمایت اور مدد حاصل رہی۔ عبداللہ یامین نے بھارتی مفادات کے خلاف جانے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ عبداللہ یامین کو جیل بھی جانا پڑا مگر پھر اُن کی سزا کو نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا اور اب وہ رہا ہوچکے ہیں۔ مالدیپ کے موجودہ صدر ابراہیم سولی بھی بھارت نواز ہیں اور سابق صدر محمد نشید بھی بھارت نواز ہی تھے۔ عبداللہ یامین نے ملک کی پالیسیوں میں توازن پیدا کرنے پر توجہ دی اور بھارت کے اثرات گھٹانے کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کے عہدِ صدارت میں چین کو مالدیپ میں قدم جمانے اور بھارتی مفادات کے خلاف خطرہ بننے کا موقع ملا۔ یہ سب بھارت کا ہاضمہ خراب یا درست کرنے کے لیے کافی تھا۔ مالدیپ کا ایک جزیرہ چین کو 40 لاکھ ڈالر میں 50 سالہ لیز پر دے دیا گیا جس سے بھارت کو بہت 'صدمہ‘ پہنچا۔
عبداللہ یامین کے عہدِ صدارت میں بھارت سے جان چھڑانے کا جنون اس حد تک پہنچا کہ عبداللہ یامین نے بھارت سے تحفے میں ملنے والے ہیلی کاپٹرز بھی لوٹانے کی بات کی۔ اب وہ پھر بھارت کے خلاف کھل کر میدان میں آچکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک پر بھارتی اثرات نہ ہونے کے برابر ہوں۔ وہ اس حوالے سے سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ بات بھارتی قیادت کو بُری طرح کَھل رہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ عبداللہ یامین اور اُن کے حامیوں کو چین کی طرف جھکنے سے روکا جائے اور ملکی پالیسیوں میں ایسی تبدیلیوں کی راہ مسدود کی جائے جن سے خطے میں بھارتی مفادات کو خطرہ پہنچ سکتا ہو۔ اِس وقت مالدیپ میں بھارت سے بالعموم اور بھارتی فوج سے بالخصوص جان چھڑانے کی بھرپور تحریک جاری ہے۔ مالدیپ کو اپنے انگوٹھے تلے دباکر بھارتی قیادت خطے میں اپنی بالا دستی یقینی بنانے کا خواب دیکھتی آئی ہے۔ اب یہ خواب چکنا چور ہوتا دکھائی دے رہا ہے تو بھارتی قیادت غصے سے بپھری ہوئی ہے مگر کچھ کر نہیں پارہی۔ یہ سارا غصہ بھارت کے کمزور مسلمانوں پر اتارا جارہا ہے یا پھر پاکستان کو کسی نہ کسی طور مطعون کرنے کی مہم چلانے پر اکتفا کیا جارہا ہے۔
چین میدان میں آچکا ہے۔ بھارتی قیادت میں اِتنا دم نہیں کہ اُسے کھل کر للکار سکے۔ بھارتی فوج کا مورال گرا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں ہتھیاروں اور دیگر متعلقہ ساز و سامان کے معاملے میں بھی بھارتی فوج بہت کمزور اور مضمحل ہے۔ اُس کے اعصاب شل دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ ایک طویل مدت سے اندرونِ ملک چلائی جانے والی الگ وطن کی بارہ سے زیادہ تحریکیں کنٹرول کرنے کا ٹاسک بھی اُسے ملا ہوا ہے۔ مودی سرکار نے فوج کو مقبوضہ کشمیر میں تعینات کرکے کشمیریوں پر شدید مظالم ڈھانے کا ٹاسک سونپ رکھا ہے جس نے اُس کی رہی سہی قوت بھی ختم کردی ہے۔ یہ سب کچھ بھارتی فوج کا مورال مزید گرا رہا ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ بھارتی قیادت ہوش کے ناخن لے، حالات کا پوری دیانت اور غیر جانبداری سے جائزہ لیکر حقیقت پسندانہ پالیسیاں تیار کرے تاکہ خطے کو مزید غیر ضروری کشیدگی سے بچایا جاسکے۔ مالدیپ کو بنیاد بناکر چین سے معاملات مزید بگاڑنے کے بجائے بھارتی قیادت کو حقیقت پسندی کا دامن تھامتے ہوئے ایسی راہ پر گامزن ہونا چاہیے جو اُسے خطے میں کوئی بڑی جنگ چھیڑنے کے حالات کی طرف جانے سے روکے۔