تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     29-12-2021

قائد کا پاکستان، بحث جاری ہے

ملک کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے، حکمرانی کے ڈھنگ سے ہر نام نہاد لیڈر بے نیاز ہے، لیکن یہ رائے زنی ختم نہیں ہوئی کہ قائد اعظم کا تصورِ پاکستان کیا تھا۔ اپنے خیالات اور رجحانات کے مطابق ہر کوئی ایم اے جناح کی تقریروں سے اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے اِس بات پہ تو اکتفا ہو سکتا ہے کہ جیسے بھی پاکستان کا تصور جناح صاحب کے دل و دماغ میں تھا وہ کم از کم ایک بے وقوف اور جاہل ملک نہ چاہتے تھے۔ یہ جو بعض رہبران قوم جذبات سے سرشار ہو کر نعرہ بلند کرتے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے وہ اپنی جگہ اہم‘ لیکن جس قلعے کو ہم بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں وہ بے وقوفی کا قلعہ ہے۔
ہماری حالت انوکھی ہے۔ کسی اور ملک میں بحث چلتی ہے کہ مقصدِ جرمنی یا مقصدِ فرانس کیا تھا؟ وہ اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور بحث ہوتی ہے تو معیشت اور ترقی کے بارے میں کہ کس انداز سے معیشت کو آگے بڑھایا جائے اور عوام کی خوشحالی کس چیز میں ہے۔ شہروں کا گند ہم سے اٹھایا نہیں جاتا، زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنی ضرورت کا اناج اور دیگر خورونوش کی چیزیں خاطر خواہ مقدار میں پیدا نہیں کر سکتے لیکن چوہتر سال سے اِس بحث میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان کس قسم کی ریاست ہونی چاہئے تھی۔ جناح صاحب کی وفات کے بعد پہلا کام جو ریاست کو درپیش تھا وہ آئین کا بنانا تھا۔ وہ کام تو جلد ہو نہ سکا لیکن قائد اعظم کے بعد کے لیڈر مقاصدِ پاکستان ترتیب دینے میں مشغول ہو گئے۔ کوئی دانشور بتائے تو سہی کہ قرارداد مقاصد کا مطلب کیا تھا؟ اُس کی ضرورت کیا تھی؟ ہندوستان نے سال دو سال میں آئین ترتیب دے دیا، ہم مقاصدِ ریاست بنانے میں لگے رہے۔ مذہب کی بحث ایسی چلی کہ اب تک تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ ہمیں کس پردھان نے سبق سکھایا کہ پاکستان کا مسئلہ مذہب ہے؟ جہاں ستانوے یا اٹھانوے فیصد لوگ ایک ہی مذہب کے پیروکار ہوں وہاں کس دانشوری کے تحت مذہب کو مسئلہ بنا دیا گیا؟ کمیونسٹ ملکوں کے علاوہ مذاہب تقریباً ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ دیگر دنیا میں ایسی بحثیں نہیں ہوتیں، ہم نے ہی یہ بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ کبھی ہم پاسپورٹوں میں مذہب کا ایک خانہ ڈال دیتے ہیں، اب کسی نے مسئلہ اٹھایا ہے کہ نکاح ناموں میں فلاں فلاں سطور درج ہونی چاہئیں۔ ''تحفے‘‘ میں قوم کو جو وزیر اعظم ملے ہیں اُن کے ہاتھ سے تسبیح نہیں جاتی۔ بہت اچھی عادت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکمرانی کے سبق بھی کچھ سیکھ جائیں، معیشت کے رموز بہتر طور پر سمجھ جائیں۔ لیکن نہیں، کبھی بات ریاستِ مدینہ کی کرنی ہے کبھی مذہب کے نام سے اتھارٹیاں قائم کرنی ہیں ایسی اتھارٹیاں جن کا نہ کوئی مقصد نہ افادیت۔
پاکستان کا مسئلہ مذہب نہیں سیاست ہے۔ یہاں پہ سیاست کا مطلب یہ کہ اچھے لیڈر آئیں جو فضولیات سے اجتناب کریں اور قوم کو ترقی کے راستے پہ ڈالیں۔ یہ ہم سے ہوا نہیں، شاید ہماری تقدیر میں ایسا لکھا نہیں یا کسی وجہ سے آسمان ہم سے ناراض رہے۔ یعنی جو کام کرنے کے ہیں وہ ہوتے نہیں لیکن فضول بحثوں میں لیڈران کیا اور قوم کیا سب پڑے ہوئے ہیں۔ قرارداد مقاصد تو پاس ہو گئی لیکن حکمران طبقات کو اِس بات میں مشکل پیش آتی رہی کہ مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ مناسب رویہ کیا ہونا چاہئے۔ قرارداد مقاصد کے پاس ہونے کے بعد ہی پاکستان کو مغربی دفاعی معاہدوں میں پھنسا دیا گیا۔ کیا پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے دم چھلے بن جائیں؟ کیا اسلام کی سربلندی کا تقاضا یہ تھا کہ ہم بغداد معاہدے میں جائیں اور سینٹو اور سیٹو کے وفادار ترین رکن ہو جائیں؟ قرارداد مقاصد کا مقصد یہ تھا کہ ملک پہ نوکر شاہی کا تسلط قائم ہو جائے اور ملک کے ساتھ وہی ہو جو جنرل ایوب خان اور اسکندر مرزا چاہتے تھے؟
اٹھانوے فیصد والے مسلم ملک میں کوئی تُک بنتی ہے کہ مذہبی موضوعات پہ کوئی اشتعال میں آئے؟ محافظانِ ملت و محافظانِ اخلاقیات کو کون سمجھائے کہ بحث کرنی ہے تو معیشت اور خوشحالی کے بارے میں ہونی چاہئے؟ دنیا سنورے گی تو آخرت کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں گے۔ اگر قوم کو کرۂ ارض کا ایک خطہ رہنے اور جینے کیلئے عطا ہوا ہے تو کیا اولین آسمانی اور زمینی فریضہ یہ نہیں بنتا کہ اِس خطۂ زمین کو خوبصورت بنانے اور سنوارنے میں کوئی کسر نہ اٹھائی جائے؟ تصورِ قائد پھر کیا بنتا ہے؟ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ اِس دھرتی کو بیوقوفی اور جہالت سے پاک کیا جائے۔ تصورِ قائد یہ بنتا ہے کہ ریاست اور اُس کے امین جہالت اور بے وقوفی کے نعروں کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکیں۔ اِس تصور کا مفہوم یہ بھی ہے کہ پاکستان میں تعلیم ایک جیسی ہو اور خواندگی سو فیصد ہو۔ اِس معیار کی خواندگی سری لنکا اور ہندوستانی ریاست کیرالا میں ہو سکتی ہے تو یہاں کیوں نہیں؟ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی میں اگر علاج اور مکمل علاج مفت ہے تو اسلام کے نعروں سے گونجتے ہوئے ملک میں کیوں نہیں؟ یہ حضرتِ قائد اعظم کا تصور تھا کہ بیشتر محکمے اپنا کام چھوڑ کے زمین اور پلاٹوں کے کاروبار میں لگ جائیں؟ اور یہ جسے ہم ازلی دشمن کہتے ہیں یہ تصور تو قائد کا نہ تھا۔ تقسیم ہند کے لیے وہ لڑے لیکن جب تقسیم ہو گئی اور ہمیں ایک علیحدہ ملک مل گیا تو اُنہوں نے اِس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات جیسے ہونے چاہئیں۔
ہم برباد ہوئے تو کسی دشمن کے ہاتھوں نہیں۔ ہمیں اپنی بیوقوفیاں مار گئیں۔ 65ء کی جنگ کا مقصد کیا تھا؟ خودساختہ فیلڈ مارشل کو کس نے کہا تھاکہ بغیر سوچے کشمیر میں گوریلا مہم شروع کریں؟ جنگ ہوئی تو پاکستان ہل کے رہ گیا اور خود ساختہ فیلڈ مارشل پہ بوکھلاہٹ کا عالم طاری ہو گیا۔ افغانستان کی آگ میں کودنے کا کس عقلمند نے ہمیں بتایا تھا؟ نام نہاد جہاد کا ساتھ دیتے ہوئے اپنا حلیہ بگاڑ لیا۔ ہم سے کام وہ لیا گیا جو دم چھلے کرتے ہیں۔ کام مکمل ہوا تو شکریہ بھی ادا نہ کیا گیا۔ امریکہ کا مقصد تھا ویت نام کا بدلہ لینا اور روس کو سبق سکھانا۔ مقصد پورا ہوا تو ہاتھ ملتے امریکہ نے اپنی راہ لی اور برتن دھونے کا کام ہم پہ چھوڑ دیا۔ تب سے لے کر آ ج تک ہم وہ برتن دھو رہے ہیں۔
پنڈت نہرو کے ہندوستان نے اعلیٰ تعلیم پہ دھیان دیا۔ وہاں کے ٹیکنالوجیکل انسٹیٹیوٹ اور یونیورسٹیاں عالمی لیول کی ہیں۔ بڑی بڑی کارپوریشنوں میں ہندوستانی نام نظر آتے ہیں۔ چین کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ جنوبی کوریا نے پہلی ترجیح تعلیم کو دی۔ ہماری قومی گفتگو کوئی سنے تو سمجھ نہ آئے کہ کس قسم کی یہ مخلوق ہے۔ اوپر سے سیاست ہماری نااہلوں اور راشیوں کے قبضے میں ہے۔ نام نہاد اشرافیہ کے لوگ‘ اُن کے بچے باہر پڑھ رہے ہیں یا اُن کی دولت کہیں باہر جمع ہے‘ لیکن کہتے ہیں: وفاداری پاکستان سے ہے۔ جس کسی کو باری ملی اُس نے حتی المقدور قوم کی جیبوں پہ ڈاکہ ڈالا‘ لیکن کوئی بات نہیں، عقیدہ ہمارا مضبوط ہے، ارادے نیک ہیں۔ یہ دنیا نہ سہی آنے والی دنیا تو ہماری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved