تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     29-12-2021

میاں نواز شریف کے نام

محترم میاں محمد نواز شریف صاحب!
السلامُ علیکم‘ امید ہے آپ لندن میں تندرست اور خوش و خرم دن گزار رہے ہوں گے۔ تازہ ترین تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی صحت پہلے سے کافی بہتر ہے۔ اگرچہ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ لندن جانے سے پہلے بھی آپ کی صحت ٹھیک تھی لیکن مجھے علم ہے کہ لندن میں ڈاکٹر آپ کی مسلسل خبرگیری کرتے ہیں اور آپ کے علاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ آپ کو یہ جان کر یقینا مسرت ہوگی کہ آج بھی آپ کا نام پاکستان کی سیاست میں اتنی بار ہی لیا جاتا ہے جتنی بار اس وقت لیا جاتا تھا جب آپ وزیراعظم تھے۔ اگرچہ آپ ملک سے باہر ہیں لیکن پاکستان میں کوئی خبر، کوئی کالم، کوئی ٹی وی پروگرام، یوٹیوب پر کوئی وی لاگ حتیٰ کہ کوئی محفل ایسی نہیں جہاں سیاست پر بات ہو اور آپ کا ذکر نہ آئے۔
میاں صاحب، گزشتہ دو مہینے سے پاکستان میں یہ بات تسلسل سے کہی جارہی ہے کہ آپ ایک بار پھر ہیئت مقتدرہ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے وہی راستہ اختیار کررہے ہیں جو ماضی میں کیا تھا یا جس کا الزام آپ عمران خان پر لگاتے ہیں۔ آپ کی پارٹی کے زعما توکئی بزرگوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ آپ سے رابطے میں ہیں اور مبینہ طور پر آپ کی ملک واپسی کی تفصیلات طے کررہے ہیں۔ میرے سینئر دوست سلیم صافی نے تو چند دن پہلے ایک ٹویٹ کے ذریعے بتادیا ہے کہ آپ کی آمد آئندہ جنوری میں ہوگی۔ ان کے مطابق آپ رضاکارانہ جیل جائیں گے اور پھر قانون کی کوئی ایسی کل مروڑی جائے گی کہ آپ کے خلاف سبھی فیصلے بدل جائیں گے۔ میں سلیم صافی صاحب کی بات کو جھٹلا نہیں سکتا اور جہاں تک میں انہیں جانتا ہوں، وہ بے پر کی اڑانے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ آپ کی جماعت کے بھی کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ اس انتظام کے عوض آپ نے چند ایسی باتیں بھی مان لی ہیں جو ان دعووں اور تقریروں کے برعکس ہیں جو آپ نے ستمبر 2020 میں کی تھیں۔ حال ہی میں آپ کے دور حکومت کے دوران قومی اسمبلی کے سپیکر رہنے والے ایاز صادق آپ سے مل کر وطن لوٹے تو انہوں نے بھی ذومعنی باتیں کی۔ یہاں تک کہا کہ 'کچھ ہونے والا ہے‘۔ یہ غالباً اسی طرح کی کوئی بات ہے جیسی عمران خان 2014 میں دھرنے کے دوران کنٹینر پر کھڑے ہوکر کیا کرتے تھے۔ یہ سب کچھ جو میں نے عرض کیا‘ اخبارات میں چھپ چکا ہے اور ٹی وی پر کہا جاچکا ہے، یعنی ایک ماحول بن چکا ہے۔ پاکستانی سیاسیات کے ایک ادنیٰ طالبعلم کے طورپر میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دراصل یہ سٹیج ہے، یہاں ایک ڈرامہ کھیلنے کی تیاری ہورہی ہے جسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی ہم سب اسے حقیقت ہی سمجھ رہے ہوں گے۔
محترم میاں صاحب، پاکستانی سیاست کے تضادات اور عجائبات آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ انیس سو اٹھاسی میں محمد خان جونیجو کی حکومت جنرل ضیاالحق نے ختم کی تو آپ نے جنرل ضیاالحق کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے بعد آپ انہی کی قبر پر کھڑے ہوکر ان کا مشن آگے بڑھانے کا اعلان کرتے رہے۔ پھر یہ نظارہ بھی چشم فلک نے دیکھا کہ آپ نے جنرل ضیاالحق کے قریبی ساتھی صدر غلام اسحٰق خان کی مدد سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو چلتا کیا اور پھر آپ ہی غلام اسحٰق خان کے خلاف ڈٹ گئے تھے۔ آپ ہی کے زور پر صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت برخاست کی تھی اور پھر آپ ہی نے دستور سے اس جمہوریت شکن شق کا خاتمہ کیا جس کے تحت اسمبلی توڑنا صدر پاکستان کا پسندیدہ مشغلہ بنتا جا رہا تھا۔ یہ آپ ہی تو تھے کہ دستور میں پندرھویں ترمیم کے ذریعے ملک کو متشدد مذہبیت کی طرف دھکیلنا چاہتے تھے اور یہ بھی آپ ہی تھے کہ پاکستان میں مذہبیت کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو ان تضادات کو نمایاں کرکے آپ کی شخصیت میں کمزوریاں تلاش کرتے ہیں بلکہ میں ان تضادات کو ایک سیاستدان کی عملی مجبوریوں اور نظریاتی ارتقا کی صورت میں دیکھتا ہوں۔ آپ دنیا کے خوش قسمت ترین سیاستدانوں میں سے ہیں کہ عوام نے آپ کے اس نظریاتی ارتقا کے ہر مرحلے پر آپ کا ساتھ دیا۔ آپ نے ہاں کہا تو عوام نے اسے قبول کیا، آپ نے 'ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ کا دعویٰ کیا تو بھی لوگوں نے اس پر اعتبار کیا۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ آپ کا ووٹر ایک بار پھر آپ کی آواز سے آواز ملائے گا‘ لیکن کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا جب آپ کی سیاست کسی مصلحت یا کسی مفاد کے تابع ہونے کے بجائے خالص اصول پر استوار ہوجائے؟ کیا اب آپ ایسی مثال قائم نہیں کرسکتے کہ آپ کی جماعت جمہوری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے صرف اور صرف ووٹ کے بل پر حکومت میں آئے اور سازش کے راستے حاصل ہونے والی رعایتوں کا انکار کردے؟
جناب عالی، پارلیمانی جمہوریتوں میں ایک ہی شخص کا تین بار وزیراعظم بن جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ قدرت نے آپ کو تین بار پاکستان جیسے بڑے ملک کا وزیراعظم بنایا۔ اس ملک کی تاریخ کسی بھی حوالے سے لکھی جائے، آپ کا نام اس کے بیشتر صفحات پر موجود ہوگا۔ آپ چوتھی بار بھی وزیراعظم بننا چاہیں تو یہ آپ کا جمہوری حق ہے لیکن میرے جیسے بہت سے نیازمند آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ اب آپ سیاستدان کے مرتبے سے بلند ہوکر مدبر بن کر سوچیں۔ آپ کی سوچ کا محور الیکشن جیتنا نہ رہے بلکہ ملک کے مسائل کا دیرپا اور مستقل حل ہو۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو سازش کے ذریعے اقتدار سے نکالا گیا تو خدارا آپ کسی ایسی سازش کا حصہ نہ بنیں جس کا انجام حکومت کا خاتمہ ہو۔ یوں بھی اب عام انتخابات میں زیادہ عرصہ نہیں بچا۔ ایک سال آٹھ مہینے بعد تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوجائے گی اور فیصلہ ایک بارپھر عوام کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ اگر آپ موجودہ حکومت گرانے میں کوئی کردار ادا کریں گے توپھر عین ممکن ہے کہ عام انتخابات میں آپ کو اس جگہ سمجھا جائے جہاں آپ کے خیال میں آج عمران خان ہیں اور عمران خان وہاں دکھائی دیں جہاں کچھ عرصے تک آپ کے کھڑے ہونے کا سبھی کو یقین تھا۔ اگر آپ کسی مشکوک طریقے سے ایک بار پھر اقتدار میں آبھی جاتے ہیں تو یقین مانیے آپ پاکستان کو جمہوری حوالے سے ایک بار پھر وہیں لے جائیں گے جہاں سے آپ ہی نے اسے آگے بڑھایا تھا۔
جناب! پاکستانی سیاسی کا ایک اور پہلو بھی آپ کی توجہ کا طالب ہے۔ وہ یہ کہ جب سے آپ نے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے، تبھی سے پاکستان کے اہم ترین سیاسی فیصلے ملک سے باہر ہونے لگے ہیں۔ میثاق جمہوریت کے بعد این آر او کا فیصلہ ہوا تو جنرل پرویز مشرف نے بھی محترمہ سے متحدہ عرب امارات میں بات چیت کی۔ آپ کی حکومت کے خلاف عمران خان نے دھرنا دیا تو اس کی منصوبہ بندی بھی مبینہ طور پر لندن میں ہوئی۔ اب آپ گزشتہ دو سالوں سے لندن ہی سے اپنی پارٹی کی رہنمائی کررہے ہیں۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ حالات کچھ بھی ہوں، ملک سے باہر بیٹھ کر ملک میں سیاست کرنے کا یہ طرزعمل بالواسطہ طورپر پاکستان کی خود مختاری پرضرب لگاتا ہے؟ اب ایک بار پھر یہی صورتحال بنتی نظر آرہی ہے کہ آپ ملک سے باہر بیٹھے ہیں اور یہاں حکومت کے گرائے جانے کی ایک سازش آپ سے منسوب کی جارہی ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ آپ بھی کسی 'لندن پلان‘ کا حصہ ہیں؟
تین دن پہلے آپ کی سالگرہ تھی جو آپ کے کارکنوں نے کافی جوش و جذبے سے منائی۔ آپ کی سالگرہ پر مبارک باد۔
خیراندیش

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved