تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     31-07-2013

مصر اور شام کی خطر ناک صورتِ حال

امریکہ کے سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے ایک موقعہ پر کہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ مصر کے بغیر نہیں ہو سکتی اور شام کے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں۔کسنجر نے یہ بیان 1973ء کی چوتھی عرب اِسرائیل جنگ کے بعد دیا تھا اور اس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں امن،استحکام اور سلامتی کیلئے ان دونوں ملکوں کی جیو سٹریٹجک اہمیت کو واضح کرنا تھا۔ہنری کسنجر واحد سٹریٹجک تھنکر نہیں جنہوں نے ترکی سے لے کر شام،فلسطین،مصر،لیبیا،تیونس،الجیریا اور مراکو تک بحر روم کے مشرقی ساحل کی پٹی پر واقع ممالک کی اہمیت کو بیان کیا ہو۔ نپولین‘ جس نے ہندوستان پہنچنے کیلئے مصر پر حملہ کیا تھا،نے اس کی جیو سٹریٹجک اہمیت کوتسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دنیاکا اہم ترین ملک ہے۔جان گلب پاشا‘ جو اردن کی مسلح افواج کے کمانڈر رہے،نے اپنے ایک مضمون میں اس خطے کی تاریخی اور جنگی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاتھا کہ دنیا میں کوئی ایسا خطہ نہیں جس پر قبضہ کرنے کیلئے ملکوں،سلطنتوں اور تہذیبوں کے درمیان اس قدر جنگیں ہوئی ہوں یا خون بہا ہو۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی ایمپایئر‘ خواہ وہ قدیم ایرانیوں کی ہو،یا سکندر اعظم،رومیوں کی ہو یا عربوں کی،عثمانیوں کی ہویا انگریزوں کی،اس خطے پر قبضہ کے بغیر مکمل تصور نہیں ہوتی تھی‘ اور وجہ بھی بالکل واضح ہے۔یہ خطہ تین براعظموں یعنی ایشیا‘ افریقہ اور یورپ کو ملانے والی قدیم تجارتی شاہراہوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے تاریخ میں فاتح کی حریص نظروں کا مرکز رہا ہے۔ قدیم شاہراہ ریشم پر چلنے والے چینی اور ہندوستانی سازو سامان سے لدے پھندے تجارتی کاروان اپنا مال یورپ اور افریقہ تک پہنچانے کیلئے بحر روم کی اس پٹی پر واقع شہروں میں قیام کرتے تھے۔ اس تجارت سے حاصل ہونے والی دولت ہی دراصل اس خطے پر مختلف حملوں‘ خواہ وہ منگولوں کی صورت میں یا صلیبی جنگوں کی شکل میںتھے ،کا محرک تھی۔ جدید دور میں تجارت کی جگہ تیل نے لے لی ہے اور خطے پر کنٹرول حاصل کرنے کے طریقے بھی بدل گئے ہیں۔اب براہ راست حملہ یا قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں اگرچہ اکیسویں صدی میں بھی ایسا ہوا ہے جیسے2001ء میں افغانستان اور 2003ء میں عراق پر امریکی حملے۔اب یہ مقصد خطے میں واقع ملکوں کو آپس میں لڑا کر یا انہیں اندرونی عدم استحکام اور خانہ جنگی جیسی صورت حال سے دو چار کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔اس کی دو مثالیں ہمیں ماضی قریب میں ملتی ہیں یعنی ایران،عراق جنگ جو تقریباً 9سال تک (1979-88ء) جاری رہی اور پہلی خلیجی جنگ (1991ء) جس میں عراق نے کویت پر حملہ کیا تھا اور امریکہ نے بیس کے قریب ملکوں کے برائے نام اتحاد کے لیڈر کی حیثیت سے عراق پر حملہ کیا تھا۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان دونوں ملکوں پر حملہ کرنے کیلئے عراق کو امریکہ نے نہ صرف اکسایا تھا بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ عراق ،ایران جنگ طول پکڑے،خطے میں اپنے حواری ملکوں کے ذریعے عراق کی مالی اور فوجی امداد بھی کی تھی۔اس جنگ کا سوائے اس کے اور کوئی مقصد نہ تھا کہ خطے میں دوبڑے اور طاقتوراسلامی ملک یعنی ایران اور عراق کو کمزور کیا جائے۔ایران سے جنگ ختم کرنے کے بعد جب عراق اپنے پائوں پر کھڑا ہوا تو اسے اس یقین دہانی پر کویت پر حملہ کرنے کی ترغیب دی گئی کہ امریکہ کو اس پرکوئی تعرض نہیں ہو گا۔لیکن عراقی حملہ کے بعد کویت کو آزاد کروانے کے بہانے عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسی جنگ تھی جس پر امریکہ کو اپنے پلے سے ایک دھیلا بھی خرچ نہ کرنا پڑا‘ بلکہ اس جنگ پر اٹھنے والے تمام اخراجات اس نے عرب ممالک سے حاصل کیے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کے حصول کیلئے امریکہ کے سامراجی ہتھکنڈوں کی یہ واحد مذموم مثالیں نہیں۔مصر اور شام میں اس وقت جو صورت حال ہے ا س کااگر بغور جائزہ لیا جائے توا ْس کے پیچھے بھی یہی مفادات کارفرما نظر آتے ہیں؛ البتہ براہ راست ملوث ہونے کی بجائے اپنے حمایتی عناصر سے وہی کام لیا جا رہا ہے۔ مصر اور شام ایک ایسے خطے میں واقع ہیں جو وسطی ایشیا اور شمالی افریقہ سے جغرافیائی طور پر منسلک ہونے کی وجہ سے عالم اسلام کا ہارٹ لینڈ(Heart Land)کہلاتا ہے۔ماضی میں یہاں پہ ہونے والی ہرسیاسی تبدیلی یا فکر کی اٹھنے والی لہر نے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا بلکہ مشرق بعید تک پھیلے ہوئے عالم اسلام کو متاثر کیا ہے۔گزشتہ دو ڈھائی برس سے اس خطے میں ایک دفعہ پھر تبدیلی اور بیداری کی لہر آئی ہے۔ اس تبدیلی کا مقصد‘ جسے Arab Springکا نام دیا گیا ہے،سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ عوام کو خود ان کی مرضی کے مطابق اپنے حکمران چننے کا موقعہ دیا جائے،نہ صرف شخصی آمریت بلکہ معاشرے میں ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر بالا دستی ختم کی جائے اور رنگ، نسل، مذہب یا عقیدے پر مبنی امتیازی سلوک کو خیر باد کہا جائے۔اگر عالم اسلام کے ممالک یہ مقاصد حاصل کرلیتے ہیںتو نہ صرف ان کے اندر قومی اتحاد اور یگانگت کی بے مثال بنیاد قائم ہو سکتی ہے بلکہ ان کو درپیش غربت،جہالت،بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل سے بھی نجات مل سکتی ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ عالمی سطح پر ایک موثر اور مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں؛ البتہ ان عالمی طاقتوں خصوصاً امریکہ کے مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیںجنہوں نے ایک عرصہ سے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے دنیا کے اس اہم اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطے پر اپنا بالواسطہ قبضہ جما رکھا ہے۔مصر اور شام میں خانہ جنگی کا مقصد صرف اس قبضے کو دوام بخشنا ہے اور اس میں نقصان ان دونوں ملکوں کے عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے مثلاً مارچ 2011ء میں شام میں شروع ہونے والی بغاوت میںاب تک ایک لاکھ کے قریب افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں اور ہزاروں خاندانوں کو جن میں عورتوں اور بچوں کی اکثریت ہے،ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ لیکن مصر میں فوج کی طرف سے صدر مورسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد حالات جو رخ اختیار کر رہے،وہ خود مصر کیلئے ہی خطر ناک نہیں ،پورے خطے کے امن اور استحکام کو متاثر کر سکتے ہیں۔وہاں عملاً ایک خوفناک خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے مشرقِ وسطیٰ کا یہ سب سے بڑا ملک‘ جس کی فوج کو کبھی عوام انقلاب کا نقیب سمجھ کر ویلکم کرتے تھے،اب اپنی ہی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ لوگ دو متحارب دھڑوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف ریلیوں اور جلوسوں کے ذریعے نہ صرف طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں بلکہ متعدد بار باہمی تصادم بھی ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے دونوں طرف سے لوگ مارے جارہے ہیں۔اس صورت حال کو تادیرنہ تو مصر برداشت کر سکتا ہے اور نہ ہی اس خطے کے عوام یا عالمی برادری اس کی متحمل ہو سکتی ہے۔کیوںکہ مصر میںلگی آگ کے شعلے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں اور اپنی جغرافیائی حیثیت تیل کی دولت اور سٹریٹجک لوکیشن کو وجہ سے ایک غیر مستحکم مشرق وسطیٰ پوری دنیا کے امن اور استحکام کیلئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved