یہ حقیقت اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مودی سرکار اگلا الیکشن جیتنے کے لیے بھی مذہب کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ مودی اور اُن کی ٹیم کے پاس بیان کرنے کو اب کچھ رہا ہی نہیں۔ ایسے میں زیادہ سے زیادہ یہی کیا جاسکتا ہے کہ مذہب کا سہارا لے کر عوام کو پھر بے وقوف بنایا جائے۔ بہت کچھ کرنے اور عوام کو خوشحالی سے ہم کنار کرنے کے سارے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مودی اور اُن کی ٹیم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ لوگ الیکشن کے موقع پر اٹھ کھڑے ہوں گے اور پانچ سالہ کارکردگی کی حساب طلب کریں گے۔ عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔ ایسے میں شاندار مندر بناکر عوام کے جذبات سے کھیلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ بھارت کے وزیر اعظم نے مرکزی ایوان ہائے اقتدار میں کم و بیش سوا سات سال گزارے ہیں۔ اس دوران انہوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاکر اور ہندومت کو درپیش ''خطرات‘‘ گنوانے سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کیا۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر ''رام جنم بھومی مندر‘‘ کی تعمیر کے ذریعے ہندوؤں کو یقین دلایا گیا کہ مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا گیا ہے! ایودھیا کے بعد کاشی، متُھرا اور بنارس میں بھی شاندار مندر کمپلیکس تعمیر کرکے ہندوؤں کو جذباتی کیا جارہا ہے تاکہ ووٹ بینک کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکے۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرتے رہنے کی بنیادی وجہ تلاش کرنے پر بھی کام ہوا ہے۔ ہندوؤں کو اسلام قبول کرنے سے روکنے کے لیے تبدیلیٔ مذہب کے امتناع کا قانون بنایا گیا ہے۔ ملک بھر میں ہندو لڑکیاں مسلم لڑکوں سے شادی کے لیے اسلام قبول کرتی ہیں۔ اس سلسلے نے زور پکڑا تو انتہا پسند ہندوؤں نے اِسے ''لَو جہاد‘‘ کا نام دے دیا اور اس کی آڑ میں بہت سے مسلم لڑکوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جن ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے مسلم لڑکوں کو اپنایا تھا‘ اُنہیں بھی نہیں بخشا گیا۔ سنگھ پریوار یعنی انتہا پسند ہندو تنظیموں کے گروپ کے پاس مسلمانوں کے لیے کچھ بھی نہیں‘ اس لیے انتہائی غیر ضروری معاملات کو ایشو بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا۔ کہیں مسلمانوں کو گوشت کھانے یا لے جانے کی پاداش میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کہیں کسی مسلمان کو محض کسی کھلی جگہ نماز پڑھنے کی پاداش میں زد و کوب کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی شرم ناک طریقے سے کیا جارہا ہے۔ کرسمس کے موقع پر انتہا پسند ہندوؤں نے دہلی کے نزدیک ہریانہ کے علاقے گُڑ گاؤں میں مسیحیوں کو عبادت سے روکا۔ عالمی برادری مسلمانوں کے خلاف متحرک ہونے میں دیر نہیں لگاتی۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو کسی بھی اقلیت کے خلاف چاہے کچھ بھی کر گزریں، عالمی برادری کا ضمیر سویا رہتا ہے۔ سارا کھیل معاشی مفادات کا ہے۔ ایک طرف بھارت بڑی منڈی ہونے کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور دوسری طرف وہ تربیت یافتہ افرادی قوت فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے نام پر شور مچاکر مسلمانوں کو مطعون کرنے والے بھارت کے کسی بھی غیر انسانی فعل کے خلاف آواز اٹھانے سے شرم ناک حد تک گریزاں رہتے ہیں۔
مسلمانوں کو کھلے مقامات پر نماز پڑھنے سے روکنے کے حوالے انتہا پسند ہندو غیر معمولی حد تک فعال ہیں۔ ایسے کئی واقعات کی وڈیوز وائرل ہوچکی ہیں۔ بھارتی دارالحکومت سے شائع ہونے والے ہندی کے روزنامہ ''دیش بندھو‘‘ نے ''ہم کیا ہوگئے ہیں؟‘‘ کے زیرِ عنوان ایک اداریے میں لکھا ہے ''پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک ایسی وڈیو وائرل ہوئی جس نے ہر باضمیر بھارتی کے دل و دماغ میں ہلچل برپا کردی۔ وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مذہب کے نام پر پیدا ہونے والے جنون سے اندھے ہو جانے والے چند ہندو ایک بزرگ کو کھلی جگہ نماز پڑھنے سے روک رہے ہیں اور وہاں جمع ہونے والے لوگ ہندو مت کے مذہبی نعرے لگا رہے ہیں۔ چند پولیس اہلکار ہنگامہ برپا کرنے والوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس دوران وہ بزرگ اطمینان سے نماز پڑھ رہے ہیں۔ یہ وڈیو دہلی سے ملحق علاقے گرو گرام کی ہے جہاں کچھ مدت پہلے کھلے مقامات پر نماز پڑھنے کو ایک بڑے ایشو میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اِسے ''لینڈ جہاد‘‘ کا نام دے کر معاشرے میں مذہبی بنیاد پر نفرت کا دائرہ وسیع کرنے کی سازش رچی گئی ہے اور اُس پر عمل بھی کیا جارہا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ انتظامیہ نے چند علاقوں میں کھلے عام جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت دے رکھی ہے اور اُن علاقوں کی فہرست بھی جاری کی گئی ہے۔ پہلے 37 مقامات پر نماز کی اجازت دی گئی۔ اب ایسے مقامات 29 ہیں جہاں مسلمان جمعہ کی نماز سڑکوں‘ پارکوں میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس معاملے کو خواہ مخواہ خراب کیا جارہا ہے۔ ایک ماہ قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کپل مشرا نے گڑ گاؤں کے سیکٹر اے میں ایک ایسی جگہ پوجا کرائی تھی جہاں مسلمان جمعہ کی نماز پڑھا کرتے ہیں۔ اس سے کچھ دن قبل گڑ گاؤں کے سیکٹر 37 میں جمعہ کی نماز کے لیے مختص جگہ پر کئی دیہات کے لوگوں نے مل کر پوجا کی تھی اور دعویٰ یہ کیا گیا تھا یہ پوجا ممبئی میں دہشت گردوں کے حملوں میں مارے جانے والوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے کی گئی۔ نماز کے لیے مختص جگہ پر لڑکوں کو کرکٹ کھیلتے بھی دیکھا گیا۔ ایک اور جگہ پوجا کے بعد گائے کا گوبر پھینک دیا گیا۔ اب مسلمانوں کو کھلے میں نماز پڑھنے سے روکنے کے نام پر ہنگامہ برپا کرنا جنونی ہندوؤں کا پسندیدہ ہتھیار بن چکا ہے۔ مسلمانوں کو کھلی جگہوں پر نماز پڑھنے سے روکنے کے تمام ہتھکنڈے مسلمانوں سمیت تمام مذہبی اقلیتوں کو یہ احساس دلانے کے لیے اپنائے جارہے ہیں کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ کسی کو عبادت سے روکنا قابلِ مذمت فعل ہے اور اضافی دُکھ اس بات کا ہے کہ یہ کام وہ لوگ کروا رہے ہیں جو خود کو عوام کا نمائندہ کہلواتے ہیں۔ کچھ دن قبل مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے جھاڑ کھنڈ ہائی وے پر نماز کا ایشو اٹھایا تھا۔ اُتر پردیش میں کیشَو پرساد موریہ نے جالی دار ٹوپی اور لُنگی (تہہ بند) والوں کو ہٹانے کا بیان دیا تھا۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات بالکل بے بنیاد ہے۔ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ اگر مسلمانوں کو کھلے میں نماز پڑھنے سے روکنے کے واقعات کی مذمت کرتے اور کہتے کہ آئندہ ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا تب تو اُن کی نیت کو نیک مانا جاسکتا تھا۔ ہم بات بات پر خود کو پاکستان سے بہتر بتاتے ہیں مگر سوچنا چاہیے کہ یہ دعویٰ ہم کب تک کرسکیں گے۔ نریندر مودی اور اُن کے ساتھی ملک کو مذہبی بنیاد پر پھیلائی جانے والی منافرت کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔ اُنہیں اِس ایجنڈے پر عمل سے روکنا ہوگا۔ اگر تمام مذاہب کے احترام پر یقین رکھنے والے بھارتی باشندے اٹھ کھڑے نہ ہوئے اور اپنا کردار ادا نہ کیا تو ملک خانہ جنگی کی دلدل میں بھی دھنس سکتا ہے‘‘۔
بھارت میں انتہائی معتدل ذہن اور سب کا احترام کرنے والا مزاج رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ صورتحال دیکھ کر چُپ رہتے ہیں۔ اُنہیں خاموش یا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے گریز کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان اور دوسرے مسلم و غیر مسلم ممالک کو بھی بھارت میں اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی۔ سِکھ اس معاملے میں خاصے متحرک ہیں۔ یہ وقت اُن کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ہے تاکہ بھارتی معاشرے میں اقلیتیں محفوظ رہ سکیں اور اعتدال کی راہ پر گامزن امن پسند ہندوؤں کے ساتھ بہتر زندگی بسر کرنا ممکن ہوسکے۔ جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں کیا جارہا ہے اُس کے خلاف پاکستان کو زیادہ سخت موقف اپناتے ہوئے اپنا کیس عالمی برادری کے ساتھ زیادہ پُرجوش انداز سے پیش کرنا ہوگا۔ بھارت میں حالات کی خرابی پورے خطے کو بُری طرح متاثر کرتی ہے۔ مودی سرکار اب کھل کر عندیہ دے چکی ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں بھی مسلم مخالف ایجنڈے پر عام‘ جذباتی ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنے پر توجہ دے گی۔ گائے، لَو جہاد اور لینڈ جہاد جیسے ہتھکنڈوں سے مودی اور اُن کی ٹیم کو دور رکھنے کیلئے بھارتی مسلمانوں کو دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ مل کر بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ مودی کا اندھا جنون ثقافت اور اخلاقی اقدار کو روندنے پر تُلا ہوا ہے۔