تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     30-12-2021

رونقِ شہر اور گرمیِ بازار

اللہ جانے یہ شوق اسے وراثت میں ملا ہے یا ادھر سکول کی لائبریری اور استانیوں کی حوصلہ افزائی کے باعث ایسا ہوا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ سیفان کو کتابیں پڑھنے کا بہت زیادہ شوق ہے پھر ماشااللہ اس کی یادداشت بہت اچھی ہے۔ جو چیز پڑھ لے یاد کر لیتا ہے۔ ضوریز ہر بات میں اپنے بڑے بھائی سیفان کی نقل کرتا ہے لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ وہ مقابلے میں کتاب نہ خریدے اور جب سیفان اپنی کتاب کھولے ضوریز کوئی اور کام کرے۔ اس مقابلے بازی کی فضا میں نہ صرف یہ کہ بچے کتابیں پڑھتے رہتے ہیں بلکہ آپس میں اپنی اپنی پڑھی ہوئی کتاب کے حوالے سے معلومات کا مقابلہ بھی چلتا رہتا ہے اور بچوں کا علم اور Exposure بھی بڑھتا رہتا ہے۔
گزشتہ ہفتے بچوں کو چھٹیاں ہوئیں تو طے پایا کہ پیریز برگ کی شدید سردی سے نسبتاً کسی بہتر موسم والی جگہ پر چھٹیاں گزاری جائیں۔ قرعہ فال امریکی ریاست ٹینیسی کے شہر گیٹلن برگ کے نام نکلا۔ یہ علاقہ گو پہاڑی ہے اور مشہور امریکی پہاڑی سلسلے ''سموکی ماؤنٹینز‘‘ کے وسط میں واقع ہے؛ تاہم موسم کا حال دیکھا تو اگلے آٹھ دس دن موسم کھلا ہوا، درجہ حرارت کافی بہتر اور سب سے مزے کی بات یہ تھی کہ دن ''سنی‘‘ تھے۔ گیٹلن برگ میں کیا نہیں ہے؟ چھوٹا سا شہر ہے اور ہر قسم کی دلچسپیوں سے بھرا ہوا۔ جب ہم مغرب یا یورپ سے ''ہر قسم کی دلچسپیوں‘‘ کا جملہ لکھتے ہیں تو ہمہ وقت تنقید کی تلوار اٹھائے ہوئے قارئین اس سے اپنی مرضی کا صرف ایک ہی مطلب نکالتے ہیں اور پھر اس مفہوم کے نیزے پر ہمیں چڑھا لیتے ہیں۔ انگلینڈ میں پب اور امریکہ میں بار کا ہونا نہ تو کوئی غیرمعمولی شے ہے اور نہ ہی اسے یہاں دلچسپی کی ہی کوئی چیز سمجھا جاتا ہے۔ یہ یہاں کی عام زندگی کا حصہ ہے۔ مشین پر کھیلے جانے والا جوا بالکل ٹکے ٹوکری ہے اور وقت گزاری کے زمرے میں آتا ہے، بوڑھے اس پر ڈالر دو ڈالر لگا کر خوش ہو جاتے ہیں لیکن گیٹلن برگ میں ایسی دلچسپیاں ہیں کہ بچے، جوان اور بوڑھے یکساں لطف اندوز ہوتے ہیں۔
چھوٹا سا شہر ہے مگر ایسا پُررونق کہ جب بھی آئے اسے اس طرح پایا‘ گویا میلہ لگا ہوا ہے اور اس بار تو کرسمس کی آمد کی وجہ سے یہ رونق باقاعدہ ہجوم کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ شہر میں بلامبالغہ درجنوں نہیں سینکڑوں ہوٹل ہیں۔ درجنوں ریسٹورنٹ ہیں لیکن عالم یہ تھا کہ قطار میں لگے بغیر جگہ ملنا ممکن نہیں تھا۔ اچھے ناموں والوں ریسٹورنٹس کے باہر ستر اسی لوگوں کی قطار تو عام تھی۔ اس کے باوجود نہ کوئی دھکم پیل تھی اور نہ ہی بے ترتیبی۔ سب لوگ ا پنی باری کے انتظار میں نہایت اطمینان اور سکون سے قطار میں لگے رہتے ہیں۔ مغرب میں تمام تر پھرتیوں کے باوجود کوئی قطار کو نہیں توڑتا اور اپنی باری کا صبر سے انتظار کرتا ہے۔ ادھر ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ کسی کو بظاہر کوئی کام بھی نہیں مگر سڑک پر اتنی جلدی ہوتی ہے کہ لگتا ہے ہر شخص اقوام متحدہ کا جنرل سیکرٹری ہے اور اس نے ساری دنیا کے مسائل کو ابھی اگلے ایک گھنٹے میں حل کرنا ہے اور اس کے پاس وقت بالکل نہیں ہے۔
دو عدد تو چیئر لفٹ ہیں۔ دو پہاڑوں کے درمیان رسیوں سے بنا ہوا لٹکتا ہوا پل ہے جو قریب ایک کلومیٹر لمبا ہے۔ مشہور زمانہ عجیب و غریب اور ناقابل یقین اشیا کو ریکارڈ پر لانے اور اکٹھا کرنے والے شخص رابرٹ رپلی کے نام پر قائم کردہ تین چار میوزیم اس شہر میں ہیں۔ رپلی نے اپنے ان تجربات، مشاہدات، جمع کردہ اشیا، نایاب تصاویر اور عجوبوں پر ایک کتاب بھی لکھی جو Ripley's Believe It or Not! کے نام سے درجنوں بار چھپ چکی ہے۔ رپلی نے اس دوران دنیا بھر سے بیس ہزار کے لگ بھگ تصاویر اور تیس ہزار کے لگ بھگ اشیا اکٹھی کیں۔ پہلی بار یہ کتاب 1931 میں چھپی۔ میرے پاس اس اولین ایڈیشن کی ایک خستہ حال کتاب ملتان میں پڑی ہے۔ رپلی کے میوزیم دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں یہ نایاب اور ناقابل یقین اشیا اور تصاویر نمائش کیلئے رکھی ہوئی ہیں۔ ایشیا میں یہ میوزیم چین، ہانگ کانگ، بھارت، انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں قائم ہیں۔ یورپ میں ڈنمارک، نیدرلینڈز اور برطانیہ میں جبکہ کینیڈا اور میکسیکو میں اس قسم کے تین تین میوزیم ہیں۔ آسٹریلیا میں اس کی ایک شاخ ہے جبکہ امریکہ بھر میں مختلف شہروں اور ریاستوں میں سولہ عدد رپلی میوزیم ہیں۔ گیٹلن برگ میں قائم رپلی میوزیم اس قسم کے قائم کردہ چند قدیم ترین عجائب گھروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ 1970 میں قائم ہوا تھا۔ گیٹلن برگ میں رپلی کے ''ناقابل یقین‘‘ والے میوزیم کے علاوہ رپلی ایکیوریم، رپلی ہانٹڈ ایڈونچر اور رپلی کا متحرک تھیٹر ہے۔ اسی شہر میں ہالی ووڈ کی مختلف مشہور فلموں میں ہیرو کے زیر استعمال رہنے والی کاروں کا میوزیم ہے۔ درجن بھر منی گالف کورٹس ہیں۔ رولر کوسٹرز کی لاتعداد اقسام ہیں۔ ان ڈور اور آؤٹ ڈور ہر قسم کی گیمز ہیں اور دکانیں ایسی سجی ہوئی کہ صرف دیکھ کر ہی جی بھر جائے۔ بچوں کی کینڈیز (ٹافیاں) شاپ میں سینکڑوں اقسام کی ٹافیاں اور گولیاں ہیں۔ چاکلیٹ شاپ میں اتنی اقسام کی چاکلیٹ کہ میرے جیسا بندہ پریشان رہ جائے کہ کیا خریدے اور کیا چھوڑے اور آخرکار اسی پریشانی میں کچھ خریدے بغیر باہر آ جائے۔
اسی شہر میں ایک جگہ پر ستائیس دکانوں پر مشتمل ایک مختصر سا بازار ہے جس کا نام ''ویلیج‘‘ ہے۔ یہ میری پسندیدہ جگہ ہے۔ میں اس شہر میں اس سے قبل بھی برادر بزرگ اعجاز احمد کے ساتھ دو بار آکر چار پانچ دن گزار چکا ہوں۔ یہاں ہم دونوں بار ایسے موسم میں آئے تھے جسے آپ اس شہر کے حوالے سے ''آف سیزن‘‘ کہہ لیں۔ تب نسبتاً سکون تھا اور کسی حد تک خاموشی بھی۔ میں اس بازار کے درمیان لگے فوارے کے ساتھ رکھے ہوئے لکڑی کے بنچوں پر گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا۔ سامنے اندر دو دکانیں ہیں۔ ایک کا نام Coffee & Compan ہے۔ اس فوارے کے ساتھ پڑے بنچ پر بیٹھ کر کافی پینے کا جو مزا تھا وہ کہیں کم ہی نصیب ہوا۔ دوسری دکان پیپر پیلس (Pepper Palace) یعنی ''مرچوں کا محل‘‘ ہے۔ میں اس کے اندر جاتا ہوں۔ سینکڑوں قسم کی مختلف ذائقوں پر مشتمل مرچیلی ساسز اور ایسی ایسی تیز مرچوں والی چٹنیاں جن کا اردو ترجمہ کم از کم مجھ کم علم کے بس کی بات نہیں۔ بوتلوں، جاروں اور شیشوں کا ایسا مینا بازار سجا ہوا ہوتا ہے کہ دل کرتا ہے اور کچھ بھی نہ کریں تو تصویر ہی کھینچ لیں۔
میں اور کومل اس دکان کے اندر چلے گئے۔ درجنوں بوتلوں کے سامنے پلاسٹک کی دبا کر نکالنے والی بوتلیں پڑی تھی۔ کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی نے کہا کہ آپ ساری چٹنیاں اور ساسز چکھ سکتے ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے ایک ایک چھوٹا سا پلاسٹک کا چمچ ہم دونوں کو پکڑا دیا۔ پچیس تیس مختلف ساسز کو چیک کرنے کے بعد ہم نے تین جار خرید لیے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ ان چٹنیوں کو چکھیں اور پھر بغیر خریدے باہر آ جائیں۔ چیزیں بیچنے کا ہنر اس شہر میں عروج پر ہے۔ صرف سموکی ماؤنٹینز اور اس میں بسنے والے سیاہ ریچھوں پر ہزاروں قسم کی ٹی شرٹس، کپڑے، برتن، دنیا بھر کی اشیا، سووینئرز اور اتنا کچھ کہ بندہ سب کچھ بھول جائے۔ بالکل ویسے ہی جیسے میں یہ سب کچھ لکھتے ہوئے یہ بھول گیا ہوں کہ کالم شروع کہاں سے ہوا تھا اور میرا موضوع کیا تھا۔ دراصل یہ شہر ہی ایسا ہے۔ رونقِ شہر اور گرمیِ بازار میں بہت کچھ ادھر ادھر ہو جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved