تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     30-12-2021

نواز شریف صاحب نہیں آ رہے!

نواز شریف صاحب، کم از کم مستقبل قریب میں، نہیں آ رہے۔ یہ پیش گوئی نہیں، میرا تجزیہ ہے۔
پیش گوئی کی بنیاد غیب کی کسی خبر پر ہوتی ہے جیسے فلاں صاحب فلاں شخصیت سے ملے اور ان کے مابین فلاں بات طے ہوئی، جس کا تعلق مستقبل سے ہے۔ تجزیے کی بنیاد مستقبل کی خبر نہیں، ماضی و حال کے واقعات اور ان سے کشید کیے گئے نتائج ہیں۔ وہ نتائج جن کی اساس تجزیہ کار کا تاریخی شعور ہوتا ہے۔ جو لوگ میاں صاحب کی آمد کا سندیسہ دے رہے ہیں، وہ غیب کی اطلاع پہنچا رہے ہیں کہ نواز شریف صاحب کی اصحاب حل و عقد سے کچھ مبینہ ملاقاتیں ہوئیں جن میں کچھ معاملات طے پائے ہیں۔ میرے پاس ایسی کوئی خبر نہیں۔ میرے تجزیے کی بنیاد جن دلائل پر ہے، عرض کیے دیتا ہوں۔
1۔ میاں صاحب کی ملک میں واپسی کا مطلب عملی سیاست میں واپسی ہے۔ اس راہ میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ حائل ہے۔ یہ فیصلہ بظاہر کسی عدالتی عمل سے بھی معکوس نہیں ہو سکتا۔ چند عدالتی فیصلے اس بنیادی فیصلے پر مستزاد بھی ہیں۔ ان رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے لازم ہے کہ میاں صاحب اورتمام ادارے ایک پیچ پر ہوں۔ ویسے ہی جیسے ان کی نااہلی کے موقع پر دکھائی دیے۔ فی الحال اس کے کوئی آثار نہیں۔ اب اگرانہیں کوئی عملی کردار ادا نہیں کرنا تو میاں صاحب کیوں واپس آئیں گے؟
2۔ عدالت یا ماورائے عدالت، عمران خان صاحب ہر اُس عمل کی مزاحمت کریں گے جس کا مقصد نواز شریف صاحب کا فعال سیاسی کردار ہے۔ جیسے ہی اس کا ڈول ڈالا جائے گا، وہ پیج پھٹ جائے گا جس پر اس نظامِ سیاست کا مقدر لکھا ہے۔ جس دن یہ واقعہ ہوگا، سیاست کی باگ اپوزیشن بالخصوص نواز شریف صاحب کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ مقتدر حلقے فی الوقت اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر نیا ڈی جی نیب لاہور لایا گیا ہے تو یہ اقدام بلا مصرف نہیں۔ وہ شہباز شریف صاحب کی اس ضمانت کو بھی عدالت میں لے جا رہی ہے جو انہوں نے نواز شریف صاحب کی واپسی کے لیے دی تھی۔ اس سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ خاں صاحب کس مزاحمت کا ارادہ رکھتے ہیں۔
3۔ نواز شریف صاحب اور مقتدر حلقوں میں موجودعدم اعتماد کی فضا میں کمی نہیں آئی۔ یہ طے ہے ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ تلخی اُس سطح کی ہے کہ کوئی سیاسی مصلحت اس پر غلبہ نہیں پا سکتی۔ سیاست میں حریف و حلیف بدلتے رہتے ہیں اوراس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ اس بار معاملہ اس سے زیادہ ہے۔ بات مخالفت سے زیادہ دشمنی تک جاچکی ہے۔ بے نظیر بھٹو اور جنرل اسلم بیگ میں مصالحت ممکن تھی مگربے نظیر اور جنرل ضیاالحق میں نہیں۔ آج کوئی مصالحت اسی وقت ممکن ہے جب دونوں میں سے ایک تلوار بدلے گی۔ اس کے لیے دو برسوں یا پھر کسی خدائی فیصلے کاانتظار کرنا ہوگا۔
4۔ نوازشریف صاحب کا کہنا ہے کہ وہ ایک بیانیے کی سیاست کر رہے ہیں۔ یہ اقتدار کے کھیل سے ماورا، ایک نظریاتی یا اصولی سیاست ہے۔ اس مقدمے کا قصر اس دن ڈھے جائے گا جس روز میاں صاحب اس نظامِ سیاست سے مصالحت کر لیں گے۔ مکالمے میں کوئی برائی نہیں۔ برائی اس میں ہے کہ وہ اِس سیاسی بندوبست کوکسی جوہری تبدیلی کے بغیر قبول کر لیں اور اقتدار میں ان قوتوں کے ساتھ شریک ہو جائیں، جن کے خلاف وہ کھڑے ہوئے ہیں۔ ووٹ کی عزت پر کسی نوعیت کی مصالحت کا مطلب اپنے کاتے ہوئے سوت کو، اپنے ہی باتھوں سے ادھیڑنا ہے۔اس عمر میں نواز شریف صاحب سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی۔
5۔ اس مصالحتی عمل میں پیپلزپارٹی بھی مزاحم ہو گی۔ وہ موجودہ سیاسی بندوبست کو قبول کرنے پر آمادہ ہے اگر اس کے مفادات کا تحفظ ہو۔ پیپلزپارٹی کو سندھ میں عصبیت حاصل ہے۔ اس کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اگر اسے پنجاب میں سرپرستی مل جائے تووہ تحریک انصاف کا متبادل بن سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صوبے میں تحریکِ انصاف کا ووٹ بینک اصلاً پیپلزپارٹی کاہے جو نوازشریف سے نفرت کرتا ہے اور پیپلزپارٹی کی غیرفعالیت کے باعث تحریک انصاف میں چلا گیا تھا۔ اگر بادشاہ گر پیپلزپارٹی کے سرپر اپنا ہاتھ رکھ دیں تواس کی قیادت یہ گمان کرتی ہے کہ وہ انہیں نون لیگ کے خوف سے آزاد کر سکتی ہے۔
اب نون لیگ کے ساتھ مصالحت کا مطلب یہ ہے کہ اسے مقتدر حلقوں کے مخالف کیمپ میں دھیل دیا جائے۔ یوں پیپلزپارٹی اورتحریکِ انصاف میں قربت کے امکانات کو تقویت پہنچائی جائے۔ مقتدر حلقوں کیلئے شاید یہ خطرہ مول لینا بھی آسان نہ ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ملک کی سیاست میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئے گی۔ بحران اپنی جگہ موجود رہے گا۔
6۔ اگر نوازشریف صاحب کے ساتھ کوئی مصالحتی فارمولہ کامیاب نہیں ہوتا تو کیا وہ ملکی سیاست میں کوئی ایسا اضطراب پیدا کر سکتے ہیں جو موجودہ سیاسی بندوبست کی چولیں ہلادے؟ مار چ میں کوئی ایسا لانگ مارچ جو سب کچھ بدل ڈالے؟ جس تاریخ کو نواز شریف صاحب لاہور کے ایئر پورٹ پر اتریں، اسی دن یہاں سے اسلام آباد کی طرف ایک لانگ مارچ شروع ہو جس کی قیادت نواز شریف کریں؟ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کی آمد آیت اللہ خمینی صاحب کی طرح کی ہو جو نظامِ ریاست کو معطل کردے اور میاں صاحب کی گرفتاری ممکن نہ ہوسکے۔ نون لیگ یا پی ڈی ایم، اب تک توکسی ایسی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کر سکیں کہ ان سے ایسے اجتماع کی توقع باندھی جائے۔ اگر اس باربھی وہی کچھ ہونا ہے جو انتخابات سے پہلے نواز شریف صاحب کی آمد پر ہوا تھا تو اس مہم جوئی کا فائدہ؟
7۔ اگر پی ڈی ایم اس طرح کی کوئی منصونہ بندی کرتی ہے تو اس کے لیے چند ماہ کی عوامی رابطہ مہم کی ضرورت ہو گی۔ گویا یہ مارچ سے پہلے ممکن نہیں ہو گا۔ ایاز صادق کا مجلسی تبسم جنوری کی خبردے رہا ہے۔ اگر اس کودرست مان لیا جائے توپھر یہ آمد کسی عوامی تائید سے نہیں، کسی مصالحت کی نتیجے میں ممکن ہوگی۔ اس مصالحت کے مضمرات کا میں ذکر کر چکا جو اس آمد کو محال بناتے ہیں۔
یہ چند اہم دلائل ہیں جن کی بنیاد پر مجھے یہ امکان دکھائی نہیں دیتا کہ نوازشریف صاحب جنوری یا مستقبل قریب میں پاکستان آ سکیں۔ بعض مخبر یہ خبر بھی دے رے ہیں کہ اگر کوئی معاہدہ ہوتا ہے توتین ممالک اس کی ضمانت دیں گے۔ میرا خیال ہے کہ خفیہ معاہدوں میں کسی ضمانت کی کوئی قانونی حیثیت ہوتی ہے نہ اخلاقی۔ ان پر تکیہ وہی کرسکتا ہے جو امورِ سیاست سے بے خبر ہو اور میاں صاحب یقیناً ان سے بے خبر نہیں۔
اقتدار کے کھیل میں شریک سب قوتیں اس وقت بندگلی میں ہیں۔ یہ گتھی کچھ اس طرح سے الجھائی گئی ہے کہ اب اس کا سلجھنا کم وبیش ناممکن ہے۔ جنہوں نے الجھائی ہے وہ سنوارنے سے رہے کہ اس کیلئے جس سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے، وہ موجود نہیں۔ یہ بصیرت اہلِ سیاست میں ہوسکتی ہے‘ اگروہ گروہی مفادات سے بلند ہو سکیں۔ سرِ دست وہ اس پر آمادہ نہیں۔
غلطی پر اصرار ایک نئی غلطی کو جنم دے گا۔ کوئی نیا حل تلاش کیا جائے گا جیسے صدارتی نظام۔ اس کا انجام کیا ہوگا، یہ سوال اس کالم کا موضوع نہیں۔ آج تو صرف یہ تجزیہ پیش کرنا تھا کہ نوازشریف ابھی نہیں آرہے۔ اسے پڑھتے اور اس پر تبصرہ کرتے وقت پیشگوئی اور تجزیے کا فرق دھیان میں رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved