تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     30-12-2021

خیبر پختونخوا میں سیاسی تبدیلی

خیبر پختونخوا میں حالیہ بلدیاتی انتخابات‘ جن میں خلاف توقع حکمران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو شکست اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی‘ کے نتائج کی مختلف حلقوں میں مختلف انداز میں تشریح کی جا رہی ہے۔ حکمران پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے اسے مقامی سطح پر پی ٹی آئی کی دھڑے بندی اور باہمی اختلاف کا نتیجہ قرار دیا جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے غلط امیدواروں کا چناؤ اس کی سب سے بڑی وجہ بتائی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی کامیابی کو ''تشدد پسند، مذہبی انتہا پسندی‘‘ کی جیت قرار دیا ہے۔ دوسری جانب باوجود اس کے کہ مولانا نے ان انتخابات میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے حصہ نہیں لیا، انہوں نے اس کامیابی کو پی ڈی ایم کی جیت قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ ابھی ابتدا ہے‘ اس کی انتہا پی ٹی آئی کی شکست کی صورت میں سامنے آئے گی۔
انتخابات میں‘ خواہ وہ مقامی سطح کے ہوں یا قومی سطح کے‘ مختلف اور ایک سے زیادہ عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ یہی اصول کے پی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات پر لاگو ہوتا ہے۔ ان میں بھی ایک سے زیادہ اور مختلف حلقوں میں مختلف عوامل‘ جن کی بنیادی طور پر نوعیت سیاسی ہے‘ نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ مذہب ان میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ جن لوگوں کو جمعیت علمائے اسلام کے سیاسی نظریے، تاریخ اور پس منظر کا علم ہے، وہ اس جماعت کی انتخابی کامیابی کو کبھی مذہبی انتہا پسندی قرار نہیں دے سکتے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے اپنی کامیابی کو خود پی ڈی ایم کی کامیابی قرار دیا ہے جبکہ اگر پی ڈی ایم کے 27 نکاتی چارٹر کا جائزہ لیں تو اس کے نکات میں سے 95 فیصد سیکولر اصولوں پر مبنی ہیں۔ آئین کی سربلندی اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب عوامی اقتدار اعلیٰ کی نمائندہ پارلیمنٹ کی بالادستی، مذہبی انتہا پسندی کے نعرے نہیں بلکہ سیکولر سیاست کے اصول ہیں اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی ان اصولوں کو نہ صرف تسلیم کرتی ہے بلکہ ان کے دفاع کیلئے جدوجہد میں بھی مصروف ہے۔ معلوم نہیں وفاقی وزیر نے کس بنیاد پر جے یو آئی (ایف) کو ''تشدد پسند مذہبی انتہا پسند‘‘ جماعت قرار دیا ہے۔ میرا گمان ہے کہ وہ ایسے الزام عائد کرکے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہوں گے۔ پہلا یہ کہ ان انتخابات میں وہ اپنی پارٹی کی شکست کے صحیح اسباب پر پردہ ڈال کر عوام کی توجہ کسی اور طرف مبذول کرانا چاہتے ہوں گے۔ دوسرا‘ وہ شاید پی ڈی ایم میں شامل سیکولر سیاست کی علمبردار جماعتوں اور جے یو آئی میں اختلاف پیدا کرنا اور عالمی برادری کے سامنے اپنی پارٹی کو اعتدال پسند اور مذہبی انتہا پسندی کا مخالف چہرہ بنا کر پیش کرنا چاہتے ہوں گے‘ لیکن ضروری نہیں کہ وہ اس میں کامیاب ہوں۔
بلدیاتی انتخابات میں شکست کے اسباب سے خود ان کی پارٹی کے ارکان اور زعما پردہ اٹھا رہے ہیں۔ عام لوگوں کی بھی یہ رائے ہے کہ مہنگائی، بیڈ گورننس اور گراس روٹ لیول پر پارٹی تنظیم کی عدم موجودگی شکست کے اصل اسباب ہیں۔ جن ووٹرز نے اس دفعہ جے یو آئی کے امیدواروں کو ووٹ دے کر انہیں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے مقابلے میں جتوایا، ان میں وہ ووٹرز بھی شامل ہیں جو اس سے پہلے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالتے تھے اور وہ اتنے ہی مذہبی ہیں جتنے جے یو آئی کے پکے ووٹرز۔ حقیقت میں کے پی میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی صورت میں ووٹرز کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر ہے۔
متعدد حلقوں کی طرف سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ جے یو آئی (ایف) کے امیدواروں کو زیادہ ووٹ کی ایک وجہ ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کا برسر اقتدار آنا ہے۔ اگر افغان طالبان کی افغانستان میں کامیابی کا خیبر پختونخوا پر سیاسی اثر اتنا ہی ناگزیر تھا تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچنا چاہیے تھا کیونکہ پارٹی کی مرکزی حکومت نہ صرف افغانستان میں طالبان حکومت کو انسانی بنیادوں پر امداد مہیا کر رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں اس کی ترجمان بنی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان افغان طالبان کو ملک کا نجات دہندہ کہہ چکے ہیں۔ گزشتہ تین برس سے زیادہ عرصے میں حکومت نے داخلی اور خارجی محاذ پر جو مختلف اقدامات کئے، ان کی روشنی میں تو پی ٹی آئی حکومت جے یو آئی سے کہیں زیادہ افغان طالبان کے نزدیک نظر آتی ہے۔
پاک افغان سرحد کے دونوں طرف رہنے والے پختون ایک دوسرے کے ساتھ لسانی، ثقافتی، نسلی، مذہبی رشتوں کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔ 2600 کلومیٹر لمبی اس بین الاقوامی سرحد کے کچھ حصے ایسے بھی ہیں جو ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے پختونوں کو دو حصوں میں تقسیم کررہے ہیں۔ ہر روز افغانستان سے پاکستان اور پاکستان سے افغانستان میں ہزاروں پختون مرد، عورتیں اور بچے مختلف ضروریات مثلاً تعلیم، علاج معالجہ، مزدوری، کاروبار اور رشتے داروں سے ملاقات کیلئے داخل ہوتے ہیں۔ افغانستان میں جنگ سے پیدا ہونے والے حالات کے باعث جن لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لی تھی، وہ اب بھی صوبہ پختونخوا کے مختلف حصوں میں رہائش پذیر ہیں۔ اس کے باوجود، پاکستانی اور افغان پختونوں میں فرق ہے۔ کسی نے بڑے اعتماد سے کہا تھا کہ اگر آپ پاکستانی اور افغان پختونوں کو ایک ساتھ کھڑا کرکے غور سے دیکھیں تو دونوں میں فرق نظر آئے گا۔ سیاست میں یہ فرق اور بھی نمایاں ہے۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان کے پختون، افغان طالبان کے سیاسی نظریے کو قبول نہیں کرتے، خود افغانستان کے تمام پختون، طالبان کے حامی نہیں‘ نہ ان کے سیاسی ایجنڈے سے متفق ہیں۔ پندرہ اگست کے بعد ملک سے ہزاروں پڑھے لکھے افغان باشندوں، جن میں اکثریت پختونوں کی ہے، کا انخلا اور ان کے علاوہ مزید ہزاروں افغان باشندوں کی ملک سے نکل جانے کی کوشش اس حقیقت کی غماز ہے کہ افغانستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ‘ جس میں غالب اکثریت پختونوں کی ہے، طالبان کے نافذ کردہ نظام کے تحت زندگی بسر کرنے پر تیار نہیں۔ اگر افغان پختونوں کی یہ صورتحال ہے تو پاکستان کے پختون، طالبان کے نظریے اور سیاسی نظام کو اپنے لیے کیسے پسند کر سکتے ہیں؟ 1996ء میں البتہ کابل پر طالبان کے قبضے سے انسپائر ہو کر کچھ عناصر نے پشاور کی الیکٹرک سامان کی مارکیٹ میں ٹی وی سیٹوں کو نقصان پہنچا کر توڑ پھوڑ کی کوشش کی تھی لیکن ایک مقامی روزنامے کے مطابق دکانداروں نے مل کر اس تخریبی کارروائی کو ناکام بنایا اور جن شرپسندوں نے اس میں حصہ لیا تھا، وہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس طرح کچھ عناصر نے وزیرستان میں طالبان کی شاخ کو منظم کرنے کی کوشش کی مگر یہ کامیاب نہ ہو سکی۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان البتہ مختلف حالات کی پیداوار ہے اور اسے صوبے میں کبھی بھی عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی اپنی تاریخ، اس دعوے کی منفی کرتی ہے کہ 'یہ پارٹی تشدد اور مذہبی انتہا پسندی کی حامی ہے‘۔
مولانا فضل الرحمن کے والد محترم مفتی محمود 1973ء کے آئین کے بانیوں میں سے تھے اور انہوں نے سیکولر نیشنل عوامی پارٹی (موجودہ عوامی نیشنل پارٹی) سے مل کر اس آئین کے تحت صوبہ سرحد میں حکومت تشکیل دی تھی۔ اس سے قبل 1969ء میں جنرل یحییٰ کے دور میں جب ملک میں نظریاتی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو مولانا غلام غوث ہزاروی کی سربراہی میں جمعیت علمائے اسلام کے ایک گروپ نے پیپلز پارٹی اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دیگر گروپوں کا ساتھ دیا تھا۔ میری نظر میں جے یو آئی ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے مگر ایک ایسے فریم ورک میں رہ کر سیاست کر رہی ہے، جس کے اہم خدوخال سیکولر اصولوں پر استوار ہیں۔ ایسی جماعت کو ایک ''تشدد پسند اور مذہبی انتہا پسند‘‘ جماعت قرار دینے کا کوئی جواز نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved