''ڈیل ہو گئی ہے۔ ڈیل ہو رہی ہے، کچھ معاملات پر بات چیت باقی ہے۔ ڈیل نہیں ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ رابطے میں ہے۔ نواز شریف پاکستان آرہے ہیں۔ نواز شریف کو لانے کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔ نواز شریف آئیں گے تو سیدھے جیل جائیں گے۔ نواز شریف شوق سے آئیں،میں ٹکٹ اپنی جیب سے دوں گا‘‘۔ بھانت بھانت کی آوازیں ہیں جن میں ایاز صادق، فواد چوہدری، شیخ رشید، آصف زرداری، رانا ثناء اللہ کی آوازیں بھی شامل ہیں ۔ان میں وزیر اعظم عمران خان کا وہ بیان بھی شامل کرلیں کہ ''اگر نواز شریف پر مقدمے ختم کرنے ہیں تو جیلوں کے دروازے بھی کھول دینے چاہئیں‘‘۔
دسمبر کی کڑاکے کی سردی اور کہر آلود موسم میں یہ اچانک کیا سرگرمی شروع ہوئی ہے جس نے دوسری چیزوں سے توجہ ہٹا کر سیاست کو مرکزی حیثیت دے دی ہے؟ آصف علی زرداری اچانک متحرک کیوں ہوگئے ہیں؟ کیوں کہا گیا ہے کہ زرداری اس رابطہ کار کا نام بتائیں جس نے انہیں پیغام پہنچایا ہے؟ زرداری اسلام آباد میں مقیم تھے اور پہلے اعلان کے برخلاف اچانک بے نظیر بھٹو کی برسی میں شریک ہوئے۔ انہوں نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے کیوں ملاقات کی؟ ایاز صادق نے لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد واپس آتے ہی کیوں یہ کہا ہے کہ میاں صاحب جلد واپس آرہے ہیں؟ میاں نواز شریف نے خواجہ سعد رفیق کے والد کی برسی پر 23 دسمبر کو خطاب کرتے ہوئے کارکنوں سے یہ کیوں کہا ہے کہ جلد آپ سے پاکستان میں ملاقات ہو گی۔ ان سب سوالوں کے جواب میں سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار تبصروں اور تجزیوں کے ڈھیر لگا رہے ہیں لیکن ایک بات بہرحال واضح ہے اور وہ یہ کہ کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں سخت دھچکے کے بعد اپوزیشن کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور انہیں اگلے انتخابات میں اپنی کامیابی کی امید ہو چلی ہے۔ اسی طرح حکومتی وزیر اس مفروضے کو سچ سمجھ رہے ہیں کہ اپوزیشن اور مقتدر حلقوں میں رابطے ہوئے ہیں اور نواز شریف کی واپسی کے راستوں پر بات چیت ہو رہی ہے۔
فی الوقت اگر میاں نواز شریف کی واپسی کی بات کی جائے تو میرے خیال میں یہ ایک سیاسی چال سے زیادہ نہیں ہے۔ میاں نواز شریف جن حالات سے گھبرا کر ملک سے باہر گئے تھے، وہ بدستور موجود ہیں۔ مقدمات بھی ہیں اور عمران خان صاحب کی شدید مخالفت بھی ۔نااہلی کو اہلیت میں تبدیل کرنے کامعاملہ بھی قانونی طور پر آسان نہیں ہوگا۔ اس لیے مقتدر حلقوں کے لیے بھی پی ٹی آئی کی سخت مخالفت مول لے کر یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ نواز شریف کی مقتدر حلقوں پر شدید تنقید اور سخت مؤقف بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس لیے ایسا ہوا تو بہت سے سوال اٹھیں گے۔ پھر اگر یہ سب کر گزرا جائے اور نواز شریف 2023 کے انتخابات میں پھر برسر اقتدار آجاتے ہیں تو کیا یقین دہانی ہے کہ وہی حالات پھر پیدا نہیں ہو جائیں گے جن کی بنا پر انہیں برداشت کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ ان کے ساتھی اور قریبی حلقے اب بھی وہی ہیں جن سے شکایات تھیں۔ اس لیے ایاز صادق کا یہ بیان کہ وہ جنوری میں لندن جائیں گے اور نواز شریف کے ساتھ واپس آئیں گے، محض ایک سیاسی بات لگتی ہے لیکن اس کا فائدہ بہرحال مسلم لیگ نے اٹھا لیا ہے کہ حکومتی ذرائع اسے سچ مان کر گولہ باری شروع کر چکے ہیں۔
ممکن ہے مسلم لیگ سے مائنس ون سمجھوتے پر کوئی بات چیت ہوئی ہو۔ شہباز شریف پر بھی اگرچہ نیب کے بہت سے مقدمات موجود ہیں لیکن مقتدر حلقوں سے ان کے تعلقات اور روابط ڈھکے چھپے نہیں۔ وہ اپنی بڑے بھائی کے سخت مؤقف کو اپنے متوازن مؤقف کے ذریعے ٹھنڈا کرتے رہے ہیں۔ اس لیے شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی وغیرہ کا اقتدار میں آنا قابل قبول ہو گا۔ اگر یہ صورت ہے تو یہ بھی مسلم لیگ کیلئے قابل قبول ہو گی؛ تاہم نواز شریف کے بارے میں یہی باور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے سخت مؤقف اور اپنی نااہلی کی واپسی کے فیصلے سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں مسلم لیگ کا جھکاؤ کس طرف ہوگا، یہ ایک بڑا سوال ہے‘ اور یہ فیصلہ انہیں جلد ہی کرنا ہوگا۔
آصف زرداری فعال ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ہم سے رابطہ کیا ہے اور لیکن ہم نے کہا ہے کہ پہلے اس کی چھٹی کروائیں۔ زرداری صاحب زیرک آدمی ہیں۔ انہیں نظر آرہا ہے کہ ریکارڈ مہنگائی نے عوام میں پی ٹی آئی کو سخت نامقبول کر دیا ہے۔ کووڈ 19 کے اثرات ختم ہو کر سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی بہت معمولی سہی لیکن یہ بہرحال ہے کہ پی ٹی آئی کو جمعیت علمائے اسلام نے سخت ضربیں لگا دی ہیں۔ انتخابات میں ڈیڑھ سال رہ گیا ہے اس لیے اس لہر سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ تاثر دینے میں کیا نقصان ہے کہ مقتدر قوتیں اب پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں ہیں۔ سیاسی امیدواروں سے لے کر ایک ووٹر تک اگر ہر ایک کا یہی تاثر بنتا ہے تو اس کا فائدہ بہرحال پیپلز پارٹی کو ہو گا اور ایک بڑا فائدہ یہ ممکن ہے کہ ان کے مابین دراڑ ڈال دی جائے جن کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ معاملات میں ایک سوچ رکھتے ہیں اور ہم آہنگ ہیں۔ اگر کچھ فائدہ نہ ہو لیکن یہ بد اعتمادی کی دراڑ ڈال دی جائے تو یہ بھی کم فائدہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ پر ایک فوقیت بہرحال یہ حاصل ہے کہ اس کے اندر صف اول میں دھڑے بندی نہیں ہے۔
جمعیت علمائے اسلام نے کے پی کے بلدیاتی انتخاب میں حیران کن کارکردگی دکھائی ہے۔ کسی حد تک جماعت اسلامی نے بھی۔ پی ٹی آئی کے گڑھ کو‘ جو جے یو آئی کا بھی سابقہ قلعہ سمجھا جاتا ہے، یوں تسخیر کرنا سہل نہیں تھا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات اور طالبان سے آئندہ مراسم کے پیش نظر کے پی اور بلوچستان میں ان مذہبی طاقتوں کو اقتدار سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جن سے طالبان کے دیرینہ مراسم ہیں۔ اس تھیوری کے مطابق بلدیاتی انتخاب اسی فیصلے کی پہلی کڑی ہیں۔ بہرحال مولانا فضل الرحمن کی مسلسل کوششیں رنگ لائی ہیں اور ان کی اس سیاسی کامیابی سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اپنے اپنے فائدے بھی اٹھانا چاہیں گی۔ دیکھنا ہے کہ اس کامیابی کے ثمرات مولانا خود اٹھانے کے بجائے ان سیاسی حلیفوں کے سپرد کر دیں گے؟
میاں نواز شریف کی جلد واپسی بظاہر ممکن نہیں لگتی اور اس کے لیے جنوری کی تاریخ تو بہت ہی قبل از وقت ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد ہی ہو گا۔ گویا 2022 کے تقریباً آخری مہینوں میں۔ میرے خیال میں اب سب فریق پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا انتظار کریں گے۔ الیکشن کمیشن نے مارچ 2022 تک یہ انتخابات کروانے کاحکم دیا ہے۔
میری نظر میں کے پی سے زیادہ اہم پنجاب کے انتخابات ہیں۔ عمران خان کبھی نہیں چاہیں کہ یہ دوسری زک بھی انہیں اٹھانی پڑے‘ لیکن جو بھی نتیجہ نکلے، میرے خیال میں یہی وہ نکتہ ہو گا جس پر ہر جماعت کے سنجیدہ سیاسی لائحہ عمل کا انحصار ہو گا۔ اس سے پہلے پہلے کی کارروائیاں بم نہیں، محض سیاسی پھلجھڑیاں ہیں۔