تحریر : اقتدار جاوید تاریخ اشاعت     30-12-2021

مذاق

اقبالؔ کا مقام محض شاعر کی حیثیت سے متعین کیا جاتا‘ تب بھی وہ اردو کے عظیم ترین شعرأ میں شمار ہوتے مگر ان کی حیثیت ایک ملک کے نظریاتی خالق کی ہے۔ نظریہ نہ ہو تو باقی سارا عدم آباد۔ اقبال نے ہی ایک مبسوط انداز میں ایک الگ مسلم خطے کی بات کی تھی۔ یہاں لاہور میں نہیں‘ دہلی میں نہیں‘ تامل ناڈو کے صدر مقام مدراس (چنائی) کے مقام پر۔ انہوں نے ایک شاعر کی طرح کسی شعر میں یہ بات نہیں کی تھی بلکہ اپنا تھیسز پیش کیا تھا کہ الگ مسلم ریاست نے اس خطے میں بہر صورت وجود میں آنا ہے۔ یوں بھی بانیانِ پاکستان کا نام آتا ہے تو قائداعظم کے بعد علامہ اقبال کا نام ہی بجا طور پر ذہن میں آتا ہے۔ ان دونوں شخصیات کو بدنام کرنے کی بہت سازشیں ہوئیں‘ بہت ساری گرد اڑائی گئی۔ اب نئے سرے سے اقبال کو بدنام کرنے کی سعی کی جا رہی ہے جس کے بارے میں حکومتی زعما اور پی ٹی اے جیسے اداروں کی توجہ از بس ضروری ہے۔
سوشل میڈیا کے ایک فورم ''ٹک ٹاک‘‘ چند ماہ کی پابندی کے بعد دوبارہ ظہور پذیر ہونے کے بعد جوبن پر آیا ہوا ہے۔ جوبن نہیں‘ جن بوتل سے باہر نکلا ہوا ہے۔ پہلے کسی طریقے سے جن بوتل میں واپس قید کیا جا سکتا تھا اب اس کو روکنا کسی ادارے کے بس میں نہیں لگتا۔ اس بار اس کا نشانہ علامہ اقبال کی ذات اور ان کی شاعری ہے۔ سوشل میڈیا کو ایسا فورم سمجھنا چاہیے جس کا کوئی اصول‘ کوئی ضابطہ نہیں‘ کوئی ضابطۂ اخلاق بھی نہیں۔ سوشل میڈیا کی کہانی یوں تو دہائیوں پرانی ہے مگر ہمارے ہاں یہ شوق تازہ تازہ ہے۔ ڈمی شخصیات سے شروع کیا ہوا مذاق اب اقبال تک پہنچ گیا ہے۔ اقبال تک پہنچتا تو بھی قابلِ اعتراض بات نہ تھی مگر ٹک ٹاک کی آڑ میں ایک گروہ سیدھا اقبالؔ کی شاعری پر حملہ آور ہوا ہے۔ اقبال پر پہلے تو نیم دانشوروں نے اعتراض شروع کیا۔ اقبال کا کلام اور قرآنی روح ان کو کیسے ہضم ہو سکتی تھی۔ کسی نے جاوید نامہ کو نشانہ بنایا اور کسی نے ان کو نطشے اور مارکس سے متاثر قرار دیا۔ معاملہ یہاں تک رہا نہیں‘ اردو غزل کی روایات کے امین رگھو پت سہائے فراق گورکھپوری تو باقاعدہ تیر و تفنگ کے ساتھ معترض ہوئے۔ اسلام کی وہ تعلیمات‘ جو مسلمانوں کی برصغیر میں نشاۃ ِ ثانیہ کی بنیاد تھیں اور جن کو اقبال نے یورپ سے واپسی پر ایک فرض سمجھ کر شاعری کا جز بنایا تھا‘ فراقؔ کے نشانے پر تھیں۔ انہوں نے ''توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا‘‘پر بھی تنقید کی۔ ان کی منطق یہ تھی کہ غزل تو عشق اور نفیس جذبات سے مملو ہوتی ہے۔ یہ خنجر کہاں سے آ گیا۔ اگر مسلمان قوم توکل کا یہی مطلب لیتی ہے تو کل کو کوئی دوسرا بھی یہی کچھ کرے گا۔ یوں تو اقبال کے خاندان کو بھی معاف نہیں کیا گیا کبھی ان کو کسی ''بازارو‘‘ سے نتھی کیا گیا تو کبھی بے عمل ہونے کا طعنہ دیا گیا۔ ان کی شخصیت کو مسلم کمیونٹی نے اون کر لیا تھا مگر لبرل دانشور دور کی کوڑی لاتے رہے اور انہیں موت سے خوف کھانے والا بھی کہا گیا۔ یہ نام نہاد دانشور بھول گے کہ ''نشانِ مردِ مومن با تو گویم؍ چوں مرگ آید تبسم بر لبِ اوست‘‘ کہنے والا موت سے کیسے ڈرے گا۔ اقبال نے تو نوجوانی میں ہی موت کا مفہوم سمجھ لیا تھا۔ ابھی وہ یورپ میں مقیم تھے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ ان کی یاد میں کہے گے اشعار میں موت کا لفظ باقاعدہ موضوع کے طور پر لیا اور کہا:
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
ہم ایسے اعتراضات کو بے بنیاد سمجھتے ہوئے بھی اس کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ اختلاف بھی زیبِ گفتگو ہے۔ ان پر جو سر کے خطاب کی پھبتی کسی جاتی ہے وہ ان کی انگریز کی حمایت پر نہیں ملا تھا۔ یہ اسرارِ خودی جیسی کتاب لکھنے اور مغرب میں اس پر ریویوز چھپنے پر ملا تھا۔ وہ تو مغرب کے ناقد تھے اسرارِخودی پر صرف برطانیہ ہی نہیں‘ امریکہ میں بھی اس پر ریویوز چھپے تھے۔ کیا سر کے خطاب کے بعد انہوں نے کلام میں انگریز کی حمایت کی تھی؟ ان کے کلام میں تو تاثیر بڑھتی چلی گئی تھی۔ گورنر پنجاب کی ان کے اعزاز میں سر کے خطاب پر شاہدرہ میں تقریب منعقد کی گئی۔ وہاں اقبال نے مشہورِ زمانہ نظم ''طلوعِ اسلام‘‘ سنا کر سب ناقدین کے منہ بند کر دیے تھے۔ کچھ ناقدین کہتے تھے کہ سر کا خطاب مل گیا‘ اب پہلے والا اقبال باقی نہیں رہے گا مگر اب تو جیسے قیامت ہی آ گئی‘ علمی اعتراض کہاں‘ یہ سیدھی سادی لغو گوئی ہے۔ اب چھپ کر وار کرنے کا زمانہ ہے۔ ہائبرڈ وار ہے۔ اقبال کو برا بھلا کہیے ٹک ٹاک بنائیے اور اَپ لوڈ کر دیجیے۔ اصل حکومت تو اب کمپنی سرکار کی آئی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی تو ان کمپنیوں کے آگے پانی بھرتی نظر آتی ہے۔ اس پر مستزاد گلوبل سوشل نیٹ ورکنگ ہے‘ نہ کسی سے اجازت درکار ہے نہ کسی قسم کی روک ٹوک۔
اب اقبال کو دیدہ و دانستہ بدنام کرنے کی سازش ہے۔ علمی اختلاف خواہ وہ درست ہو یا غلط‘ بہر حال قابلِ قبول ہے۔ علامہ کو مختلف بے سر و پا واقعات سے جوڑ کر لطیفوں کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ چند سال قبل جون ایلیا کو مشقِ ستم بنایا گیا اور اس معصوم شاعر کی بھد اڑائی گی۔ فراز کو مشقِ ستم بنایا گیا۔ جون اور فراز سے تو کسی کا جذباتی تعلق نہیں گو کہ یہ ایک قبیح حرکت ہے اور اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتی‘ پیروڈی ایک الگ صنف ہے اگر کسی شاعر کی پیروڈی مقصود ہو تو یہ ایک قسم کا خراجِ تحسین ہے۔ جو الم غلم شاعری فراز سے منسوب کی جاتی تھی‘ اس وقت اگر ان قبیح حرکات کا نوٹس لے لیا جاتا تو نوبت یہاں تک شاید نہ پہنچتی۔ ایک چینل پر اردو ادب کے سب سے زیادہ شریف النفس شاعر مجید امجد کی ڈمی بنائی گئی‘ پروگرام میں اس رجحان ساز شاعر کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جو آج کل کے جوکر اداکار ایک دوسرے کے ساتھ آوازے کسنے اور نقل اتارنے کی صورت میں کرتے ہیں۔ کسی کی بھی ذات کو نشانہ بنانا معیوب ہے چہ جائیکہ کوئی شاعرِ مشرق کے ساتھ ایسا مذاق کرنے کی جسارت کرے۔ فضول اور لغو اشعار اقبال سے منسوب کر کے پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان نام نہاد اشعار کو کہنے والے اور پیش کرنے والے‘ دونوں برابر کے شریکِ جرم ہیں۔ بے سرو پا آزادی کا انجام بالآخر ایسے ہی ہوتا ہے۔ 'ڈیفی میشن‘ کا جرم سول اور کریمنل قانون کے مطابق اطلاق ہوتا ہے۔ کسی کی شہرت کو داغدار کرنا اگر جرم ہے اور اس کی سزا مقرر ہے تو ملک پاکستان کے بانیان کے متعلق لغو گفتگو تو زیادہ سنگین سزا کی حقدار ہے۔ اقبال اور قائد اعظم ہی پاکستان کی دو ہستیاں ہیں جن کی قدر و منزلت اور عزت میں ہر دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ قائداعظم کے بارے میں اگر نازیبا گفتگو قابلِ قبول نہیں ہے تو شاعرِ مشرق کے ایسا سلوک کیسے گوارا کیا جا سکتا ہے؟
ٹک ٹاک ایک چینی کمپنی ہے اور اس پر ایک ارب روزانہ کلپس اَپ لوڈ کیے جاتے ہیں۔ اس سے متعلقہ سرکاری اداروں کا مقصدِ اول یہی ہے‘ یہ اسی لیے بنائے جاتے ہیں کہ وہ ملک اور ملک کے بانیان کے بارے میں قابلِ اعتراض مواد کو بین کریں اور ایسا انتظام کریں کہ ایسے کلپس اَپ لوڈ ہی نہ ہو سکیں پاکستان میں جولائی میں ٹک ٹاک کو بین کیا گیا اور نومبر میں اسے پھر اَن بین کر دیا گیا۔ اس دوران پاکستان نے اٹھانوے لاکھ وڈیو کلپس ہٹائے۔ پوری دنیا میں آٹھ کروڑ کے قریب فحش مواد ضائع کیا گیا۔ یہ اچھی بات ہے مگر ہمارا مسئلہ اور ہے ہم اس کو بین کرنے کے حق میں نہیں ہیں‘ زمانے کے آگے کون بند باندھ سکا ہے؟ اس کو ریگولیٹ کرنا اور اقبال کے بارے میں قابلِ اعتراض کلپس ہٹانا حکومتی اداروں کا بنیادی فرض ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved