ولیم سمرسٹ مام بیسویں صدی کے شہرہ آفاق اور مقبول ناول نگار، ڈرامہ نویس اور شارٹ سٹوری رائٹر تھے۔ 16 دسمبر 1965ء کو اُن کا انتقال ہوا تھا۔ اُن کی کئی نگارشات پر فلمیں بھی بنی ہیں۔ اُن کی ایک کہانی بڑی مقبول ہوئی تھی جس کا نام ہے: Mr. Know All۔ خلاصہ کہانی کا یہ ہے کہ ایک طویل بحری سفر میں رائٹر کو جو کیبن ملا اس میں اُن کے ہمسفر مسٹر میکس کیلاڈا تھے۔ مصنف لکھتا ہے کہ عام انگریزوں کے برعکس مسٹر کیلاڈا بہت باتونی شخص تھا جو اکثر مسافروں کے ساتھ بہت جلدی گھل مل جاتا تھا۔ وہ زیرِ آسمان ہر موضوع پر روانی سے بولتے اور خود کو اتھارٹی سمجھتے تھے جبکہ اکثر معاملات پر اُن کی معلومات واجبی بھی نہ تھیں۔ یہ دیکھ کر تمام مسافروں نے مسٹر کیلاڈا کا نک نیم Mr. Know All رکھ دیا۔
ہمارے دور کے Mr. Know All فواد چودھری صاحب ہیں۔ وہ اپنے آپ کو فلسفہ، سائنس، تاریخ، مذہب، قانون، سیاست، معیشت اور معاشرت وغیرہ کے بارے میں حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔ تین چار روز قبل جناب فواد چودھری نے کہا کہ قائداعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے اسی لیے لوگوں نے انہیں ووٹ دیئے تھے۔ لوگ اگر اسلامی یا مذہبی پاکستان چاہتے تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد یا مولانا مودودی کو ووٹ دیتے۔ یہ بیان میں نے براہِ راست اپنے کانوں سے ٹیلیویژن پر سنا۔
میرے خیال میں ہمارے وزیر اطلاعات نہ مولانا ابوالکلام آزاد کو جانتے ہیں اور نہ ہی مولانا مودودی کی شخصیت سے آگاہ ہیں۔ مولانا آزاد ہندوستان کی سیکولر جماعت کانگریس کے صدر تھے۔ جہاں تک مولانا مودودی کا تعلق ہے تو وہ بیسویں صدی کے عظیم عالم دین اور جمہوری سیاستدان تھے۔ جماعت اسلامی کے ایک سابق سیکرٹری جنرل قمرالدین خان نے 1963ء میں کراچی کے ہفت روزہ ''تھنکرز‘‘ میں لکھا تھاکہ جب وہ 1941ء میں قائداعظم محمدعلی جناح سے جماعت کے نمائندے کی حیثیت سے ملے تو قائد نے اعتراف کیاکہ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے کام میں تضاد نہیں، بلکہ تطابق ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کو سپلیمنٹ کر رہی ہیں۔
چودھری صاحب کو ممکن ہے یہ بھی علم نہ ہو کہ 1938ء میں مولانا مودودی حضرت علامہ اقبالؒ کی دعوت پر حیدرآباد سے ہجرت کرکے پٹھانکوٹ منتقل ہوگئے تھے جہاں انہوں نے دارالسلام کی بنیاد رکھی اور اسلام کو دورِ جدید کے اسلوب میں ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کرنے کیلئے ٹھوس تصانیف کیں جن کی ساری اسلامی دنیا میں بہت پذیرائی ہوئی۔ بعدازاں سید مودودی نے پاکستان میں قائداعظم کے وژن کے مطابق ایک اسلامی جمہوری ریاست کے قیام کے لیے عملی جدوجہد کی جس کیلئے انہیں دارورسن کے اذیت ناک مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔
جہاں تک فواد چودھری اور دوسرے سیکولر مائنڈ لوگوں کا تعلق ہے تو انہیں یہ معلوم نہیں کہ قائداعظم محمدعلی جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ یہ لوگ قائداعظم کی شخصیت اور اُن کی تحریک سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے اور اگر کچھ جانتے ہیں تو پھر جان بوجھ کر اخفائے حقیقت سے کام لیتے ہیں۔ قائداعظم نے پاکستان کا گورنر جنرل نامزد ہونے کے بعد 14 جولائی 1947ء کو نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی۔ پریس کانفرنس میں اقلیتوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں قائد نے کہا تھا ''پاکستان میں ہر اقلیت کو تحفظ دیا جائے گا۔ اُن کی مذہبی رسومات میں دخل نہیں دیا جائے گا اور اُن کے مذہب، اعتقاد، جان و مال اور کلچر کی پوری حفاظت کی جائے گی۔ وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے برابر کے شہری ہوں گے‘‘۔ اسی پریس کانفرنس میں قائداعظم نے کہا تھا ''آپ مجھ سے بار بار ایک فضول سوال پوچھ رہے ہیں۔ آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت 1300 سال قبل سیکھ لی تھی‘‘۔
یہ تھا اُس تقریر کا پس منظر جو قائداعظم نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا صدر منتخب ہونے پر اسمبلی میں کی تھی۔ اس تقریر میں قائداعظم نے رشوت، کرپشن، بلیک مارکیٹنگ اور اقربا پروری کے تدارک پر بہت زور دیا۔ اسی تقریر میں قائداعظم نے اقلیتوں میں پائے جانے والے یا ہندو لیڈروں کی طرف سے پیدا کردہ خوف کے ازالے کے لیے فرمایا تھا... ''آپ آزاد ہیں مندر میں پوجا کریں یا مسجد میں عبادت کریں، آپ کا کسی مذہب یا عقیدے سے تعلق ہے اس سے حکومت کو سروکار نہیں۔
قائداعظم کی تقسیم برصغیر سے پہلے کی 101 تقاریر اور بیانات میں انہوں نے نوزائیدہ ریاست کے بارے میں کہا کہ اسلام کے زرّیں اصولوں کے مطابق پاکستان ایک جدید اسلامی فلاحی جمہوری ریاست ہوگی۔ اسی طرح قیام پاکستان کے بعد کی بھی کئی تقاریر کو نظرانداز کرکے سیکولر لبرل حضرات 11 اگست 1947ء کی تقریر کو سیاق و سباق سے الگ کر کے اپنی من پسند تشریح و توضیح کرتے ہیں جو خلافِ حقیقت ہے۔
کالم کی تنگ دامانی کے پیش نظر اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کے بارے میں قائد کے وژن کو روزِ روشن کی طرح پیش کرنے کے لیے انہی کی تقاریر سے صرف چند حوالے پیش خدمت ہیں: نومبر 1945ء میں قائداعظم نے پشاور میں کہا تھا ''آپ نے سپاسنامے میں مجھ سے پوچھا ہے کہ کون سا قانون ہوگا۔ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہے۔ مسلمانوں کا ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب ہے۔ یہی مسلمانوں کا قانون ہے اور بس۔ اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا‘‘۔
30 اکتوبر 1947ء کو لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے فرمایا ''اگر ہم قرآن سے رہنمائی حاصل کریں تو بالآخر فتح ہماری ہوگی‘‘۔ 25 جنوری 1948ء کو عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کے استقبالیے میں تقریر کرتے ہوئے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم محمدعلی جناح نے کہا تھا ''میں اُن لوگوں کے عزائم کو نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ ہماری زندگی پر اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح 1300 سال پہلے ہوتا تھا‘‘۔
پاکستان کا آئین و دستور کیسا ہوگا؟ اس ساری بحث کو قائداعظم محمدعلی جناح کی تعلیمات کی روشنی میں 1973ء کے دستور میں سمیٹ دیا گیا۔ اس آئین میں طے کر دیا گیا کہ قراردادِ مقاصد کی روشنی میں اقتدار اعلیٰ کا مالک خالقِ دوجہاں ہے۔ نیز یہاں کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ اس پس منظر میں اگر کوئی سیکولرازم یا کسی اور ازم کی بات کرتا ہے تو یہ صریحاً آئین شکنی کے مترادف ہے۔
مقام افسوس ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اسلام سمیت قائداعظم کے وژن کے کسی حصے پر بھی کماحقہ توجہ نہیں دی ہے۔ قائداعظم کے وژن کے مطابق نہ تو جمہوریت کو عزت دی گئی نہ ہی قانونی و معاشرتی عدل و انصاف قائم کیا گیا نہ ہی لوگوں کو روزگار کی ضمانت دی گئی، نہ ہی ہر بچے کی تعلیم اور خوراک کا بندوبست کیا گیا۔ موجودہ حکومت نے دعوے تو بہت کیے تھے مگر اُس کے دور میں جان لیوا مہنگائی اور ناقابل برداشت بجلی گیس کے بلوں نے لوگوں کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا دیا ہے۔ ان حالات میں چودھری صاحب جیسے وزرا طے شدہ معاملات کو اس لیے چھیڑتے ہیں کہ موجودہ مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا دی جائے۔ قائداعظم کا وژن اسلامی جمہوری پاکستان ہے اور اسی وژن پر ہر پاکستانی دل و جان سے یقین رکھتا ہے۔