تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     31-12-2021

مسلم بیانیے کی جیت… (4)

قادسیہ کے میدان میں دوسرے دن کا خوں آشام سورج کب غروب ہوا اور تیسری رات کب ڈھلی‘ صبح کیسے آئی‘ یہ سب کچھ معرکے میں گڈ مڈ ہو گیا‘ جو ابھی جاری تھا۔ حسبِ دستور مسلمانوں نے بعد از فجر شہدا کو سپردِ خاک کیا اور پھر دونوں مستعد فوجیں ایک دوسرے پر جھپٹتی ہوئی نظر آئیں۔
گزشتہ شب کے قیامت خیز شور و غل سے بلند ہو کر سنی جانے والی آواز قعقاعؓ بن عمرو کی تھی۔ وہ اپنے فوجیوں کو کہہ رہے تھے: سب اکٹھے ہو کر فوجِ فارس کے قلب پر حملہ کرو۔ سنو سنو! رستم کو گرفتار کرنا ہے۔ صبح کے وقت اسی حکمت عملی پر عمل ہوا۔ ہر قبیلے کے سردار‘ ہر بٹالین کے کمان دار از سرِ نو طاقت سے قعقاعؓ بن عمرو کی بات اپنے فوجیوں کو سمجھا رہے تھے‘ سب کا فوکس سپاہِ فارس کا قلب اور رستم فرخ زاد کا تخت زریں تھا جس پر براجمان وہ اپنی فوج کو لڑنے کے احکامات جاری کر رہا تھا۔
حضرت علامہ اقبال نے اپنے شاہکار ''شکوہ‘‘ میں جنگِ قادسیہ اور جنگ یرموک کو اس خوب صورتی سے پرویا ہے‘ جس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ علامہ صاحب گویا ہوئے:
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر‘ کہیں معبود شجر
خُوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا
ریاست مدینہ کے فوجی برق رفتار تلواروں کی جھنکار میں آگے بڑھتے ہوئے رستم کے تخت کے قریب پہنچ گئے۔ رستم نے خود تخت سے اُتر کر لڑنے کی کوشش کی۔ اُسے زخم لگے تو وہ پیٹھ پھیر کر میدانِ قتال سے بھاگ نکلا۔ ایسے میں اسلامی لشکر کے ایک جانباز مجاہد ہلال بن علقمہ رستم کے پیچھے بھاگے اور اس پر برچھا پھینکا جس سے رستم فرخ زاد کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ نہر کے کنارے پانی میں جا گرا۔ ہلال بن علقمہ نے فوراً گھوڑے سے نیچے چھلانگ لگائی اور رستم کو ٹانگوں سے کھینچ کر پانی سے باہر نکال لیا۔ رستم اب ایک وار کی مار تھا‘ اس کا کام تمام کر کے علقمہ رستم کے تخت زرّیں پر جا کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے پکارے کہ خدا کی قسم میں نے رستم کو قتل کر دیا ہے۔ یہ آواز نعرۂ تکبیر کے ساتھ اسلامی فوج میں گونجتی چلی گئی۔ ایرانی سپاہ اس قدر حواس باختہ ہوئی کہ وہ جنگ چھوڑ کر میدانِ قادسیہ سے بھاگ نکلی۔
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آرائیوں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے‘ کبھی دریائوں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھائوں میں تلواروں کی
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اَڑ جاتے تھے
پائوں شیروں کے بھی میداں سے اُکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہو ا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے‘ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
تاریخ دانوں کے مطابق لشکرِ ایران میں سواروں کی تعداد 30 ہزار تھی‘ جن میں سے بہت کوشش کے بعد صرف 30 سوار فرار ہو کر جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ باقی سب کے سب میدانِ جنگ میں کام آ گئے۔
ضرار بن الخطاب نے ایرانیوں کے مشہور جھنڈے پر قبضہ کر لیا جس کا نام ''در فش کاویاں‘‘ تھا۔ مختلف تاریخی حوالوں میں شہنشاہِ فارس کے خصوصی نشان والے اس پرچم کی مالیت اُس وقت کے دو لاکھ 10 ہزار بتائی گئی تھی۔
قادسیہ کے فاتح کمانڈر حضرت سعد ابی وقاصؓ نے ایرانی سپاہ کے کمانڈر رستم فرخ زاد کا تمام سامان‘ اسلحے سمیت ہلال بن علقمہ کو مال غنیمت کے طور پر دے دیا۔ بھاگتے ہوئے ایرانی فوجیوں کا تعاقب کرنے کے لیے قعقاعؓ بن عمرو اور شرجیل کو تعاقبی دستہ دے کر فوراً روانہ کر دیا گیا۔ قادسیہ سے ذرا باہر ایک مقام پر جالینوس مفرور ایرانی فوجیوں کو روک روک کر مجمع جمع کر رہا تھا۔ اُسے بھی تہ تیغ کر کے تعاقبی دستے نے چھوٹے فتنے کا قلع قمع کر دیا۔
بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی‘ تورانی بھی
اہل چیں چین میں‘ ایران میں ساسانی بھی
اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے‘ نصرانی بھی
پر ترے نام پہ تلوار اُٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی‘ وہ بنائی کس نے
اُس وقت کی تاریخ اقوام عالم میں یرموک اور قادسیہ سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ مسلمانوں کی دوسری تاریخ ساز فتح توحید اور آخری رسالت کا پیغام لے کر خوشبو کی طرح کرۂ ارض پر پھیلتی چلی گئی۔ قادسیہ کے میدان میں مسلم بیانیے کی جیت کے کئی پہلو سامنے آئے۔ بیک وقت یہ ایک فوجی طاقت کا بیانیہ‘ فارس کی دوسری سُپر پاور کے خاتمے کے نتیجے میں بیلنس آف پاور کی نئی تشکیل کا بیانیہ‘ مدینے کی ریاست کے لیے نئے امکانات اور نئی فتوحات کا بیانیہ۔ اس سے پہلے اگست 636 عیسوی میں صرف چھ دن کے اندر ایسٹرن رومن ایمپائر انگاروں پر لوٹتی ہوئی نظر آئی تھی۔
قادسیہ سے پہلے رومن ایمپائر مسلمانوں سے زور آزمائی کر چکی تھی۔ جنگ یرموک سے پہلے کی ایسی تمام عسکری جھڑپوں میں رومن ایمپائر کو مسلم لشکر کے ہاتھوں شکست کی ذلت اُٹھانا پڑی تھی‘ اس لیے قادسیہ کے میدان میں پرشین ایمپائر کے تخت کا تختہ ہونے سے پہلے ہی رومن ایمپائر نے نوآموز لشکرِ اسلام سے آخری معرکہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ رومن ایمپائر نے آٹھ سے 10 لاکھ فوجی دریائے یرموک کے کنارے پر جمع کیے اور دنیا کی سب سے بڑی جنگ لڑنے کے لیے اپنے طور سے وار سٹریٹیجی فائنل کر لی۔ رومن ایمپائر کا پلان یہ تھا کہ مسلمان لشکر کو زیر کر کے جزیرہ نمائے عرب پر کنٹرول حاصل کر لیا جائے۔ رومن قیادت کی نظر میں اسلامی سلطنت کی توسیع پسندی اُن کے لیے واحد خطرہ تھی کیونکہ پرشین ایمپائر اور رومن ایمپائر آپس میں کئی سو سال تک جنگیں لڑتی رہیں مگر اُن دونوں میں سے کسی کو بھی فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہو سکی۔
موجودہ ہاشمی سلطنت اردن کے علاقے یرموک میں سامانِ حرب و ضرب جمع کیا گیا۔ یہ دریائے یرموک کا کنارہ تھا جہاں شامات کے علاقے سے پسپائی کے بعد رومن ایمپائر کی تمام تر فوجی طاقت جھونک دی گئی۔ تاریخ کی مستند کتابوں‘ حوالہ جات اور Encyclopedia Britannica میں درج واقعات کے مطابق جنگ یرموک 20 اگست 636 عیسوی کو شروع ہوئی اور صرف چھ دن کے اندر 26 اگست کو ایسٹرن رومن ایمپائر کا غرور خاک میں مل گیا۔
اب چلتے ہیں یرموک کی جنگ کے میدان کی طرف جو خلیفہ راشد ثانی سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں برپا ہوئی۔ اسلامی فوج کی قیادت دنیا کے سب سے بڑے جرنیل سیدنا خالدؓ بن ولید کر رہے تھے۔ اُن کے ساتھ جنگ کی کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام سنبھالنے کے لیے ابو عبیدہ ابن الجراحؓ اور عمرو بن العاصؓ جیسے نامور جنگجو اصحابِ کرام شامل تھے۔ رومی افواج کی قیادت Theodore Trithyrius کر رہا تھا‘ جس کی کمانڈ میں ہر طرف انسانوں اور تلواروں کا سمندر تھا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved