تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     31-12-2021

کی جاناں میں کون

زندگی بھی عجیب گورکھ دھندہ ہے۔ کیسے کیسے عالم فاضل‘ فلسفی‘ دانش ور سقراط بقراط بنے پھرتے ہیں۔ زندگی کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے بارے میں کیسے کیسے بھید بھائو بیان کر کے اپنی علمیت کا سکہ جماتے نظر آتے ہیں۔ آج کل موٹیویشنل سپیکر بھی مارکیٹ میں خاصی تعداد میں آ چکے ہیں‘ جنہیں سن کر یوں لگتا ہے کہ کائنات کے سبھی علوم اور زندگی کے سبھی گورکھ دھندے ان کی دانش وری کے مرہون منت ہیں۔ بعض علم اور خیال کی آمدنی کے بغیر اندھا دھند الفاظ کی فضول خرچی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لچھے دار لفاظی اور اندازِ بیان سے سامعین اور حاضرین جھومے چلے جاتے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ ان کے لیکچرز سننے کے لیے باقاعدہ بکنگ کروانا پڑتی ہے۔ منتظمین محفل کو ان کی ناز برداری اور خاطر داری کے علاوہ اچھا خاصا معاوضہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی حاضرین کے پلے کبھی کچھ پڑتا ہے‘ کبھی کچھ بھی نہیں پڑتا اور کبھی تو وہ بہت خوش خوش لوٹتے ہیں کہ بہت کچھ حاصل کر لیا۔ پتہ نہیں عملی زندگی میں ان کے حصے کچھ آتا ہے نہیں‘ لیکن میرے خیال میں کچھ پانے کے لیے بس اپنے اندر جھانکنا ہی کافی ہوتا ہے۔
بابا بلھے شاہ نے جس طرح زندگی کے گورکھ دھندے اور فلسفے کو بیان کیا ہے اس کے آگے یہ سبھی دانشور‘ عالم فاضل اور موٹیویشنل سپیکر کس قدر بے معنی اور کھوکھلے دکھائی دیتے ہیں۔ بلھے شاہ یہ بھید نہ پا کر بھی سب کچھ پا گئے اور اسی طرح بتا گئے کہ کی جاناں میں کون۔ زندگی کی اصل حقیقت اور وقعت ہی بس یہ ہے۔
بُلھا کی جاناں میں کون
نہ میں مومن وچ مسیتاں
نہ میں وچ کُفر دی ریتاں
نہ میں پاکاں وچ پلیتاں
نہ میں موسیٰؑ نہ فرعون
نہ میں وچ پلیتی پاکی
نہ وچ شادی نہ غمناکی
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں آتش نہ میں پون
بُلھاکی جاناں میں کون
نہ میں بھید مذہب دا پایا
نہ میں آدم حواجایا
نہ کجھ اپنا نام دھرایا
نہ وچ بیٹھن نہ وچ بھون
بُلھا کی جاناں میں کون
اول آخر آپ نوں جاناں
میتھوں ودھ نہ کوئی سیاناں
بُلھا اوہ کھڑا ہے کون
بُلھا کی جاناں میں کون
بلھے شاہ نے تو ساری اوقات ہی کھول کر رکھ ڈالی ہے۔ باقی سب دھندہ اور گورکھ دھندہ ہی ہے۔ عدم سے وجود اور وجود سے فنا کی طرف سرپٹ دوڑتا ہر ذی روح اس جہانِ فانی میں پہلا سانس لیتے ہی یوں بلک بلک کر روتے ہوئے اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے کہ یہ رونا پھر آخری سانس تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ کبھی ہنستے ہنستے روپڑتا ہے تو کبھی اپنے رونے پر ہنستا ہے۔ کیلنڈر کے خانوں میں بٹا انسان گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ ایک ایسے سفر پر گامزن رہتا ہے جس میں نہ اس کی مرضی شامل ہے اور نہ ہی اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھا گیا ہے‘ نہ ملک مرضی کا‘ نہ ماں باپ اور بہن بھائی‘ نہ حالات پسند کے اور نہ ہی وسائل پر کوئی اختیار۔ ایسے لگتا ہے کہ بس وقت کا دھارا ہے جو سب کو اپنے ساتھ بہائے لے جا رہا ہے اور کسی کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ سب بے بس اور لاچار ہیں۔ پھر اگلے ہی لمحے یہ سوچ بھی ابھرتی ہے کہ سب طاقتیں اور ساری مضبوطی اسی کو عطا کر دی گئی ہے۔ جب شعور کی بلوغت کو پہنچتا ہے اور اس گورکھ دھندے کو سمجھنے کے گمان میں مبتلا ہوتا ہے تو زندگی کی مہلت ختم ہوتی چلی جاتی ہے اور وقت رخصت آ جاتا ہے۔ سمجھنے کی لگن کو موت آن دبوچتی ہے تو ایسے میں بے اختیار یہ اشعار ناسٹلجیا کو مزید بڑھا ڈالتے ہیں۔
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
زندگی موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی رستہ ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
زندگی اب بتا کہاں جائیں
زہر بازار میں ملا ہی نہیں
جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں
چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں
اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نورؔ سنسار سے گیا ہی نہیں
سالِ رواں کے دسمبر کا آخری سورج بھی آج ڈوب جائے گا۔ اب تو نہ سال چڑھنے کا پتہ لگتا ہے اور نہ ہی سال کے جانے کا۔ وقت کی مٹھی سے مہلت کی ریت ہے کہ سرکتی چلی جا رہی ہے۔ کیسے کیسے وسوسے‘ بے چینی اور غیر یقینی دن کا چین اور رات کی نیند لوٹنے کے علاوہ توڑنے اور پھوڑنے کا کام بھی بخوبی اور برابر کیے چلے جاتے ہیں۔ دسمبر کے آخری چند روز تو آگہی کے عذاب کو اس قدر بڑھا ڈالتے ہیں کہ ہر سو عذاب ہی دکھائی دیتا ہے۔
آخری چند دن دسمبر کے/ ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں/ خواہشوں کے نگار خانے میں/ کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں/ رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی/ ایک محفل سی دل میں سجتی ہے/ فون کی ڈائری کے صفحوں سے/ کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے/ جن سے مربوط بے نوا گھنٹی/ اب فقط میرے دل میں بجتی ہے/ کس قدر پیارے پیارے ناموں پر/ رینگتی بدنما لکیریں سی/ میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں/ دوریاں دائرے بناتی ہیں/ دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس/ مشعلیں درد کی جلاتے ہیں/ ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں/ حادثے کے مقام پر جیسے/ خون کے سوکھے نشانوں پر/ چاک کی لائنیں لگاتے ہیں/ ہر دسمبر کے آخری دن میں/ ہر برس کی طرح اب بھی/ ڈائری ایک سوال کرتی ہے/ کیا خبر اس برس کے آخر تک/ میرے ان بے چراغ صفحوں سے/ کتنے ہی نام کٹ گئے ہوں گے/ کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں/ گردِ ماضی سے اَٹ گئے ہوں گے/ خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں/ کتنے طوفان سمٹ گئے ہوں گے/ ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں/ ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے/ رنگ کو روشنی میں کھونا ہے/ اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی/ ڈائری دوست دیکھتے ہوں گے/ ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں/ ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا/ اور کچھ بے نشاں صفحوں سے/ نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا...
ایسے میں دل سے صرف ایک آواز نکلتی ہے کی جاناں میں کون۔ کی جاناں میں کون۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved