تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     31-12-2021

زندہ رہنے کی قیمت …(آخری حصہ)

دنیا میں کوئی ایک بھی معاملہ ایسا نہیں جسے لین دین کی کسوٹی پر پرکھا نہ جاسکتا ہو یا نفع و ضرر کی عینک لگاکر نہ دیکھا جاسکتا ہو۔ انسان کے لیے ایک بنیادی آزمائش یہ بھی تو ہے کہ وہ اپنے لیے زیادہ نفع کا بندوبست نہ کرسکتا ہو تب بھی نقصان کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کرے۔ بعض حالات میں نقصان سے محفوظ رہنے کو بھی نفع سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چھوٹے شہروں میں لوگ قدرے پُرسکون اور ٹھہری ہوئی سی زندگی بسر کرتے ہیں۔ چھوٹے شہروں کی کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں مگر دوسری طرف چند فوائد بھی ہوتے ہیں۔ دیہات سے چھوٹے شہروں تک پائی جانے والی زندگی عمومی سطح پر انتہائی راحت بخش ہے۔ یہ زندگی انسان کو بہت کچھ دیتی ہے۔ جو ذہن کو بروئے کار لانا جانتے ہیں وہ اس ٹھہرے ہوئے ماحول میں بھی اپنے مطلب کی یعنی معقول تیزی کا بندوبست کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
ہم میں سے کون ہے جو بڑے شہروں کی خوبیوں اور خامیوں سے خاصی معقول حد تک آگاہ نہیں؟ ہاں! اِس کا احساس کم لوگوں کو ہے۔ چھوٹے شہر انسان کو بہت کچھ نہیں دے پاتے مگر بڑے شہر ایک قدم آگے جاکر بہت کچھ چھین لیتے ہیں۔ جی ہاں! دل خراش حقیقت یہی ہے کہ بڑے شہر انسان کو دینے سے زیادہ اُس سے لیتے ہیں۔ شہر کی زندگی ہماہمی کی ہے، گہما گہمی کی ہے، بھیڑ کی ہے۔ بھیڑ انسانوں ہی کی ہوتی ہے مگر انسان ہی اِس میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ اور گم بھی ایسا ہوتا ہے کہ پھر اپنا نام و نشاں پانا جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرتا ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں انسان وہ زندگی بسر کر رہا ہے جو اُس کی تو ہے مگر اُس کی نہیں۔ کراچی، لاہور، دہلی، ممبئی، کولکتہ، ٹوکیو، نیو یارک، لندن، ڈھاکا، بیجنگ، شنگھائی، پیرس اور ایسے ہی دوسرے بہت سے بڑے شہر انسان سے زندہ رہنے کی قیمت وصول کرتے رہتے ہیں۔ شہری زندگی کا بنیادی وصف کیا ہے؟ یہی کہ انسان کو ڈھنگ سے جینے کے لیے ضروری یا ناگزیر سمجھی جانے والی اشیا و خدمات تواتر سے فراہم کرتی رہے، اعلیٰ تعلیم اور بہتر صحت کی سہولتیں مہیا کرے اور جب تعلیم و تربیت کا مرحلہ مکمل ہو تب کیریئر یعنی منظم معاشی جدوجہد کے لیے بھی اسباب فراہم کرے۔ ہر بڑا شہر یہ سب کچھ دیتا ہے مگر معاملہ صرف دینے تک محدود نہیں رہتا۔ اس کے عوض بڑا شہر وصول بھی بہت کچھ کرتا ہے۔ بڑے شہروں میں زندگی کی رفتار کا ذرا باریک بینی سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہنگامہ پرور ماحول انسان کو کہیں کا رہنے نہیں دیتا۔
بڑے شہر انتہائی باصلاحیت افراد کو بہت کچھ دیتے ہیں۔ جو جتنی محنت کرتا ہے اُس کے بقدر معاوضہ پاتا ہے۔ معاشی امکانات غیر معمولی ہونے کی بدولت بڑے شہروں میں اُس کے اپنے باشندوں اور اور دوسرے علاقوں سے آکر آباد ہونے والے افراد کے لیے بھی اچھی خاصی کشش برقرار رہتی ہے۔ بڑے شہروں کے مکین کہیں اور جانے کا تصور تک نہیں کر پاتے اور باہر کے لوگ اِن شہروں میں آباد ہونے کے لیے پَر تولتے رہتے ہیں۔ ہر بڑے شہر کی کشش انسان کو اِسی طور عالمِ جنوں کی سیر کراتی رہتی ہے۔ مقامی باشندوں کو غیر معمولی تحریک بھی اپنے شہر سے دور کرنے میں ناکام رہتی ہے اور دور افتادہ چھوٹے شہروں اور قصبوں کے لوگ بڑے شہر کو دیکھ دیکھ کر سوچتے رہتے ہیں کہ وہاں رہنا اور کچھ کر پانا کب نصیب ہوگا۔ بعض ممالک میں کئی بڑے شہر ہوتے ہیں جو آبادی کو متوازن انداز سے بہتر معاشی امکانات فراہم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت میں ممبئی، دہلی، چنائی، کولکتہ، حیدر آباد، بنگلور اور احمد آباد بڑے اور نمایاں شہر ہیں۔ وہاں حیدر آباد، فیصل آباد، راولپنڈی اور کوئٹہ جیسے درمیانے اور چھوٹے شہر کم و بیش 50 ہیں۔ اس کے باوجود بھارتی باشندوں کو معقول معاشی امکانات کے حصول میں دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان میں حقیقی کاسمو پولیٹن شہر کراچی ہے۔ لاہور بھی بڑا ہے مگر معاشی امکانات کی فراوانی کے معاملے میں وہ کراچی سے بہت پیچھے ہے۔ کراچی کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتے رہنے کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ یہاں لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق معاش کے ذرائع مل جاتے ہیں۔ ملک کے دور افتادہ علاقوں سے آکر لوگ یہاں آباد ہوتے ہیں، معاشی جدوجہد کرتے ہیں، اپنی تقدیر سنوارتے ہیں اور پھر یہیں کے ہو رہتے ہیں۔
کراچی میں جس طرز کی زندگی ممکن ہے وہ بھی ہمارے علم میں ہے۔ کراچی اس اعتبار سے عجیب شہر ہے کہ یہاں انتہائی غریب و نادار افراد کا بھی گزارہ ہو جاتا ہے۔ کھانا پینا آج بھی بہت حد تک سستا ہے۔ کوئی اگر زیادہ خرچ کرکے اچھی طرح کھانا پینا چاہے تو اور بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کوئی مزدور بھی پچاس‘ ساٹھ روپے میں پیٹ بھر لیتا ہے۔ اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ اور ناقابلِ تردید ہے کہ یہ شہر انسان کو یوں جکڑتا ہے کہ پھر وہ اپنے بس میں نہیں رہتا۔ بات اِتنی سی ہے کہ ہر بڑا شہر اگر اپنے اندر کشش رکھتا ہے تو اُس کشش کی قیمت وصول کرنا بھی جانتا ہے۔ بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی بنیادی ڈھانچے پر اثر انداز ہوتی رہتی ہے۔ بنیادی سہولتیں کماحقہٗ نہ مل پائیں تو انسان ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں رہتا۔ کراچی میں اس وقت یہی معاملہ ہے۔ ملک بھر سے آئے ہوئے لوگ یہاں معاشی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اُن کے لیے معقول رہائش یقینی بنانا ممکن نہیں کیونکہ کمائی کا بڑا حصہ اِس میں خرچ ہو جائے تو اہلِ خانہ کے لیے کچھ خاص نہیں بچتا اور اگر اہلِ خانہ آبائی علاقوں میں ہوں تو انہیں بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے مطلوب رقم بھیجنا ممکن نہیں رہتا۔ کسی بھی بڑے شہر کی طرح اب کراچی بھی اپنے رہنے والوں سے زندہ رہنے کی بھرپور قیمت وصول کرتا رہتا ہے۔ بہت سی پریشانیاں ایسی ہیں جو اب معمولات، زندگی اور فکری ساخت کا حصہ ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ لوگ چھوٹے شہروں کے درمیان سفر کی جو صعوبت کبھی کبھی برداشت کرتے ہیں وہ کراچی جیسے شہر کے مکین یومیہ بنیاد پر برداشت کرتے ہیں۔ شہر اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ روزانہ کام پر جانے اور گھر واپس آنے کے لیے مجموعی طور پر پچاس ساٹھ کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ یہ سفر انتہائی تھکادینے والا بھی ہوتا ہے اور جیب پر بوجھ بھی بنتا ہے۔ علاوہ ازیں وقت بھی خاصا ضائع ہوتا ہے۔ لوگ یومیہ سفر میں کم و بیش ڈھائی گھنٹے ضائع کرنے پر مجبور ہیں۔ شہر بھر میں کم و بیش ایک درجن صنعتی علاقے ہیں مگر پھر بھی سب کو اپنے گھر کے نزدیک کام نہیں مل پاتا اور روزانہ چالیس پچاس کلو میٹر کا سفر کرنا ہی پڑتا ہے۔ صنعتی علاقے قائم کرکے شہر کو معاشی امکانات کے حوالے سے متوازن رکھنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ لوگ کام پر جانے اور گھر واپس آنے پر کمائی کا اچھا خاصا حصہ صرف کرنے پر مجبور ہیں۔
سماجی معاملات بھی الجھے ہوئے ہیں۔ بیشتر وقت کمانے یا پھر کمانے کی فکر ہی میں صرف ہو رہا ہے۔ اگر کسی کے پاس بظاہر کوئی کام نہ ہو تب بھی ذہن فارغ نہیں ہوتا۔ کسی سے ملنے جانا ہو تو 15، 20 کلو میٹر کا سفر عام ہے۔ دیہات اور چھوٹے شہروں میں معمول کی سماجی سرگرمیاں جیب پر کچھ زیادہ بوجھ نہیں ڈالتیں اور یہ معاملہ تھکا دینے والا بھی نہیں ہوتا۔ کراچی جیسے شہر میں کسی رشتہ دار یا دوست سے ملنے جانا ہو تو صرف وقت نہیں نکالنا پڑتا بلکہ جیب کی طرف بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ گنجائش ہے یا نہیں۔ حکومت کا ایک بنیادی فرض یہ بھی ہے کہ شہروں کو ایک معقول حد سے زیادہ نہ پھیلنے دے۔ نئے شہر بساکر یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ شہروں کا حجم اِتنا ہونا چاہیے کہ منصوبہ سازی آسان ہو اور اُس پر عمل بھی ممکن ہو۔ شہری زندگی بنیادی طور پر اس لیے ہونی چاہیے کہ انسان کو ڈھنگ سے جینے کا موقع فراہم کرے اور زندگی کا معیار بلند میں معاون بھی ثابت ہو۔ اگر بڑے شہر میں رہنے والے صرف زندہ رہنے کی قیمت ہی ادا کرتے رہنے پر مجبور ہوں تو پھر چھوٹے شہر اور قصبے چھوڑ کر آنے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔ پھر تو کم آمدن کے ساتھ چھوٹے شہر میں رہائش ہی زیادہ سُود مند ہوئی۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved