تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     01-01-2022

تقسیم ِ ہند کے تقاضے

اسرائیل نے اپنے وجود کا جواز بنا لیا۔ عرب دنیا کا سب سے طاقت ور اور ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔ دنیا میں طاقت اور ترقی ہی دو چیزیں ہیں جو معنی رکھتی ہیں۔ باقی بیکار کی باتیں ہیں اور جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے اُس کا شمار بھی ہوائی باتوں میں ہوتا ہے۔ ہندوستان سے کٹ کے پاکستان علیحدہ ملک بنا تو اُس کا جواز بھی دوسری باتوں میں نہیں ترقی اور طاقت میں ہونا چاہئے تھا‘ لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کا کیا حشر ہو گیا ہے۔ دنیا کی صفوں میں ہم کہیں پیچھے کھڑے ہیں اور مانگے پہ گزارہ چل رہا ہے لیکن ہماری کوئی بڑھکیں سنے تو حیرانی طاری ہو جائے کہ حالات کیسے اور باتیں کیسی۔
پیچھے پھر ہم کیوں رہ گئے؟ سادہ سا جواب ہے اس سوال کا، سوچ رکھنے والے لوگ اِتنے نہ تھے، نتیجتاً قوم کو کہاں سے کہاں لے گئے۔ قوموں کی تقدیر میں یا تو کوئی لیڈر ہوتا ہے جو اپنے ارادے اور سوچ سے قوم کو اٹھا کے پیروں پہ کھڑا کر دیتا ہے یا ایک طبقہ ہوتا ہے جو آگے کی سوچ رکھتا ہے۔ روس کا انقلاب اکثریت کے ووٹوں سے نہیں آیا تھا۔ لینن اور بالشوِک پارٹی تھی جس نے روس کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔
یہی کچھ چین میں ہوا، چیئرمین ماؤ اور چینی کمیونسٹ پارٹی نے چین کے تاریخی حالات کو تبدیل کر دیا۔ امریکہ اور یورپ میں حکمران طبقات ایسے تھے جنہوں نے اپنی قوموں کو آگے کی طرف کیا۔ جاپان میں بھی یہی کچھ ہوا، جنوبی کوریا میں بھی۔ ہمارا حکمران طبقہ پنجاب اور سندھ کے جاگیرداروں اور افسر شاہی کے بڑے افسروں پہ مشتمل تھا۔ قائد اعظم اور چند ایک لیڈروں کے علاوہ بیشتر حکمران طبقہ انگریزوں کا پروردہ اور انگریزوں کا وفادار تھا۔ اِن دماغوں میں انقلابی سوچ کہاں سے آتی۔ اِسی لئے گھسے پٹے راستوں پہ چلتے رہے۔
شروع کے سالوں میں جب تک انگریزوں کا اثر رہا تو اُن کی بنائی ہوئی ریاستی مشینری خوش اسلوبی سے کام کرتی رہی لیکن جب انگریزوں کا اثر کم ہوا اور ہمارے دیسی حکمران طبقات کا اپنا خمیر سامنے آنے لگا تو قوم کی ترقی رک گئی اور قوم پیچھے جانے لگی۔ آج پاکستان پر قائم اپنی سوچ ہے، یعنی ہماری دیسی سوچ۔ اِس میں کوئی انقلابی نظریات کا دخل نہیں نہ مغربی ریشنل سوچ اِس کا حصہ ہے۔ نتیجہ دیکھا جا سکتا ہے، ہر طرف کھوکھلے اور بے معنی نعرے۔ جس کرسی پہ کوئی بیٹھا ہے اُس کرسی کی اوقات کے مطابق اپنی جیب بھرنے میں لگا ہوا ہے۔ قائد اعظم نے بھی انتباہ کیا تھا کہ رشوت اور اقربا پروری ہمارے خمیر کا حصہ ہیں اور نئی ریاست کو اِن لعنتوں کو جڑ سے اکھاڑنے پہ دھیان دینا چاہئے۔ کس نے اُن کی تنبیہ پہ کان دھرنا تھا؟ آج کے حالات کے تناظر میں یہ برملا کہا جا سکتا ہے کہ ہماری دیسی سوچ کی فتح ہر اطراف دکھائی دیتی ہے۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب علیحدگی کی تحریک پروان چڑھ رہی تھی تو کسی نے سوچا نہ تھا کہ نئی ریاست کیسی ہو گی، اِس کے اہداف کیا ہوں گے اور بنیادی ترجیحات کیا ہوں گی؟ یہ درست ہے کہ مذہب کے حوالے سے بہت باتیں کی گئیں لیکن اِن ہوائی باتوں میں ٹھوس اقدامات کا شاذ ہی کوئی ذکر ملتا ہے۔ یعنی تعلیم کیسی ہونی چاہئے، سکول اور کالج کیسے ہوں، اِن میں پڑھایا کیا جائے، صحتِ عامہ کے حوالے سے اقدامات صرف مخصوص طبقات کے لئے ہوں یا ساری آبادی کے لئے، اِن کا ذکر کہیں نہیں ملے گا۔ بس لفاظی ہی لفاظی۔ اقتدار پہ قبضہ طاقت ور افسروں کا ہوا یا شاہ سواروں کا۔ عوام کے حصے میں لفاظی آئی اور اب تک یہی سلسلہ چل رہا ہے۔
کچھ دن پہلے اعلان کردہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کی مثال لے لیجئے۔ بڑے طمطراق سے عوام دوستی اور معیشت کا ذکر کیا گیا ہے لیکن عملی قدم ایک بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ کیا آپ دفاعی اخراجات کم کرنے جا رہے ہیں، کیا ہاؤسنگ سوسائٹیوں پہ قدغن لگنے لگی ہے؟ ایسے کسی اقدام کی طرف چھوٹا سا اشارہ بھی نہیں لیکن کہا گیا ہے کہ نئی سکیورٹی پالیسی کی بنیاد عوام دوستی اور معیشت ہے۔ ایسی لفاظی سے پاکستانی تاریخ بھری ہوئی ہے۔
پاکستانی تاریخ میں ایک اور چیز کی نمایاں کمی ہے۔ علیحدہ مملکت کی تاریخ میں بہت کم ذکر اِس نکتے پر ملے گا کہ اُن مسلمانوں کا کیا بنے گا جو پیچھے رہ جائیں گے۔ اِن کی تعداد بھی کوئی اِتنی کم نہ تھی، کُل مسلمان آبادی کے ایک تہائی لوگ ایسے تھے جن کو پیچھے رہ جانا تھا۔ دو قومی نظریے کی بنیاد مذہب تھی، لہٰذا یہ اہم نکتہ بنتا تھا کہ جب ایک مذہب کی بنیاد پہ ایک نئی ریاست تشکیل پا رہی ہے تو اگر ہندوستانی ریاست میں بھی اکثریتی آبادی کے مذہب کا غلبہ ہونے لگے تو وہاں کے مسلمانوں کا کیا بنے گا۔
پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کا دفاع ہندوستانی سیکولرازم نے کیا یعنی سیکولرازم کا نظریہ جو یہاں ایک گالی کے متراف بنا دیا گیا وہی پیچھے رہ جانے والے مسلمانانِ ہند کے کام آیا۔ ستر سال بعد البتہ ہندوستانی سیکولرازم کمزور پڑ گیا اور وہاں بھی مذہب کا جھنڈا لہرانے والی جماعتیں اقتدار پہ قابض ہو گئیں، آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی۔ اب جو اُنہوں نے وہاں شروع کیا ہے وہ سیکولرازم سے ہٹ کرسوچ ہے، کہ مسلمان علیحدہ قوم ہیں اور ہندو علیحدہ۔ اور جیسا ہم شروع سے کہتے آئے ہیں کہ یہ مسلم ریاست ہے تو وہاں بھی اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ہندوستان ایک ہندو ریاست ہے اور یہاں غلبہ ہندوتوا کے نظریات کا ہونا چاہئے۔ اور اِس ریاست میں اول تو مسلمانوں کو رہنا نہیں چاہئے اور رہنا ہے تو دوسرے درجے کے شہری کے طور پہ رہیں۔
یہ نہیں کہ اِن تضادات کو کوئی دیکھ یا سمجھ نہیں سکا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے یہی تو کہا تھا کہ کہاں جا رہے ہو، جن کو چھوڑ کے جا رہے ہو اُن کا کیا بنے گا؟ لیکن جب دو ریاستیں بن گئیں تو یہ تضادات سلگتے انگاروں کی مانند اپنی جگہ رہے۔ دو قومی نظریے کے تضادات کا حل دشمنی نہیں دوستی میں تلاش کیا جا سکتا تھا۔ دوستی نہ سہی خوش گوار ماحول رہتا تو سب سے بڑا فائدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ہوتا۔ کشمیر کا مسئلہ بھی جنگ سے تو حل نہ ہو سکتا تھا۔ کشمیری مسلمانوں کا فائدہ بھی دونوں ممالک کے خوش گوار ماحول میں تھا۔ کسی نہ کسی حد تک خوش گوار ماحول کچھ عرصہ قائم رہا لیکن 65ء کی جنگ نے اُس ماحول کو تباہ کر دیا۔ اور پھر دونوں ممالک دشمنی کی ایسی راہ پہ چلے جو ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔
پاکستان کو نئی راہوں کی تلاش ہونی چاہئے۔ نئی راہوں کے لئے نئی سوچ کا ہونا ضروری ہے۔ سر گھما کے دیکھئے نئی سوچ کا کہیں دور سے بھی شائبہ ملتا ہے؟ وہی بے معنی نعرے، فرسودہ سوچ۔ اِس دھرتی کو بانجھ ہم نے کر دیا ہے۔ کون سی ڈھنگ کی کتابیں یہاں لکھی جا رہی ہیں؟ کون سا لٹریچر یہاں جنم لے رہا ہے؟ نئی سوچ پھر کہاں سے آئے گی؟ اور جب ایسی حالت رہے تو ڈھنگ کے لیڈر کہاں سے پیدا ہوں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved