سازشوں کے تانے بانے کسی کہانی یا ''فِلر‘‘ ہی کی صورت میں کیوں نہ ہوں‘ ہدایت کاروں کو شایداندازہ نہیں کہ انہیں اس کی بھاری قیمت‘ تحریک انصاف کے علاوہ عوامی مخالفت کی صورت میں بھی چکانا پڑے گی۔ وہ لوگ جو70ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست کا مشاہدہ کر چکے ہیں‘ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ جب غریب عوام کو سیاسی شعور دینے کی کوشش کی گئی تو اس ملک کی متعدد مذہبی و سیاسی جماعتیں بھٹو کی آمد کو اپنے لیے بد شگون سمجھتے ہوئے اسی طرح اکٹھی ہو کر ان پر حملہ آور ہوئیں جیسے آج ملک کی بارہ سے بھی زائد جماعتیں تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف صف آرا ہیں۔ جس طرح آج کبھی ''یہودی ایجنٹ‘‘ اور کبھی اسی قسم کے عجیب و غریب الزامات لگائے جاتے ہیں‘ بالکل اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خاندان کی کردار کشی کی بھرپور مہم بھی چلائی گئی تھی حتیٰ کہ بھٹو کے ایمان پر بھی سوالات اٹھائے گئے‘ لگتا ہے یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے اور اب خان صاحب اس کا نشانہ ہیں۔ دنیا کا ہر بہتان اور جھوٹ بھٹو کے سر باندھا جانے لگا کہ گوئبلز بھی کانپ اٹھا‘یہاں تک کہ ان کے اہلِ خاندان کے بارے میں ایسی ایسی کہانیاں لکھی اور شائع کی گئیں کہ اخلاقیات منہ چھپائے پھریں۔ آج یہی کچھ عمران خان اور ان کے عزیزوں سے متعلق کہا جا رہا ہے لیکن اس سب کے باوجود‘ جس طرح آج خان صاحب اکیلے سینہ تانے ان کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں‘ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کے مقابلے میں اکیلے ڈٹے رہے تھے۔ اُس و قت صرف ایک جماعت جمعیت علمائے اسلام (ہزاروی گروپ) بھٹو کا ساتھ دے رہی تھی‘ باقی زیادہ تر جماعتیں ایک اتحاد کی صورت میں بھٹو حکومت کے خاتمے کیلئے اکٹھی ہو گئی تھیں اور اس وقت سیاست کی لڑائی کو ایک خوشنما نعرے میں لپیٹ کر پیش کیا گیا تھا۔ آج خود کرپشن اور بد دیانتی میں گردن تک دھنسے ہوئے‘ ایف آئی اے اور نیب کی گرفت میں آئے ہوئے لوگ اس حکومت سے چھٹکارا پانے کیلئے ہاتھ پائوں مارتے ہوئے حکومت کی نااہلی اور ملک کی تباہی کی ایسی داستانیں سنا رہے ہیں‘ جن میں حقائق کم اور تشنہ خواہشات زیادہ ہے۔ عوام کے ساتھ بد قسمتی یہ ہوئی کہ بھٹو اور عمران خان‘ جو بین الاقوامی طور پر بہترین لیڈر کے طور پر ابھرے‘ دونوں ہی اپنے مقاصد پر قائم نہ رہ سکے اور نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو سوشلزم پنپ سکا اور اور نہ ہی نئے پاکستان کی صورت میں کوئی واضح تبدیلی دیکھنے کو مل سکی۔ شاید اس کی واحد وجہ یہ تھی اور یہ ہے کہ حکومت کرنے کیلئے اپنا طے شدہ نظام نہ تو بھٹو نا فذکر سکے اور نہ ہی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد اقتدار کی منزل تک پہنچنے والا کپتان۔
جس طرح خان صاحب آج اپنے پرانے ساتھیوں سے کٹے ہوئے ہیں‘ ایسا ہی معاملہ بھٹو صاحب کے ساتھ بھی تھا۔ ان کو کاسہ لیسوں نے اس بری طرح اپنے حصار میں لے رکھا تھا کہ انہیں غریب کارکنوں سمیت تحصیل اور ضلعی قیا دت سے ملنا تو دور کی بات‘ دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملتا تھا۔ جب بھٹو کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا تو ایسے میں حبیب جالب جیسا بھٹو اور سوشلزم کا بہت بڑا حامی عوامی شاعر بھی عوام کی زبوں حالی دیکھ کر پکار اٹھا تھا:
جنگ کو اور تیز کر ذوالفقار علی
رات ہے مختصر اب ڈھلی‘ اب ڈھلی
شام کو شمع دے‘ صبح کو نور دے
لوگ بے تاب ہیں اپنا منشور دے
منتظر ہے تیری دیس کی ہر گلی
حلقۂ زر پرستاں سے باہر نکل
طبقۂ چیراں دستاں سے باہر نکل
تجھ کو اہلِ وطن پھر کہیں گے ولی
جنگ کو اور تیز کر ذوالفقار علی
یہی کچھ آج کل خان صاحب کو پکارپکار کر کہا جا رہا ہے کہ موقع پرستوں سے اپنی جان چھڑائیں۔ (اب پرانے کارکنوں کو منانے کی بات کی جا رہی ہے لیکن یہ کرے گا کون؟) ذہین اور انرجیٹک قسم کے لوگ کرسیٔ اقتدار پر بٹھائیں اور کچھ کر گزریں‘ ورنہ سوائے پچھتانے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ مجھے علم ہے کہ جواب میں بہت کچھ کہا جائے گا‘ بہت سی تاویلیں پیش کی جائیں گی لیکن یہ بہرصورت تسلیم کر نا پڑے گاکہ پاکستانی قوم کی دل شکستگی کا اصل سبب دیا نت دار اور اہل قیا دت سے محرومی ہے۔ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ وہ پیٹ بھر کر نہیں بلکہ محض دو وقت کی روٹی کے سوالی ہیں۔ امانت اور دیانت اپنی جگہ لیکن اگر اس کا نفاذ اپنی ذات تک رکھ کر سمجھاجانے لگے کہ باقی سب ٹھیک ہے تو یہ وہی کوتاہی ہے جو اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کر چکے ہیں۔ بھٹو صاحب کی ذات پر بھی عمران خان کی طرح کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا‘ ان کی دیانت کے سب معترف تھے لیکن مہنگائی نے عوام کی حالت دگر گوں کر دی تھی۔ آج کے نوجوان شاید یقین نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ بھٹوصاحب کے دور میں ایک کلو گھی اور چینی کا حصول بہت بڑا دردِ سر بن چکا تھا‘ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔
اب بہت ہو چکا‘ اب نظام کو تبدیل کیے بغیر ملک کی تقدیر نہیں بدلی جا سکے گی اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے نعرے کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کو نظام کی تبدیلی صحیح معنوں میں مطلوب ہے‘ اس کیلئے ضروری ہو گا کہ سب کچھ بدل دیا جائے کیونکہ دھندلایا ہوا چہرہ کسی اچھے سے اچھے نظام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر ڈبو دیتا ہے۔ گزشتہ 74برسوں سے جاری‘ انگریز کا ورثے میں ملا ہوا نظامِ حکومت جہاں اس ملک کی بد حالی اور عوام کی زبوں حالی کا اصل ذمہ دار ہے‘ وہیں کچھ دوسرے عوامل اور ادارے بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔ اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ اس نظام کو از سر نو تعمیر کیا جائے، جب تک یہ نظام حکومت مکمل طور پر بدلا نہیں جاتا اور اس نظام کو چلانے والا ہاتھ ہر قسم کی آلائشوں سے پاک نہیں ہوتا‘ اس وقت تک ملکی حالات بدلنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ۔ ساری بحث نظام حکومت تک محدود رہتی ہے جبکہ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ نظام حکومت اور ناظم حکومت‘ دونوں درست ہوں ــتبھی اطمینان کی صورت پیدا ہوتی ہے ورنہ ایک کی خرابی دوسرے کی خوبیوں کو کھا جاتی ہے۔
مختلف طرزِ حکومت کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہت اور مطلق العنانیت بے شک ایک ناپسندیدہ نظام حکومت ہے مگر یہ بھی سچائی ہے کہ اسی نظام میں ہمیں سلطان صلاح الدین ایوبی، امیر سبکتگین اور سلیمان اول جیسے حکمران‘شیر شاہ سوری اور علاء الدین خلجی جیسے بہترین منتظم اور حیدر علی اور ٹیپو سلطان جیسے بادشاہوں نے بہترین حکومت کی ۔ نظام کی یکسانیت ہمیشہ شخصیات کے فرق سے متاثر ہوئی اور اسی فرق نے عوام کا رویہ متعین کیا۔ آج اگر عوام کی اکثریت آزمودہ ٹولے سے پس پردہ کی جانے '' ڈیل‘‘ کوتشویش بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے تو اس سے اندازہ ہو جانا چاہئے کہ یہ غلطی کبھی بھی معاف نہیں ہو سکے گی۔ ایک طبقہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ لندن والوں کی‘ پاکستان واپس آ کر حکومت سنبھالنے کے لیے ترلے منتیں کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔عوام کی غالب اکثریت سمجھتی ہے کہ اقتدار کے موجو دہ چہروں کو جس چہرے سے بدلنے کی بات کی جا رہی ہے وہ ان کی خواہشات کا عملی نمونہ نہیں اور نہ ہی اس میں وہ خوبیاں ہیں جو اقتدار کے موجو دہ چہروں کے مقابلے میں صاف اور شفاف کہلا سکے۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان بہترین خوبیوں اور صلاحیتوں کا چہرہ ہیں جن کا دامن ملکی دولت لوٹنے والوں کی فہرست میں دور دور تک بھی نہیں اور ایسا ہی چہرہ پاکستان کے عوام کی جانب سے عطا کی جانے والی اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کا حق دار ہے مگر جس طرح اتحادیوں کے ذریعے ہاتھ پائوں باندھ کر پی ٹی آئی کو اقتدار ملا اس میں یہ امید کیسے کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے کمالات دکھائے؟