تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     01-01-2022

پڑھا لکھا پاگل کیوں ؟

گزشتہ کالم میں آپ کی ملاقات ایک پنڈت سے کروائی گئی تھی‘ آج ایک پڑھے لکھے پاگل سے ملواتے ہیں۔ ملاقات سے پہلے یہ واضح ہو جائے کہ ہمارے ہاں یہ مقولہ بہت حد تک مستعمل اور مستند مانا جاتا ہے کہ جو بہت زیادہ لکھ پڑھ جائے‘ اس کے پاگل ہونے کا اندیشہ موجود ہوتا ہے۔ مطلب زیادہ پڑھ لکھ جانے والا شخص‘ عوام کی نظروں میں‘ پاگل ہوتا ہے۔ ہم یہی بات لے کر ایک استاد کے پاس گئے۔ ظاہر ہے کہ وہ بندہ پڑھا لکھا تھا‘ تبھی تو اس کو استاد کہتے تھے۔ ہم نے اپنا سوال کیا تو استاد نے بغیر کسی تکلف کے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا سر تین بار ہلایا۔ ہم نے پوچھا: آپ ایک بار سر اثبات میں ہلا کر اس بات سے اتفاق کر سکتے تھے‘ پھر تین بار ہلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ استاد بولا: میں آپ کے سوال کی تائید میں پوری شدت سے اپنی ہاں ملانا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ اس فقرے کو ذہن میں مزید سوچتا رہا اور ہاں میں سر ہلاتا رہا۔ مزید کہنے لگا: ویسے بھی تین دفعہ ہاں کہنے سے اس میں ایک عقیدے کی طرح کا اقرار شامل ہو جاتا ہے۔ اب ہم نے اس مقولے کی حقیقت جاننے کے لیے علمی وضاحت مانگی تو استاد جی نے کہا: بہت آسان بات ہے ‘ زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ بس تھوڑی سی توجہ کرنا پڑے گی مگر ایک اندیشہ ہے جس کے بارے میں پیشگی خبردار کر دیتا ہوں۔ ہم نے کوئی خاص توجہ نہ دیتے ہوئے اندیشے سے بے فکری کا اظہار کر ڈالا۔ استاد کہنے لگا: اگر آپ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں تو بھی جب آپ کو میری بات سمجھ آگئی تو آپ نیم پاگل ضرور ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ اندیشے کی شدت بڑھ گئی مگر ساتھ ہی ایک دلچسپی اور تجسس بھی پیدا ہو گیا۔ اس پر ہم نے پہلے سے بھی زیادہ جلدی سے پاگل پن لاحق ہونے سے تمام ذمہ داری اپنے سر لیتے ہوئے استاد کو کہا کہ آپ بات شروع کریں۔ اب اگر آپ بھی اس خدشے کے لیے تیار ہیں تو استاد کی وضاحت کو پڑھ لیں وگرنہ اس تحریر کو یہیں پر چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ ہم پر تو اس کے بعد سے نیم پاگل پن کا کم تو نہیں‘ البتہ تھوڑا زیادہ شدت کا دورہ ضرور پڑتا ہے۔
سب سے پہلی وضاحت تو استاد نے کچھ اس طرح کی کہ یہ پاگل پن ہر اس معاشرے کے پڑھے لکھے لوگوں کو ہوتا ہے جہاں پر وسائل موجود ہونے کے باوجود مسائل نہ صرف پیدا ہوتے ہیں بلکہ لوگ ان کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے میں ہمیں تھوڑی دقت محسو س ہوئی لیکن ہم یہ سوچ کر چپ رہے کہ استاد کی گفتگو کا تسلسل نہ ٹوٹے، البتہ استاد نے ہمارا چہرہ پڑھ لیا اورخود ہی اس کی وضاحت کرتے ہوئے بولا: جیسے پاکستان سمیت بہت سارے ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ اب ہم نے قدرے اپنائیت سے بات کو آگے بڑھانے پر تھوڑا زور دیا تو استاد نے کہا: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تعلیم کسی بھی شخص پر اپنے علاقے یا ملک کی ہر طرح کی حقیقت کو عیاں کر دیتی ہے‘ مثال کے طور پر اس علاقے کی کل آبادی کتنی ہے‘ اس میں سالانہ اضافہ کتنا ہوتا ہے‘ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے جدید تعلیم کتنی ضروری ہے اور اس کے ملک میں تعلیم کی شرح اور معیار کیا ہے۔ معیار کی وضاحت کرتے ہوئے استاد نے ہم سے ایک سوال پوچھا کہ آپ لوگ بتائیں کہ پاکستان میں خواندگی کا کیا معیار ہے؟ ہم نے جھٹ سے جواب دیا کہ جو بھی شخص اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتا ہو تو اس کو خواندہ تصور کیا جاتا ہے۔استاد نے بتایا کہ نہیں! اب پاکستان نے بھی تھوڑی بہت ترقی کر لی ہے اور اب پاکستان میں کسی بھی شخص کے خواندہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم از کم ایک پیراگراف لکھ اور پڑھ سکتا ہو۔ اب اتنی قابلیت کے لیے پرائمری مطلب پانچ جماعت تک کی تعلیم ضروری ہوتی ہے لیکن یہ معیار عالمی معیار سے بہت کم ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک تعلیم ہماری ترجیح نہیں بن سکی۔ اس کے بعد استاد نے سوال کیا: ایسا کرنے کے لیے وسائل کے بجائے صرف ارادے اور نیت کی کمی ہے۔ ہم نے جواباً ہاں میں سر ہلا دیا۔
اس کے بعد استاد نے کہا کہ بجلی کی کمی کا مسئلہ تو کسی حد تک حل ہو چکا ہے مگر کیا اس کے نرخ قابلِ فہم ہیں ؟ہم نے کہا: نہیں! بجلی کا فی یونٹ تقریباً پچیس روپے تک کا ہو چکا ہے‘ خاص طور پر اگر ماہانہ یونٹ سو سے زائد ہوں۔ اس پر استاد نے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ پانی سے بننے والی بجلی پر فی یونٹ لاگت زیادہ سے زیادہ دو روپے ہے‘ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ دو روپے اور بیس روپے کا فرق‘ یہ ایک بھیانک حقیقت ہے کہ نہیں؟ حکومت کو کیا پتا چلتا ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھانے سے بجلی کے بل کی مد میں اس کا ریونیو بڑھ رہا ہے یا بجلی کی چوری بڑھ رہی ہے؟ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے استاد نے کہا کہ اگر میں صرف لاہور شہر کی بات کروں تو یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس وقت پولیس کے بعد دوسرے نمبر پر بجلی کے محکمے میں کرپشن ہو رہی ہے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی‘ ایک بات یہاں پر ذہن میں رکھنا پڑے گی کہ پاکستان میں بجلی کے متبادل منصوبوں سے پچاس ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا ہو سکتی ہے‘ جو ہماری کل کھپت سے کہیں زیادہ ہے مگر تاحال اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا بلکہ ایسے جاری منصبوں کی بات کریں تو یہ انتہائی ناکافی ہیں۔ اب جس ملک میں بجلی اتنی مہنگی ہو گی‘ وہاں صنعت کا پہیہ کیسے چلے گا؟ اور اگر مقامی صنعت مایوس ہو گی تو عالمی سرمایہ کاری کہاں سے آئے گی؟ مقامی صنعت کو بجلی مہنگی ملے گی تو ان کی پیدا کردہ اشیا کی لاگت اور قیمت زیادہ ہو جائے گی‘ پھر یہ عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک کی تیار کردہ اشیا کا مقابلہ کیسے کریں گی؟ اس صور حال میں امپورٹ اور ایکسپورٹ کا توازن تو بگڑے گا ہی۔ اس حوالے سے حکومتی سطح پر جتنی بھی کوششیں کر لی جائیں‘ جب تک بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو گا‘ نہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہو گا‘ نہ ڈالر قابو میں آئے گا۔
استاد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: پاکستان کی سالانہ آبادی میں پچاس لاکھ لوگوں کا اضافہ ہوتا ہے جبکہ یہ پہلے ہی 23 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ 1971ء میں آبادی کے اعتبار سے مغربی پاکستان‘ مشرقی پاکستان سے پیچھے تھا لیکن اب بنگلہ دیش کی آبادی پاکستان کے مقابلے میں پانچ کروڑ کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس معاملے میں بھی ہم قومی سطح پر مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں۔ اس عفریت پر قابو پانا تو دور کی بات‘ ابھی تک پاکستان میں ایک بڑا طبقہ اس بات کا قائل نہیں کہ اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ملک کے مستقبل کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ آبادی کے بے ہنگم اضافے کی وجہ سے ہی ملک میں پانی کی کمی خطرناک حد کو پہنچ چکی ہے۔ پاکستان مستقبل میں پانی کی کمی کے اعتبار سے دنیا کے دس خطرناک ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ آبادی بڑھنے سے زیر کاشت رقبے میں کمی اس لیے آتی ہے کہ اب وہاں رہائشی کالونیاں بن رہی ہیں۔ اس رجحان کی وجہ سے ملک میں درختوں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔ فی کس افراد کے حساب سے پاکستان میں ایک فرد کے حصے پانچ درخت آتے ہیں، جبکہ درختوں کی فی کس تعداد کے حوالے سے پاکستان کی صورت حال دنیا کے صرف آٹھ ممالک سے بہتر ہے‘ یعنی اس حوالے سے پاکستان دنیا کا نواں بدترین ملک ہے۔
اس کے بعد استاد نے سر اٹھاتے ہوئے ہم سے پوچھا: صرف ان تین مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا کوئی واضح منصوبہ آپ کو نظر آرہا ہے؟ ہم نے نفی میں سر ہلایا تو استاد نے کہا: پسماندگی‘ غربت اور جہالت کو ایک طرف رکھیں‘ یہ بتائیں کہ ہماری بقا خطرے سے دوچار ہے کہ نہیں ؟یہ سن کر ہماری سٹی گم ہو گئی۔ اس پر استاد نے کہا: اب آپ بتائو‘ جب ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی شخص مستقبل قریب کا جائزہ لے گا اور حالات کا تجزیہ کرے گا تو کیا وہ پاگل نہیں ہو گا؟ ہم نے استاد کی بات سے اتفاق کیا اور مستقبل قریب کا سوچ کر ہم پر بھی اداسی چھا گئی اور ایک پاگل پن کا دورہ محسوس ہوا۔ آپ یہ سب جاننے کے بعد کیا محسوس کر رہے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved