حکومت کی جانب سے سال نو کا تحفہ عوام پر بہت بھاری پڑ گیا، گزشتہ سال کے آخری دنوں میں پیش کیا گیا منی بجٹ مہنگائی کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کے بجائے رہے سہے پشتوں پر ہتھوڑے برسانے کے مترادف ہے، اگرچہ وزیر خزانہ نے نہایت آرام سے فرما دیا کہ جتنا ہم نے واویلا مچایا ہوا ہے یہ تو عام آدمی کیلئے محض دو ارب روپے کی ''گیم‘‘ ہے جس سے کون سا طوفان آ جانا ہے۔ اس طرح حکومتی اہلکار کلیم عاجز صاحب کے اس مصرعہ کی تصویر بنے نظر آتے ہیں کہ: ع
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
لیکن دراصل اس حکومت کا دامن اب عوام کے معاشی قتل اور 2018ء میں تبدیلی کی امید کے خون سے لتھڑا پڑا ہے اور حکمرانوں کو اندازہ نہیں یا شاید جان بوجھ کر حقائق سے نظریں چرا رہے ہیں۔ وہ دیکھ نہیں پا رہے کہ مہنگائی کا طوفان نہیں بلکہ سونامی آ چکا ہے۔ اب تو حکومتی ممبران بھی ببانگ دہل یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ یہ ملک نہیں چل رہا اور عوام کو جو سبز باغ دکھائے گئے تھے اس حوالے سے عملی اقدامات کا وقت آ گیا ہے؛ اگرچہ یہ بھی عوام کو ٹرک کی نئی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف ہو گا کہ ہم کچھ کر رہے ہیں حالانکہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کچھ کر گزرنے کا وقت گزر چکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منی بجٹ سے ملکی معاشیات پر کاری ضرب لگے گی، کاروبار اور معیشت مزید سکڑ کر رہ جائیں گے۔ ادھر زراعت کا شعبہ بھی لہولہان ہے، ملکی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ کسانوں کو گندم کی بوائی کے اہم ترین موقع پر کھاد کی ایک ایک بوری کیلئے لائنوں میں لگا دیکھا گیا ہے اور یوریا کی ایک بوری 2500 روپے اور ڈی اے پی کی ایک بوری 9500 ہزار روپے میں بلیک ہو رہی ہے۔
گزشتہ سال کے حوالے سے ادارہ شماریات کی شائع کردہ رپورٹ 2021ء کو تبدیلی سرکار کا مہنگا ترین سال ثابت کرتی ہے جہاں مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی، جبکہ ابھی اس منی بجٹ کے اثرات آنا باقی ہیں۔ خیر یہ کوئی ایسی خبر نہیں جس کی تصدیق کیلئے ادارہ شماریات کی رپورٹ کی ضرورت ہو بلکہ پاکستان کا ہر گھر مہنگائی کی بھڑکتی آگ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ گیا ہے۔ مہنگائی اور معاشی بدحالی تیزی سے انسانی المیے کے راستے پر گامزن ہے۔ حکومتی مالیاتی بل سے بچوں کا دودھ تک مہنگا ہو گیا۔ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سنتے ہوئے میرے ذہن میں بار بار وزیراعظم عمران خان کے قوم سے پہلے خطاب کی تصویر پھر رہی تھی جس میں خان صاحب تصاویر کی مدد سے قوم کو سمجھا رہے تھے کہ ہماری قوم کے بچوں کی ذہنی نشوونما غذائیت کی کمی کا شکار ہونے کے باعث سکڑ کر رہ گئی ہے۔ اب انہی کی سرکار نے نوزائیدہ بچوں کے دودھ پر ٹیکس لگا دیا ہے۔ لگے ہاتھوں حکومت نے غیرملکی ڈراموں اور اشتہارات پر بھی ٹیکس عائد کردیا ہے۔ اگر یہی کام ملک میں حکومتی ڈراموں کے ساتھ کیا جاتا توآمدنی میں اچھا خاصا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جا رہا جبکہ اصل میں معاشیات میں جب ایک پرزہ نیا لگایا جاتا ہے تو پوری مشینری کی ہیئت بدل جاتی ہے۔
دوسری طرف ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور بعض تخمینوں کے مطابق روپے میں ایسی گراوٹ سقوط ڈھاکہ کے موقع پر دیکھی گئی تھی۔ ملک کے معاشی فیصلوں میں عالمی مالیاتی اداروں کا اثرورسوخ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک میں بجلی‘ گیس‘ تیل کے بعد اب ٹیکسوں کا فیصلہ بھی ان کی ہدایات کی روشنی میں کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معاشیات کے استحکام کا سرا تیزی سے ہاتھوں سے پھسلتا جا رہا ہے اور اس حوالے سے اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو بہت دیر ہو جائے گی اور پھر شاید واپسی کا راستہ بھی نہ بچے۔
ملکی معیشت کا دفاع پر بھی براہ راست اثر پڑتا ہے اور حالات ایسے ہی رہے تو خدانخواستہ یہ شعبہ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ ملک جس معاشی استحکام کا متقاضی ہے وہ اس مخاصمانہ سیاسی ماحول میں تو ہرگز ممکن نہیں اور اب تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے میثاق معیشت کی پیشکش کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ اب ملک میں نیا ماحول تعمیر کرنے اور کھیل کے نئے اصول طے کئے بنا معاشی بدحالی کے جنگل سے نکلنا ممکن نظر نہیں آتا۔ حکومت اپنی مقبولیت تیزی سے کھو رہی ہے اور اس منی بجٹ کے بعد تو عوام کی جو چیخیں نکلنے جا رہی ہیں وہ ایوان اقتدار کی دیوروں کو ہلانے کی طاقت رکھتی ہیں۔ اس سے قبل کہ عوام معاملات اپنے ہاتھ میں لیں ملک کے کرتا دھرتاؤں کو مل بیٹھ کر نیا راستہ ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔
اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے منی بجٹ پر حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ''منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کی نام نہاد خود مختاری نیازی حکومت کا مجرمانہ اور ظالمانہ اقدام ہے، حکومت نے آج پاکستان کی معاشی خود مختاری اور معاشی آزادی آئی ایم ایف کے حوالے کر دی ہے، منی بجٹ میں قوم پر اربوں روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں، یہ پہلا بجٹ ہے جس میں عوام، معیشت اور پاکستان کیلئے کوئی ریلیف کوئی رعایت نہیں، نیا سال حکومت کے ظلم سے مہنگائی کا سال بن گیا ہے، کھانے پینے اور عام استعمال کی ضروری اشیا کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہو گا۔ بچوں کے دودھ، خشک دودھ، مرغی، دہی، لال مرچ، گھی، ڈبل روٹی، شیر مال پر 17 فیصد ٹیکس لگانا ظلم‘ اور سفاکی کی انتہا ہے۔ خوردنی تیل اور گھی پر 17 فیصد ٹیکس لگانا عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے۔ ادویات اور ادویہ سازی میں استعمال ہونے والے اشیا پر ٹیکس لگانے سے علاج، ادویات مزید مہنگی ہوں گی‘‘۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی پی ٹی آئی حکومت کے منی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف سے مزید ایک ارب ڈالر لینے کیلئے عمران خان نے منی بجٹ پیش کرکے عام آدمی کو دیوار سے لگا دیا، ہم پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ عمران خان کی آئی ایم ایف ڈیل ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دے گی، پی ٹی آئی کی آئی ایم ایف سے غلط ڈیل کی بھاری قیمت پاکستان کے عوام ادا کر رہے ہیں، بیکری کی اشیا سے نومولود بچوں کے دودھ تک پر ٹیکس بڑھا کر سفاکیت کی انتہا کردی گئی، ڈبے کا دودھ اور ماچس بھی منی بجٹ میں مہنگی کرکے عوام دشمن ہونے کا ثبوت دیا گی ہے۔ موبائل فون کالز کے پیسے بڑھا دئیے، کتابوں تک پر ٹیکس عائد کردیا گیا، ملک میں اندھیر نگری کا راج نہیں چلے گا‘‘۔
ابھی منی بجٹ سے مہنگائی بڑھنے کی بحث جاری تھی کہ تبدیلی سرکار نے سال 2022ء کے پہلے ہی روز پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کرکے نئے سال کا تحفہ عوام کو دے دیا۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 4 روپے فی لٹر کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پٹرول ملک میں مہنگائی میں اضافے کا سب سے پہلا اور بڑا عامل ہے جس کے بعد ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے، لیکن حکومت بضد ہے کہ مہنگائی کا کوئی طوفان نہیں آئے گا۔