تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     02-01-2022

سیا ست کی تنخواہ

دو فروری 1948 ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی جائدادکے عوض پاکستان کے ایک نجی بینک سے61 لاکھ روپے قرض حاصل کیا جس میں سے 35لاکھ 35 ہزار روپے مسلم لیگ کے حوالے کر دیے ۔قرضہ حاصل کرنے کے کچھ عرصہ بعد جب قائد اعظم کی صحت زیا دہ خراب ہو گئی تو انہوں نے بینک سے قرض منسوخی کی درخواست کر تے ہوئے نہ صرف 61 لاکھ روپے واپس کئے بلکہ اس پرواجب الاداسود جس کی مالیت107658 روپے بارہ آنے تھی ‘ ادا کر دیالیکن مسلم لیگ کو دیے گئے چندے سے ایک پائی بھی وصول نہیں کی۔ یہ تھی قیا دت‘ یہ تھے ہمارے مالک کے بانی۔ ایک طرف قائدا عظم جیسی شخصیت ہے تو دوسری جانب ہمارے دیگر حکمرانوں کا کرداردیکھ لیں تو زمین آسمان کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔اس کے با وجود کیا وجہ ہے کہ پاکستانی قوم اپنے بابائے قوم کو خراج تحسین پیش کرنے میں تجاہل سے کام لینے لگی ہے ۔اسے کسی قوم کی بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے۔
1921ء میں پنڈت جواہر لال نہرو کی کانگریس سے استعفیٰ دینے کی خبر باہر آئی تو اسے انتہائی حیرت سے سنا گیا ۔ان کے اس اچانک فیصلے پر بہت سی باتیں کی گئیں۔ کسی نے کہا کہ پنڈت نہرو کی گزارشات پر کانگریس کی ورکنگ کمیٹی میں کان نہیں دھرے جا رہے‘ کچھ کہنے لگے کہ ان کی اپنی جماعت کے کچھ سینئر لوگوں سے نہیں بن رہی۔ جو کچھ بھی کہا جاتا رہا بات اسی نکتے پر آکر ٹھہرتی کہ پنڈت نہرو اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے انگریز کے مقابل ہندو قوم کی آزادی کے لیے کھڑے ہوئے ہیں‘ اگر وہ چاہتے تو اپنا کاروبار شروع کرسکتے تھے یا وکالت کے پیشے کو اپناتے ہوئے ڈھیروں مال ودولت کما سکتے تھے لیکن پھر ہندوستان کی آزادی کے لیے زیا دہ وقت نکالنا ان کے لیے مشکل ہو جانا تھا۔ یہ تو تھیں کہانیاں جبکہ اصل وجہ پنڈت نہرو کے کانگریس سے استعفیٰ کی یہ تھی کہ انہوں کانگریس سے اپنی تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کی درخواست پر عمل کرنے میں جب کچھ وقت گزر گیا تو انہوں نے دبائو بڑھانے کے لیے استعفے کا ڈھول بجا دیا ۔پنڈت نہرو نے کانگریس سے مطا لبہ کیا کہ ان کی تنخواہ ہندوستان کے گورنر جنرل کے برا بر ہونی چاہئے۔اس اندرونی کہانی کو ڈاکٹر گوپال دت نے 1928ء میں اپنی کتاب '' سیا ست کے فوائد‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کی یہ کتاب الہ آباد سے شائع ہوئی تھی جس نے اُس وقت دھوم مچا دی تھی۔لال شیو کی لکھی گئی کتاب دیکھیں تو اس میں بھی انہوں نے پنڈت نہرو کا قائد اعظم سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک جانب کانگریس سے اپنے اور گھریلواخراجات وصول کرنے والی قیا دت ہے تو دوسری جانب محمد علی جناح جیسے لوگ ہیں جو سب کچھ اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم ولا دت پاکستان میں ایک عام سی روایت کے تحت منا یا گیا ۔اس دن سوائے چند ایک قومی عمارات کے کوئی خاص اہتمام کرنے میں کنجوسی کی جاتی ہے اوریہ اس دفعہ ہی نہیں بلکہ گزشتہ چند سالوں سے دیکھنے میں آ رہا ہے ۔اگرچہ قومی خزانے کے معاملے میں قائد اعظم خود نہایت کفایت شعار تھے۔ کابینہ کے ارکان کو چائے‘ کافی پیش نہ کرنے کا واقعہ یا زیارت میں اپنے آخری ایام کے دوران سرکاری خرچ پر بھیجے گئے باورچی کو واپس بھیج دینے کا واقعہ تو سبھی کو یاد ہے ‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلاف اورمحسنوں کا قوموں پر بڑا حق ہوتا ہے ‘ جو قومیں اپنے محسنوں کو یاد نہیں رکھتیں ‘جو اپنی آزادی کے لیے جانیں قربان کرنے والوں کو احترام نہیں دیتیں ان سے جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔قائدا عظم محمد علی جناح کے مقابلے میں گاندھی اور پنڈت نہرو کا موازنہ کریں تو ان میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا لیکن بد قسمتی یہ رہی کہ قائد اعظم کی زندگی اور تعلیمات کو آج کے طلبا کے لیے مشعل راہ بنانے کی بجائے انہیں یورپ اور امریکہ کی تاریخ پڑھانے میں زیادہ دلچسپی دکھائی جا رہی ہے۔
پنڈت جواہر لال نہرو جب برطانیہ سے واپس ہندوستان آئے تو انہوں نے کانگریس ورکنگ کمیٹی پر دبائو ڈالا کہ وہ اس وقت کام شروع کریں گے جب ان کے لیے باقاعدہ ماہانہ تنخواہ مقرر کی جائے گی۔یہ مضمون پڑھنے والوں کے لیے شاید یہ نا قابل یقین بات ہو لیکن سیا ست میں تنخواہ کا آغاز ہندوستان کی کانگریسی لیڈر شپ سے ہوا تھا ۔پنڈت نہروکی تنخواہ مقرر ہونے سے پہلے کانگریس کے بہت سے لیڈروں کو وظیفہ دیا جاتا تھا لیکن نہرو کی دیکھا دیکھی پھر ان سب کی ماہانہ تنخواہیں مقرر ہو گئیں ۔اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مسلم لیگ کے مقابلے میں کانگریس کے لیڈر باقاعدہ بھاری بھر کم تنخواہیں وصول کرتے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں قائد اعظم محمد علی جناح سے لے کر مسلم لیگ کے دیگر لیڈروں تک سب کچھ اپنی جیب سے خرچ کرتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ کانگریسی لیڈر کل وقتی سیاست کرتے جبکہ مسلم لیگیوں کی رفتار کچھ سست رہی کیونکہ نان نفقہ اور دیگر گھریلو اور ذاتی اخراجات کے لیے وقت اور رقم کی ضرورت ہوتی تھی ۔ کانگریس کے مشہور ومعروف لیڈرراجندر پرشاد‘ جنہیں بعد میں کانگریس کا صدر مقرر کیا گیا وہ بھی دورانِ سیا ست کانگریس سے اچھی بھلی تنخواہ وصول کرتے رہے۔ان کے بارے میں تو مشہور ہے کہ جب یہ کانگریس کے صدر منتخب ہوئے تو خاطر مدارت کے لیے وقف الائونس میں بھی ہاتھ مارتے رہے جس کی باقاعدہ انکوائری بھی ہوئی۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی جائداد کی آمدنی اور بعد میں پوری جائداد اپنے پاس رکھنے کی بجائے تمام دولت اسلامیہ کالج پشاور‘ سندھ مدرستہ الاسلام‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ انجمن اسلام سکول بمبئی‘عریبک کالج نئی دہلی اور یونیورسٹی آف بمبئی کے علا وہ بمبئی کے ہسپتال کے نام کر دی۔1900ء میں بحیثیت پریزیڈنسی صدر قائد اعظم کی ماہانہ تنخواہ پندرہ سو روپے تھی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ملازمت سے استعفیٰ دے دیا کہ وہ پندرہ سو روپے روزانہ کمانا چاہتے ہیں اور پھر سب نے دیکھا کہ ان کی وکالت کی فیس سب سے زیادہ ہو نے لگی اور 26 برس بعد بمبئی ڈائنگ‘ ٹا ٹا سٹیل اور ٹرام وے کمپنی میں ان کے حصص کی مالیت چودہ لاکھ روپے ہو گئی ۔اگر آج کے دور میں اس رقم کا حساب کیا جائے تو یہ ایک ارب روپے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن قائد اعظم نے ایک پیسہ بھی مسلم لیگ سے لینا گوارا نہ کیا اور سب کچھ اپنی جیب سے کرتے رہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ گاندھی اور نہرو کے مقابلے میں قائد اعظم اپنی قوم سے مخلص تھے ان کے دل میں کسی قسم کا لالچ نہیں تھا۔
جب تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی اور سب جان گئے تھے کہ پاکستان اور بھارت کی صورت میں دو آزاد ریاستیں معرض وجود میں آیا چاہتی ہیں ‘ایسے وقت میں قائد اعظم کو ان کے ڈاکٹرز نے بتا دیا تھا کہ تپ دق جیسا موذی مرض ان کی زندگی کی ڈور کھینچنے ہی والا ہے تو اس وقت اگر وہ چاہتے جو اپنی جان بچانے کے لیے دنیا کے کسی بھی بڑے اور اچھے سے ہسپتال میں اپنا علاج کروانے کے لیے جا سکتے تھے۔ ان کے پاس اس کے لیے مالی وسال کی بھی کوئی کمی نہیں تھی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنی جان اس قوم کے لیے وقف کر دی ۔گاندھی کو دنیا مہا تما کا درجہ دیتی ہے‘ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کی قوم نے دنیا کو ان سے روشناس کروانے کی مسلسل کوششیں کی ہیں۔ اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ انتہا پسندو ہندوؤں ہی کے ہاتھوں گاندھی قتل ہوئے۔گاندھی کے بارے یہ واقعہ دلچسپ ہے کہ ایک مرتبہ لیڈی لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے جواہر لال کے مقابلے میں مسٹر گاندھی انتہائی سادہ زندگی گزار رہے ہیں؟ اس پر پاس بیٹھی سروجنی نائیڈو نے قہقہہ لگاتے ہوئے بتایا کہ گاندھی جی کی بکریوں کا کل خرچ کتنا ہو گا؟ ان کے ارد گرد رہنے والے سٹاف کے تمام لوگ ‘سب کے سب برہمن ہیں۔ ان سب کے اخراجات جواس و قت کی رقم کے حساب سے پندرہ ہزار سے زائد تھے جو کانگریس ادا کرتی رہی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved