2021ء برآمدات کے حوالے سے پاکستان کے لیے بہتر رہا۔مالی سال 2021 میں برآمدات 25 ارب30کروڑ ڈالر رہیں جبکہ 2020ء میں برآمدات کا حجم 21ارب 39 کروڑ ڈالر تھا۔تقریبا ً18فیصد اضافہ حوصلہ افزا ہے۔ جولائی سے نومبر 2021ء تک 12 ارب ڈالرز سے زیادہ برآمدات ہوئیں جو کہ پچھلے سال کے انہی پانچ مہینوں کی نسبت 27 فیصدزیادہ تھیں۔ سب سے زیادہ اضافہ ٹیکسٹائل برآمدات میں ہوا ۔ پاکستان کی کل برآمدات میں ٹیکسٹائل کا حصہ 60 فیصد تھا۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری تا نومبر 2021ء تک ٹیکسٹائل برآمدات کی مالیت 17 ارب 74 کروڑ ڈالرز رہیں۔ 2020ء کے انہی مہینوں میں ٹیکسٹائل برآمدات کی مالیت 13 ارب 67 کروڑ ڈالر تھی۔یوں ایک سال میں خالص اضافہ چار ارب سات کروڑ ڈالر بنتا ہے۔ 30 فیصد سالانہ اضافہ حکومتی پالیسی میں مستقل مزاجی کے ثمرات ہیں۔اس کے علاوہ چاول کی برآمدات پاکستان میں ڈالرز لانے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ پچھلے سال تقریبا ًدو ارب 11 کروڑ ڈالر کے چاول برآمد کیے گئے جس میں اس سال 12 فیصد کمی آئی ہے۔کنٹینروں کی عدم دستیابی اس کی ایک وجہ رہی۔ نومبر 2021ء تک 33 لاکھ 40 ہزار ٹن چاول برآمد کیے گئے۔ پچھلے مالی سال میں پاکستان میں 34 لاکھ ٹن چاول پیدا ہوئے تھے۔جولائی 2021ء سے شروع ہونے والے مالی سال کے اختتام پر پاکستان پچھلے سال کی نسبت سو گنا زیادہ مالیت کے چاول برآمد کرنے کی پوزیشن میں آ گیا ہے۔ اس سال چاول کی پیداوار شاندار رہی ہے۔ 31 دسمبر 2021ء تک تقریباً ایک کروڑ10 لاکھ ٹن چاول سٹاک میں موجود ہیں۔ اس میں سے تقریباً 34 لاکھ ٹن مقامی طور پر استعمال ہوں گے بقیہ تقریبا ً80 لاکھ ٹن سے زیادہ چاول برآمدات کے لیے موجود ہیں۔ جن سے پانچ ارب ڈالرز بآسانی پاکستان لائے جا سکتے ہیں۔
اگر سال 2021 کے بیرونی قرضوں پر نظر دوڑائی جائے تو اعدادوشمار حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ دسمبر 2020 ء میں پاکستان کے بیرونی قرضے 116 ارب ڈالرز تھے جو کہ دسمبر 2021میں بڑھ کر 127 ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک سال میں 11 ارب ڈالرز کا اضافہ پریشان کن ہے۔سال 2020 میں 2019ء کی نسبت بیرونی قرضوں میں ہونے والا اضافہ تقریباً پانچ ارب ڈالرز تھا۔ اس سال 100 گنا سے زیادہ اضافہ معیشت کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ یہ معاملہ صرف اس سال کا نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت 40 مہینوں میں تقریبا ً32 ارب ڈالرز سے زائد قرض لے چکی ہے۔ (ن) لیگ نے 60 ماہ میں 34 ارب ڈالرز قرض لیا تھا اور پیپلز پارٹی نے 60 ماہ میں 16 ارب ڈالر۔( ن) لیگ کے دور کی نسبت 100 فیصد سے زیادہ اضافہ اور پیپلز پارٹی کے دور کی نسبت 200 فیصد سے زیادہ اضافہ تشویشناک ہے۔ اس حساب سے تحریک انصاف کے پانچ سال مکمل ہونے پر بیرونی قرض میں مزید 28 ارب ڈالرز تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
سال 2021 بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے بھی پریشان کن رہا۔ نیپرا کے نومبر 2021ء تک جاری اعدادوشمار کے مطابق گیارہ ماہ میں صرف دو ماہ میں بجلی کے ریٹ کم کیے گئے اورسات ماہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ جنوری میں 89 پیسے اضافہ ہوا۔ فروری اور مارچ میں 64‘ 64 پیسے مزید اضافہ کیا گیا۔اپریل میں 43 پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی کی گئی۔ مئی اور جون میں 45 پیسے فی یونٹ سستی کی گئی۔ جولائی میں ایک روپیہ 37 پیسے‘ اگست میں دو روپے سات پیسے‘ ستمبر میں دو روپے 52 پیسے مہنگی کی گئی۔ اکتوبر میں بجلی چار روپے 74 پیسے مہنگی ہوئی جو کہ سال2021 کا سب سے زیادہ اضافہ تھا۔ نومبر کے لیے بجلی چار روپے 39 پیسے مہنگی کرنے کی سفارش کی گئی۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اضافی وصولیاں کی گئیں اور بجلی چوری نہ روک سکنے کا بوجھ فی یونٹ بجلی بڑھا کر عوام پر ڈالا گیا۔
سال 2021 ٹیکس اہداف کے حصول کے اعتبار سے بہتر رہا۔ مالی سال 2020-21 کے اختتام پر ایف بی آر نے چار کھرب 70 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جو کہ ہدف سے زیادہ تھا۔ جولائی 2021ء سے نومبر 2021 ء تک ایف بی آر نے دو ہزار 314 ارب روپے ٹیکس وصول کیا جو کہ ہدف سے 15فیصد زیادہ ہے۔اس سال کا ہدف دو ہزار 16 ارب روپے طے کیا گیا تھا۔ 298 ارب روپے کا اضافہ بڑی کامیابی ہے۔ مالی سال 2021-22 کا ٹیکس ہدف پانچ ہزار829 ارب رکھا گیا ہے۔ کیلنڈر سال 2021 ء کے اختتام پر ایف بی آر کی کارکردگی کی بنیاد پر یہ امید کی جارہی ہے کہ سالانہ ٹیکس ہدف سے زیادہ اکٹھا کیا جا سکے گا۔ ایف بی آر ریکارڈ کے مطابق 52 فیصد ٹیکس درآمدات سے اور 48 فیصد ڈومیسٹک ٹیکس سے وصول ہو رہا ہے۔ یعنی مینوفیکچررز جو درآمدات کر رہے ہیں اس سے ٹیکس وصولیوں میں زیادہ بہتری آئی ہے۔
سال 2021 میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کی کاردگی بہتر رہی۔ جنوری 2021ء کے آغاز میں 15 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں جمع کروائے جا چکے تھے جو نومبر 2021ء میں بڑھ کر دو ارب 92 کروڑ ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں۔ 11 ماہ میں دو ارب 76 کروڑ ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے جس سے ڈالر ذخائر 18 ارب ڈالرز تک بڑھانے میں مدد ملی ہے۔ سال 2021 کا بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رہا ہے۔ جنوری 2021ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 66 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تھا۔ جولائی تا نومبر 2021ء تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سات ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا ہے۔اس کی وجہ درآمدات میں ہوشربااضافہ ہے۔ نومبر 2021ء میں درآمدات آٹھ ارب ڈالرزسے تجاوز کر گئیں جو کہ ایک سال قبل تقریباًچارارب ڈالرز تھیں۔ درآمدات کا بوجھ کم کرنے کے لیے سرکار نے360ارب روپے کا منی بجٹ پیش کیا ہیجس میں درآمدات پر بھی ٹیکس بڑھا یا گیا ہے۔ پاکستانی درآمدات کا تقریباً 80فیصد پیٹرولیم مصنوعات اور صنعتی خام مال پر مشتمل ہے بقیہ 20 فیصد پر ٹیکس بڑھا کر درآمدات کم نہیں کی جا سکتیں۔ خام مال پر ٹیکس بڑھانے سے بھی درآمدات میں کمی لانا مشکل ہے۔
سال 2021میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے بھی پاکستان نے کم وقت میں بہترین کام کیا۔گو کہ گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیابی نہیں مل سکی لیکن ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے اقدامات کو سراہا ہے۔حکومت نے مالی سال 2022ء کے لیے شرح نموپانچ فیصد حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ زرعی اجناس ‘صنعت اور خدمات کے شعبے میں ریکارڈ اضافے کے پیش نظر یہ دعویٰ درست دکھائی دیتا ہے لیکن عالمی بینک نے یہ تخمینہ ساڑھے تین فیصد رکھا ہے۔یاد رہے کہ مالی سال 2021کی شرح نمو کا حکومتی دعویٰ تقریباً چار فیصد تھا جبکہ ورلڈ بینک نے تقریبا ًڈیڑھ فیصد کا تخمینہ لگایا تھا ۔ بعد ازاں حکومتی دعویٰ درست ثابت ہوا تھا۔
سال 2021کے معاشی حالات آپ کے سامنے ہیں۔ اس سال ملا جلا رجحان دیکھنے میں آیا ہے‘کچھ پالیسیاں ثمر آور ثابت ہوئیں اور کچھ پالیسیوں نے مطلوبہ نتائج نہیں دیے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ منفی سوچ کے ساتھ نیا سال شروع کیا جائے۔ مثبت سوچ کامیابی کی ضامن سمجھی جاتی ہے۔ نئے سال کو پر امید اور مثبت سوچ کے ساتھ خوش آمدید کہیں ۔میری دعا ہے کہ یہ سال ملک پاکستان کے لیے معاشی خوشخبریوں کا سال ثابت ہو۔ آمین۔