تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     03-01-2022

فارن فنڈنگ کیس

وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی شرائط پر منی بجٹ کو پاکستان کے غریب عوام پر مسلط کر کے آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔اُن کی قابلیت کی وجہ سے انہیں پاکستان کے عوام کا درد سمجھنے والا سمجھا جاتا رہا لیکن ضمنی مالیاتی بل کے بعد ان کی پریس کانفرنس مجھے حقائق کے منافی لگی۔ اسی طرح وفاقی وزرا بھی غریب عوام کے دکھ کا مداوا کرنے کے بجائے اپوزیشن ہی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ ماضی کی طرح ایوان میں ہنگامہ آرائی ہوئی مگر عددی اکثریت کے بل بوتے پر حکومت اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی‘ جس طرح 17 نومبر 2021ء کے مشترکہ اجلاس کے آخری لمحوں کے بعض ڈرامائی واقعات کے حوالے دیے جا رہے تھے ‘وہی منظر 30دسمبر کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں دیکھنے میں آیا ۔قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور دیگر اپوزیشن قائدین بلاول بھٹو زرداری‘ آصف علی زرداری‘ اختر مینگل اور اپوزیشن کے 60 کے لگ بھگ ارکان ضمنی مالیاتی بل کے دوران غائب ہو گئے جو پارلیمانی تاریخ کا اہم واقعہ ہے اور جس انداز سے زائد المیعاد آرڈیننس ایوان میں پیش کیے گئے اور اپوزیشن نے اپنی کمزوری چھپانے کے لیے ہنگامہ آرائی کی وہ بھی کوئی پرانی بات نہیں۔ اب عوام اپنے شعور کو بیدار کریں۔ اپوزیشن کے جو ارکان اس اہم اجلاس کے دوران غائب ہو ئے ان کا ان کے حلقوں میں گھیراؤ کر کے ان سے جواب طلب کیا جانا چاہیے‘ جس طرح انڈیا میں ایسے ارکانِ پارلیمنٹ جو عوام کی آواز نہیں بنتے ان کے گھروں کے باہر دھرنا دیا جاتا ہے۔
اپوزیشن کے صفِ اول کے قائدین نے 17نومبر کے مشترکہ اجلاس میں قوم سے وعدہ کیا تھا کہ الیکشن بل کی عددی اکثریت سے منظوری کے بعد سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا لیکن اپوزیشن نے مصلحت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے عدالت جانے سے گریز کیا اور ان کے 20 ارکانِ قومی اسمبلی اجلاس سے لاپتہ ہو گئے ۔30 دسمبر کے اجلاس میں بھی اسی طرح کا منظر دیکھنے میں آیا۔ جب اپوزیشن کی جانب سے زبانی ووٹنگ چلنے دی گئی اور گنتی کرائی گئی تو جہاں حکومت کو 145 ووٹ ملے تو اس کے برعکس اپوزیشن کی طرف سے صرف تین ارکان مخالفت میں کھڑے ہوئے۔ اپوزیشن کے 95 ارکان نے ضمنی مالیاتی بل کے اجلاس میں شرکت کی مگر اپوزیشن کے ارکان جو ضمنی بجٹ پیش کرنے کے مرحلے میں بلند بانگ دعوے اور تقاریرکر رہے تھے اور دست و گریبان ہو رہے تھے‘ گنتی میں کھڑے ہونے کے بجائے اپنی نشستوں پر خاموشی سے بیٹھے رہے۔ قوم کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جب بھی عوامی مفادات میں آواز اُٹھانے کا وقت آتا ہے تو اپوزیشن کے بیشتر ارکان روپوش ہو جاتے ہیں حالانکہ اپوزیشن کے مشاورتی اجلاس میں قرار دیا گیا تھا کہ ضمنی بجٹ ملک کیلئے تباہی کا بلیک ہول ہے۔
میرے خیال میں مذکورہ بل کی پارلیمان سے منظوری سے آئی ایم ایف کی پانچوں شرائط پوری ہو جائیں گی اور ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ حکومت کے اتحادیوں نے بھی عوام کے مفادات کو مدِنظر رکھنے کے بجائے مصلحت سے کام لیا‘ جس کے اثرات انہیں بلدیاتی انتخابات میں دیکھنے کو ملیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ اس ضمنی بجٹ کو غریب عوام کی فتح قرار دے رہے ہیں جبکہ اطلاع کے مطابق انہوں نے مبینہ طور پر اپنے بینک کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے ملکی بینکوں سے خطیر رقوم کا قرض حاصل کر کے اپنے ڈوبتے ہوئے بینک کو بچا لیا۔ ملک کے ممتاز معاشی ماہرین کی رائے ہے کہ جس طرح معاشی نظام آئی ایم ایف کے ذریعے چلایا جا رہا ہے عوام کو کچھ نہیں ملے گا اور ملک دیوالیہ ہونے کی جانب آہستہ آہستہ سرکتا رہے گا۔ ڈاکٹر اشفاق حسن خاں نے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران ان کو بتا دیا تھا کہ گورنر سٹیٹ بینک کے اختیارات کے سائے میں سربراہ حکومت کی حیثیت برائے نام رہ گئی ہے جبکہ وزیر خزانہ سٹیٹ بینک کو انتظامی آزادی کا حوالہ دیے جاتے ہیں۔ اب جبکہ سٹیٹ بینک ترمیمی بل کی قومی اسمبلی سے منظوری حاصل کر لی گئی ہے تو گورنر سٹیٹ بینک ایک طرح سے پاکستان کے وائسرائے کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔
اس وقت ملک کو مضبوط اور مستحکم حکومت کی ضرورت تھی مگر ایسے نازک موقع پر چیئرمین تحریک انصاف نے پارٹی کی تنظیموں کو توڑ کر تحریک انصاف کے حقیقی کارکنوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ تحریک انصاف نے اپنا 2019ء کا پارٹی آئین کالعدم قرار دے کر 2015ء کا پارٹی آئین بحال کرنے کی منظوری دیتے ہوئے 2015ء کے آئین کے مسودے پر نظرثانی پر غور شروع کر دیا ہے۔ اب جبکہ تحریک انصاف کے قانونی ماہرین نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 201‘ 202 اور 205 کو بھی نظر انداز کر دیا ہے تو قانونی طور پر پارٹی کہاں کھڑی ہے؟ اس کی وضاحت الیکشن کمیشن کو کرنی چاہیے اور جو ابہام پیدا ہو گیا ہے اس کے ازالہ کے لیے الیکشن کمیشن کو پارٹی کے چیئرمین کو نوٹس بھجوانا چاہئے۔ بادی النظر میں قانونی شقیں منتخب عہدیداروں کا ہی اشارہ دیتی ہیں‘ نامزدگیوں کے بارے میں الیکشن ایکٹ 2017ء خاموش ہے۔ اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو پارٹی ہوا میں معلق نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے عجلت میں انتظامی ڈھانچہ اور 2019ء کا پارٹی آئین کالعدم کر دیا گیا ہے تو الیکشن ایکٹ کی دفعات201‘ 202 اور 205 اور 215 کہاں کھڑی ہیں؟
ان دنوں الیکشن کمیشن آف پاکستان انتظامی طور پر مصروف ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے انتخابات پر بھی آئے روز الیکشن کمیشن کے اجلاس ہو رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ فیصل واوڈا کیس اور ڈسکہ الیکشن رپورٹ پر بھی کارروائی ہو رہی ہے لہٰذا تحریک انصاف کی پارٹی کے اندرونی فیصلوں پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نظر شاید نہیں گئی۔ ویسے بھی الیکشن کمیشن میں پولیٹیکل ونگ کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن تحریک انصاف ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت چار جنوری سے شروع کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے خطرات کی زد میں ہے۔ نومبر 2014ء سے اکبر ایس بابر کی درخواست مختلف مراحل سے گزر کر اب اپنے منطقی انجام تک پہنچنے والی ہے اور اس حوالے سے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 212 کی شق C بڑی اہمیت کی حامل ہے جس میں پارٹی کے سربراہ کے سرٹیفکیٹ کو مدنظر رکھا جائے گا کہ ان کی پارٹی نے کسی غیرملکی شہری سے پارٹی فنڈز حاصل نہیں کیے۔ اب اگر شائبہ نظر آئے کہ پارٹی نے فنڈز غیر ملکی شہریوں سے حاصل کیے ہیں تو وہ ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس اہم شق کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کی کمیٹی گزشتہ ڈھائی سال سے جائزہ لے رہی تھی اور ان کی معاونت آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دو سینئر آفیسر کر رہے تھے۔ اکبر ایس بابر نے جو دستاویزات الیکشن کمیشن کو ثبوت کے طور پر دی تھیں ان کے اثرات کو کم کرنے کے لیے وزیر مملکت فرخ حبیب نے بھی اپنی صفائی میں دستاویزات پیش کیے ہوئے ہیں۔ حالات اب اگر تحریک انصاف کے حق میں نہیں جاتے تو الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 204 کی شق (4) اور رول 160 کے تحت ممنوعہ فنڈنگ بحق سرکار ضبط کرنے کا مجاز ہے۔ اگر کسی پارٹی کی ممنوعہ فنڈنگ ضبط ہو جاتی ہے تو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 215 کے تحت الیکشن کمیشن اس پارٹی کا انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے۔ پارٹی کا انتخابی نشان تحلیل ہو جاتا ہے تو پارٹی کی رجسٹریشن خود بخود تحلیل ہو جائے گی اور اس کے ارکان پارلیمنٹ کی حیثیت آزاد تصور کی جائے گی جس سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہو جائے گا۔ جناب عمران خان کو بطور چیئرمین تحریک انصاف اپنے مخصوص گروپ سے باہر نکل کر ان حالات پر غور کرنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved