تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     03-01-2022

مسلم بیانیے کی جیت …(5)

میدان یرموک میں سلطنتِ روم کے لشکر کی پچھلی طرف سے ایک شخص نکلتا ہوا نظر آیا‘ بظاہر جس کی حالت خراب لگ رہی تھی لیکن اصل میں وہ مخبر تھا۔ اُس نے حضرت ابو عبیدہ ابن الجراحؓ کو یہ اطلاع پہنچائی کہ رومن ایمپائر کے لشکر کے ساتھ 60 ہزار فوجیوں پر مشتمل عرب نصرانیوں کی ایک فوج بھی شامل ہونے کو پہنچ چکی ہے۔ ابو عبیدہؓ نے تجویز دی کہ ہمیں فوراً لشکرِ روم پر حملے کا آغاز کردینا چاہئے۔ یہ تجویز سن کر لشکر مدینہ کے کمانڈر ان چیف حضرت خالد بن ولیدؓ بولے: اے مسلمانو! ٹھہر جائو۔ پھر حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنی فوج کے 30 سپاہی صف سے آگے بلائے اور کہا کہ میں خود ان 30 جنگجوئوں کے ساتھ اُس 60 ہزار عرب نصرانی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے جاتا ہوں جو رومیوں کی کمک کے لئے آئی ہے۔ دیکھنا میں کس طرح اُن کی ناک مٹی میں رگڑتا ہوں۔ یہ بات سن کر سارے مجاہد حیران رہ گئے اور سوچا کہ شاید حضرت خالد بن ولیدؓ کا یہ جملہ ہلکا پھلکا مذاق ہے۔
جب خالد بن ولیدؓ لشکرِ اسلام سے صرف 30 جنگجوئوں کو ساتھ لے کر رومی لشکر کی طرف جانے لگے تو ایسے میں کچھ کمانڈروں نے آگے بڑھ کے حضرت خالدؓ سے درخواست کی کہ ہمیں آپ کی بہادری پر ناز ہے لیکن 60 ہزار کے لشکر کا 30 آدمی کیا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ کچھ بحث ہوئی جس کے بعد حضرت خالدؓ 30 کی تعداد 60 فوجیوں تک بڑھانے پر راضی ہوگئے اور اُنہیں لے کر عرب نصرانی فوج کے سامنے جاپہنچے۔
میدانِ یرموک سے دنیا کی عسکری تاریخ نے پہلی بار یہ عجیب اور دل دہلا دینے والا منظر دیکھا کہ ایک طرف صرف 60 فوجیوں پر مشتمل لشکر ہے اور دوسری طرف 60 ہزار کے عساکر کا جمِ غفیر۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر ایک ہزار نصرانی کامقابلہ کرنے کے لیے صرف ایک مسلمان مجاہد جنگ کرنے کے لیے نکلا ہے۔
نصرانی فوج کے سردار جبلہ بن ایہم غسانی نے بڑی حیرانی سے دیکھا کہ مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ اُس کے لشکر کے قریب پہنچ آیا ہے۔ نصرانی کمانڈر نے سوچا شاید اتنی بڑی فوج دیکھ کر مسلمان ڈر گئے ہیں اور مقابلے کے بجائے صلح کرنے کے لیے اُن کے نمائندے سامنے آئے ہیں۔ جبلہ بن ایہم غسانی نے اپنے ساتھیوں کو کہا: خالد بن ولیدؓ کو آگے آنے دو میں اُس سے کہتا ہوں کہ آج میں اُس کی نہیں بلکہ اپنی شرائط پہ صلح کروں گا۔ حضرت خالدؓ نے نصرانی کمانڈر کو جواب دیا: ہم صلح کی گفتگو کرنے کے لیے نہیں آئے ہیں، ہم تجھ سے جنگ لڑنے کے لیے آئے ہیں۔ عرب دستور کے مطابق جبلہ بن ایہم بولا: ہم سے لڑنا ہے تو جائو اپنا لشکر ساتھ لے کر آئو‘ میں نہیں چاہتا کہ عرب کی مائیں مجھے طعنہ دیں کہ دیکھو جبلہ بن ایہم نے 60 ہزار کا لشکر لے کر صرف 60 آدمیوں پر چڑھائی کر دی۔ اپنی بات مکمل کرکے حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنے ساتھیوں ضرار بن ازورؓ، زبیر بن عوامؓ، عبداللہ بن عمرؓ، فضل ابن عباسؓ اور عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کے ساتھ اپنے گھوڑے ایک حصار کی صورت ملا لئے اور جبلہ بن ایہم کو خالد بن ولیدؓ نے للکار کر کہا: ہمارا ایک مرد تیرے ایک ہزارکے برابر ہے۔ تُو حملہ کرکے دیکھ ہم تیرا کیا حشر کرتے ہیں‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ جبلہ بن ایہم یہ سنتے ہی غصے سے پاگل ہوگیا اور اُس نے اپنے لشکر کو 60 مجاہدوں پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دیا۔
یرموک کے میدان سے تاریخ نے یہ حیران کُن منظر دیکھا کہ جب نصرانی لشکر نے 60 مجاہدوں کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیا تو ایسے لگتا تھا جیسے یہ سمندر ان کو بہا کر لے جائے گا لیکن اللہ کے ان شیر دل اور جری مجاہدوں نے اس سیلاب کو روکے رکھا۔ اپنی برق رفتار تلواروں سے دشمن کو پاس نہ آنے دیا۔ یہ مجاہد تکبیر کا نعرہ بلند کر کے ایک دوسرے کو جوش دلاتے اور خود اور اپنے ساتھیوں کو دشمن کے وار سے بچاتے اور دشمن پر نشانے لگاتے رہے۔ یوں جنگِ یرموک کے پہلے معرکے کے دوران صبح سے شام ہو گئی۔
دشمن کے سپاہی نڈھال ہوتے گئے لیکن 60 مجاہد تازہ دم لگ رہے تھے۔ شام تک حضرت ابو عبیدہؓ کو کچھ خبر نہ آئی تو لشکر کو حملے کا حکم دینے کا ارادہ کیا۔ ساتھیوں نے کہا: ابو عبیدہ اب رُک جائیے‘ ہمیں اللہ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے، اللہ جو سب پر غالب ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہی جبلہ کا لشکر پیٹھ دکھا کر ایسے بھاگا جیسے کسی آسمانی مخلوق نے اُسے ڈرایا ہو۔ میدانِ جنگ سے بھاگنے والوں میں جبلہ بن ایہم سب سے آگے تھا۔ اس معرکے کی تفصیل علامہ واقدی کی فتوح الشام، مردانِ عرب اور کئی دوسرے حوالہ جات میں موجود ہے۔
یرموک کے اولین معرکے میں 10 مسلمان مجاہدوں نے جام شہادت نوش کیا اور پانچ مجاہد مجروح ہو کر قیدی ہو گئے۔ شہدا میں عمرو بن سعیدؓ، ابان بن سعیدؓ، عکرمہؓ بن ابو جہل، عبداللہ بن سفیانؓ، سعید بن حارثؓ، سہیلؓبن عمرو، ہشام ؓبن العاص جو عمروؓ بن العاص کے بھائی تھے، جیسے بہادر مسلم جنگجو شہید ہوئے۔ تاریخ ابن خلدون جلد اول، کینیڈی، Nicolle، اکرم، عصفری تاریخ خلیفہ بن خیاط اور بہت سے دوسرے تاریخی حوالوں میں اس معرکے کی تفصیل ملتی ہے۔
عرب تاریخ دانوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ سمیت اُن 15 مجاہدین کی بلند آواز میں فتح کے نعرے ان لفظوں میں بتائے ہیں:
''لا َ اِلہ َ اِلَّا اللہ ُ وَحدَہُ لَا شَریکَ لہ ُ، لہ ُ المُلکُ وَلَہ ُ الحمدُ، وَ ہُوَ عَلَی کُلِّ شي ئٍ قَدیر‘‘۔
مسلمان فوجیوں کا دوسرا حصہ سعید بن عامرؓ کی قیادت میں رومی فوجیوں سے شدید جنگ کرنے لگا، اس دوران ہزاروں رومی فوجی ہلاک ہوگئے اور لاتعداد رومیوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ اس طرح نصرانیوں کے بعد رومی فوج بھی میدان یرموک سے پسپا ہوگئی۔
عساکرِ روم کی ذلت آمیز پسپائی کی خبر شہنشاہ روم ہرقل کو اناطاکیہ کے شہر میں پہنچائی گئی، جو وہاں بیٹھ کر اپنی فوج کی قیادت کررہا تھا۔ ایسٹرن رومن ایمپائر کے شہنشاہ نے اس عظیم سے رومن ایمپائر کی عبرتناک پسپائی کی خبر حسرت اور سکتے کی حالت میں سنی۔ ہرقل تخت سے اُٹھا اور اپنے گھوڑے کی طرف بڑھتے ہوئے عربی زبان میں یہ جملہ کہا:
''علیک یا سوریہ السلام ونعم البلد ھذا للعدوا‘‘
ترجمہ: الوداع اے سرزمین شام، کیسی خوبصورت سرزمین دشمنوں کے حوالے ہوگئی۔
اُس زمانے کی سرزمینِ شام موجودہ بہت سے ملکوں کا مجموعہ تھا اور اسے بلادالشام کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ہرقل اناطاکیہ شہر سے فرار ہو کر قسطنطنیہ (ترکی کے شہر استنبول) چلا گیا جہاں رومن ایمپائر کے اقتدار کا آخری سورج غروب ہورہا تھا۔ دوسری جانب مسلم بیانیے کی فتح کے ڈنکے اور مسلم مجاہدوں کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز شرق و غرب کی سلطنتوں کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔
تو ہی کہہ د ے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا، اُس کو کیا سَر کس نے
کس نے ٹھنڈا کیا آتش کدۂ ایراں کو
کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو
(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved