تحریر : افضل رحمٰن تاریخ اشاعت     03-01-2022

راولپنڈی سے جڑی یادیں!

مجھے یاد ہے کہ تیس ستمبر انیس سو تہتر کا دن تھا جب بھارتی سرکاری ٹی وی ''دور درشن‘‘ نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ اس دور کی معروف ترین بھارتی فلم پاکیزہ دکھائے گا۔ لاہور میں دوسرے علاقوں سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے۔ کئی گھروں پر ٹی وی انٹینا کے ساتھ ایلومینیم کے برتن اس غرض سے باندھے گئے تھے کہ بھارتی چینل کے سگنل آسانی سے پکڑے جائیں اور تصویر واضح دکھائی دے۔ اس صورتحال میں مجھے بطور سینئر پروڈیوسر اپنی جوائننگ رپورٹ دینے لاہور سے راولپنڈی پہنچنا تھا۔ میری پروموشن ہوئی تھا۔ سینیارٹی کا اس تاریخ سے بھی تعلق ہوتا ہے جس تاریخ کو آپ نے عہدہ سنبھالا ہو۔ خیر! میں نے پاکیزہ فلم دیکھنے کا چانس نہیں لیا اور دن میں ہی راولپنڈی کیلئے روانہ ہو گیا۔
ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے پہلے میں نے دو ریڈیو سٹیشنوں پر کام کیا تھا۔ پہلے کراچی اور پھر لاہور، دونوں کی عمارتیں شاندار اور مرکزی علاقوں میں تھیں۔ دونوں کے سٹوڈیوز ایئر کنڈیشننگ کے جدید نظام سے مزین تھے۔ لاہور کا سٹیشن تو بالکل نیا تھا۔ کراچی میں سٹاف کے دفاتر زیادہ تر بیرکس میں تھے مگر لاہور میں جدید طرز کے دفاتر میں بہترین فرنیچر موجود تھا۔ میرے پاس راولپنڈی کے دو‘ تین دوستوں کی موجودگی کی سہولت تھی جس سے ابتدائی طور پر کسی مشکل پیش آنے کی توقع نہیں تھی لیکن ان دوستوں نے راولپنڈی ریڈیو کی ناگفتہ بہ حالت کا کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ جب میں تین سو تین پشاور روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان راولپنڈی کی عمارت میں پہنچا تو ایسا محسوس ہوا کہ میں لگ بھگ پچاس برس پیچھے چلا گیا ہوں۔ ایسی بے سرو سامانی، نہ کمرے کسی کام کے، نہ باتھ روم قاعدے کے بنے ہوئے تھے اور سٹوڈیوز کی حالت تو کچھ نہ پوچھیں۔ ایئر کنڈیشننگ کا تو سوال ہی نہیں۔ مشینری کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے بڑے ٹب میں برف کی ایک سیل رکھی ہوتی تھی اور اوپر تیز پنکھا چلتا تھا۔اس عمارت میں سٹوڈیو کا جب دروازہ بند ہو جاتا تھا تو سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا تھا۔
ان حالات میں بھی ہمارے ساتھی خوش و خرم کام چلا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے حرفِ شکایت لب پر لانے کی جرأت ہی نہ ہو سکی۔ اس عمارت تک پہنچنے کیلئے پشاور روڈ سے ایک چھوٹی سی گلی نما سڑک پر مڑنا پڑتا تھا جو آگے ایک چڑھائی میں تبدیل ہو جاتی تھی اور اچانک بائیں ہاتھ ایک راستہ دکھائی دیتا تھا جس میں داخل ہوں تو آپ ریڈیو کی عمارت میں داخل ہو گئے۔ پشاور روڈ پر ہی ایک لبِ سڑک عمارت پر ایک اور ریڈیو سٹیشن تھا جس کو سرکاری کاغذوں میں ''ریڈیو پاکستان راولپنڈی تھری‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہاں سے مقبوضہ کشمیر میں رہنے والوں کیلئے نشریات نشر کی جاتی تھیں اور ریڈیو سیٹ پر اس کی شناخت تھی؛ آزاد کشمیر ریڈیو تراڑ کھیل۔ آزاد کشمیر کا ایک ریڈیو سٹیشن مظفر آباد میں قائم تھا۔ یہ ریڈیو سٹیشن بدقسمتی سے 2005ء کے زلزلے میں مکمل تباہ ہو گیا تھا، بہت لوگوں کی اموات بھی ہوئیں۔ ہمارے ایک عزیز ساتھی اظہر علی کے پھول جیسے تین بچے کمرے کی چھت گرنے سے اپنے رب کے پاس پہنچ گئے اور ماں باپ کو روتا چھوڑ گئے۔ لوگوں پر کیسے کیسے امتحان آتے ہیں۔ اللہ پاک سب کو اپنی حفاظت میں رکھے، آمین!
لاہور میں فوجی بھائیوں کا پروگرام پیش کرنے ایک خاتون تشریف لایا کرتی تھیں‘ ان کے شوہر ایک حاضر سروس بریگیڈیئر تھے جو بالکل شروع میں کہوٹہ کی سکیورٹی پر متعین رہے تھے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ کہوٹہ ایک خفیہ منصوبہ تھا اور انہیں حکم ملا کہ وہ تعیناتی کے احکام لے کر جب وہاں پہنچیں تو کہوٹہ سے کچھ پہلے جو بس سٹاپ آتا ہے‘ وہاں اپنی جیپ سے اتر جائیں اور آگے پیدل جائیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور جب وہ کہوٹہ کے بس سٹاپ کے پاس پہنچے تو ایک بس آکر رکی اور کنڈیکٹر نے آواز لگائی: چلو بھئی ایٹم بم سٹاپ والے۔
ریڈیو پاکستان راولپنڈی تھری میں بھی یہی صورتحال ہوتی تھی۔ یہ بھی ''خفیہ‘‘ ریڈیو سٹیشن تھا۔ سرکاری کاغذوں میں جب کسی کی تعیناتی ہوتی تو ان کو ایسے ہی احکام ملتے کہ آپ پشاور روڈ پر جس کوٹھی میں ریڈیو سٹیشن قائم ہے‘ اس سے کچھ پہلے ہی ٹیکسی سے اتر جائیں اور پھر پیدل ریڈیو سٹیشن جائیں۔ ایک افسر نے اسی طرح کیا۔ ٹیکسی والا ان کو اتار کر سواری کے انتظار میں وہیں کھڑا تھا۔ اس نے اس افسر کو پیدل چل کر ریڈیو سٹیشن کی عمارت میں داخل ہوتے دیکھ لیا۔ وہ افسر صدر کے علاقے میں کہیں رہتے تھے‘ کچھ دنوں بعد دوبارہ وہی ٹیکسی والا مل گیا۔ انہوں نے بیٹھ کر کہا: پشاور روڈ جانا ہے۔ وہ بولا: صاحب آزاد کشمیر ریڈیو جانا ہے آپ کو؟ میں آپ کو دروازے تک چھوڑ آتا ہوں۔ ایسے لطیفے پوری دنیا میں ہوتے ہیں۔
سٹیشن راولپنڈی تھری کے سٹاف کے لوگ بھی ریڈیو پاکستان راولپنڈی آتے جاتے رہتے تھے۔ ان کی آپس میں دوستیاں تھیں، بعض کھانا بھی شاید اکٹھے کھاتے ہوں گے۔ میرا بھی ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے سٹاف کے لوگ کے ساتھ میل جول بہت خوش کن تھا۔ اتنے اچھے دوست بنے جو آج تک رابطے میں ہیں۔ ان میں صادق صاحب، قیوم صاحب، فخر عالم عثمانی صاحب، سلمان اعظم صاحب، اختر امام رضوی صاحب‘ اور بہت سے نام ہیں مگر میرا قلم اختر امام رضوی کے نام پر رک گیا ہے۔
اختر امام رضوی اتنا محبت کرنے والا، صاف ستھرا، اور کام بھی صاف ستھرا حتیٰ کہ لکھائی بھی کاتبوں جیسی، راولپنڈی ریڈیو کا بہت معروف پروگرام راول رویل اختر امام رضوی کی پیشکش ہوتی تھی۔ مسودہ بھی خود ہی لکھتے تھے۔ روزانہ گوجر خاں سے بذریعہ بس راولپنڈی جاتے تھے۔ بعض اوقات پروگرام کا مسودہ بھی بس میں ہی لکھتے تھے‘ لیکن کیا خوب پروگرام تھا ان کا۔ پھر وہ اور ہمارے ساتھی شریف شاد صاحب پوٹھوہاری میں گفتگو کرتے تھے تو سن کر ہی لطف آ جاتا تھا۔ آج کل ریڈیو پاکستان کے ریٹائرڈ ملازمین نے ایک وٹس ایپ گروپ بنا رکھا ہے۔ اس کے روحِ رواں ایک ہونہار ریٹائرڈ افسر محترم اکرم علی زئی ہیں۔ انہوں نے کرم کیا اور مجھے بھی اس گروپ میں شامل کر لیا۔ میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ پرانے دوستوں کا کھوج لگانے کی کوشش کی اور ایک پوسٹ میں محترم شریف شاد کی تصویر دیکھ کر ان سے اختر امام رضوی کا فون نمبر مانگا۔ ان کے جواب سے پہلے ہی ہمارے محترم ساتھی رائے سلیم نے اطلاع دی کہ وہ تو 2008ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ آپ ان کے درجات کی بلند کی دعا کریں۔ دیکھیں میری اس غفلت کے طفیل اختر امام رضوی میرے تصور میں تیرہ برس سے زندہ تھا اور اب اس کی یاد زندہ رہے گی۔ مرحوم سے میرا ویسا تعلق تو نہیں تھا جیسا ان دوستوں کے ساتھ تھا جن کے ساتھ شامیں گزرتی تھیں کیونکہ اختر امام رضوی کو واپس گوجر خاں جانا ہوتا تھا اس لیے اس کے ساتھ محدود تعلق ہی رہ سکتا تھا مگر وہ محدود تعلق بھی بہت سارے لامحدود تعلقات سے بڑھ کر تھا۔ مرحوم کو تعریف کرنا ہوتی تو کھل کر کرتے تھے۔ اور کافی دیر تک سبحان اللہ سبحان اللہ کی آواز سنائی دیتی رہتی تھیں۔ہمارے ریڈیو کے ایک سینئر افسر شمس الدین بٹ‘ جو واحد افسر تھے جنہوں نے امریکا سے نشریات میں ماسٹرز کیا ہوا تھا۔ وہ سرکاری طور پر دمشق کے دورے سے واپس آئے تو وہاں جو کچھ دیکھا‘ وہ بیان کر رہے تھے جبکہ اختر امام ان کے سامنے بیٹھے سبحان اللہ سبحان اللہ کی گردان جاری رکھے ہوئے تھے۔
ان کی اور بھی بہت سی یادیں ہیں لیکن کالم کی حد آ گئی ہے۔ پھر کبھی کسی حوالے سے پنڈی کے دوستوں کا ذکر ہوا تو ان کی مزید یادیں کریدوں گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved