2022ء کا آغاز منی بجٹ اور ہوشربا مہنگائی سے ہو چکا ہے۔ ستم در ستم‘ گزرے سال 2021ء کے جاتے جاتے پٹرولیم مصنوعات میں فی لیٹر 4 روپے کا اضافہ کرکے نئے سال کا تحفہ دیا گیا۔ وزیرا عظم درست فرماتے ہیں کہ خاموش انقلاب آرہا ہے‘ واقعی معاشی بدحالی ، بدترین اقتصادی صورتحال نے ہمیں ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے اگر اب بھی ہمارے حکمرانوں نے حالات کی چاپ پر کان نہ دھرے تو خدا نخواستہ بڑی تباہی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔
آج جدید دنیا کے حالات اور اس میں مسلمانوں کی حالتِ زار اس بات کی کھل کر گواہی دے رہی ہے کہ اللہ کا کلام برحق ہے۔ نائن الیون کی آڑ لے کر جس وقت امریکا نے افغانستان پر دھاوا بولنے کیلئے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ ''تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف‘‘ تو ہم نے اس کا ساتھ دینے کا ارادہ کیا اور یہ بھول گئے کہ بظاہر جس مصیبت کو ٹالنے کیلئے ہم افغانستان میں امریکا کا ساتھ دینے کی دلیل تراش رہے ہیں‘ وہ مصیبت کچھ عرصے کیلئے تو چھپ جائے گی لیکن ٹلے گی کبھی نہیں اور آج یہ مصیبت‘ معاشی ہتھیار آئی ایم ایف کی تلوار کی صورت میں ہمارے سروں پر لٹکا دی گئی ہے۔ بے شک جنرل (ر) حمید گل مرحوم نے قومی و ملکی معاشی منظر نامے کی جو پیش گوئی کی تھی‘ آج وہ حرف بحرف سچ ثابت ہو رہی ہے۔ عوام حکمران اشرافیہ کے جبر کو برداشت نہیں کر سکتے اور وہ وقت دور نہیں جب اس گلے سڑے سسٹم کو ایک خاموش مگر پُرامن انقلاب کے ذریعے لپیٹ دیا جائے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلامی سیاسی و معاشی نظام ہی ہمارے لیے نجات دہندہ ہے اورسچی و خالص ریاستِ مدینہ کے قیام کا خواب اسلامی نظام مملکت و معیشت کے ذریعے ہی شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔ یہ خدشہ بھی بد ستور موجود ہے کہ آئی ایم ایف کی قرض کیلئے کڑی شرائط آنے والے وقت میں پاکستان میں شدید عوامی ردعمل کا راستہ ہموار کرسکتی ہیں کیونکہ ان شرائط میں بجلی، گیس اور تیل کی قیمتیں اور ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف اس قدر بڑھ چکا ہے کہ عوام کے پاس سڑکوں پر نکلنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا اور یہی عالمی قوتیں اور پاکستان دشمن عناصر چاہتے ہیں۔ کیا پاکستان اتنا بڑا رسک لے سکتا ہے؟
منی بجٹ سے مراد عبوری بجٹ کی ایسی دستاویز ہے جو مالیاتی پالیسی پر نظر ثانی کرتی ہے ، منی بجٹ ابتری کے شکار معاشی حالات میں لایا جاتا ہے۔ حالیہ عرصے میں حکومت کی جانب سے منی بجٹ کا پیش کرنا آئی ایم ایف کے مطالبات کا حصہ ہے۔ ماہِ رواں میں آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ سے قبل عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کی تکمیل یقینی بنانے کیلئے اس بجٹ کی منظوری ضروری ہے۔ آ ئی ایم ایف پاکستان کو جو قرضہ دے رہا ہے‘ اس کے بدلے میں وہ ملک کی معاشی پالیسیاں اپنے ہاتھ میں لے کر تمام فیصلے خود کرنا چاہتا ہے۔ یوں پاکستان کے بجٹ کی تیاری کا معاملہ بھی آئی ایم ایف کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور وہی اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ اشیا کی قیمتیں کیا مقرر کرنی ہیں اور کون کون سے نئے ٹیکسز لگانے ہیں۔ یہ صورتحال ملک کو ایک ایسی نہج پر لے جائے گی جہاں عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا اور ملکی معیشت استحکام کے بجائے مزید بگاڑ کی طرف جائے گی۔ منی بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کے مطابق‘ عوام پر صرف دو ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگے ہیں جبکہ جن لگژری آئٹمز پر 69 ارب کے ٹیکس لگے ہیں‘ ان کا عام عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ دو ارب کے ٹیکسوں سے کون سا طوفان آجائے گا۔ وزیر خزانہ کا کہنا بجا کہ تحریک انصاف کی سوا تین سالہ حکومت میں پہلے ہی مہنگائی کے اتنے طوفانِ باد و باراں آچکے ہیں کہ موجودہ منی بجٹ بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ دکھائی دیتا ہے۔ 343 ارب روپے کی جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے نئے ٹیکسوں اور جی ایس ٹی کی مختلف اشیا پر چھوٹ ختم کرنے کے حوالے سے جو کچھ کہا‘ وہ ان کے فہم کی حد تک تو ٹھیک ہوگا لیکن شاید وہ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ عوام مہنگائی اور بے روزگاری میں ہونے والے مسلسل اضافے کی وجہ سے پہلے ہی شدید پریشانی اور مشکلات کا شکار ہیں، ایسے میں نئے ٹیکسوں کے نفاذ یا عام استعمال کی اشیا پر جی ایس ٹی کی چھوٹ ختم کرنے سے عوام کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے پچھلے تین سال کے دوران عوام پر روا رکھے جانے والے تمام تر معاشی جبر پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ اوائل میں پی ڈی ایم کا ہوّا کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی مگر جب لوگوں نے اسے سنجیدہ لینا شروع کیا تھا کہ اس تحریک کو ختم کر دیا گیا جس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی کہ درحقیقت حکمران سمیت اپوزیشن طبقے کے مفادات یکساں ہیں اور سارا بوجھ عوام پر ہی پڑے گا۔اب پھر پی ڈی ایم کو متحرک کیا جا رہا ہے لیکن عوامی تاثر یہی ہے کہ ملک میں جاری لوٹ مار میں تمام جماعتیں اور مافیاز اپنا اپناحصہ وصول کر رہے ہیں کیونکہ اشرافیہ و حکمران طبقہ بخوبی جانتا ہے کہ عوام کو بیوقوف بنانا بے حد آسان ہے اس لیے جونہی الیکشن قریب آتے ہیں‘ اپوزیشن جماعتوں کے حکومت مخالف بیانات اور جلسے جلوسوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عام لوگوں کے معیارِ زندگی اوران کیلئے دستیاب سہولتیں روز بروز ختم کی جارہی ہیں۔ محنت کش عوام کے استحصال کیلئے نئے نئے ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں اور ظلم کا شکنجہ مزید کسا جارہا ہے۔ عوام کو نگلنے کیلئے مہنگائی کے دیو کو کھلا چھوڑ دیاگیا ہے۔ اناج اور سبزیوں کی قیمتیں عوام کی رسائی سے دور ہوگئی ہیں۔ بچوں کے دودھ سے لے کر جان بچانے والی ادویات تک‘ تمام اشیا کی قیمت میں بھی ہوشربا اضافہ کیا جا رہا ہے ، سرکاری علاج معالجے کی سہولت وزرا اور اراکینِ پار لیمنٹ کیلئے مخصوص ہے جبکہ غریب عوام کو سرکاری ہسپتالوں میں برائے نام سہولتوں اور خراب مشینری کے ساتھ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ 2021 ء کا پوراسال ایسے ہی مناظر دیکھتے ہوئے گزرا۔ 2022ء‘ جس کا آغاز منی بجٹ سے ہوا ہے‘ سے بھی کچھ خاص امیدیں وابستہ نہیں ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے بلند بانگ دعوے کیا کرتے تھے‘ وہ وعدے کیا ہوئے؟ یو ٹرن لیتے ہوئے نہ صرف آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے بلکہ نہایت سخت ترین شرائط پر قرضہ بھی لیا۔ روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی بدولت کے پی کا بلدیاتی الیکشن پی ٹی آئی گورنمنٹ کیلئے ٹیسٹ کیس تھا مگر شکست کی وجوہات پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے اس کو پارٹی دھڑے بندی کا نتیجہ کہا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اقتصادی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عموماً معاشی پالیسی سازوں کو باہر سے درآمد کیا جا تا ہے جو عالمی ساہو کاروں کی سفارش پر یہاں ان کی اسائنمنٹ پوری کرنے آتے ہیں۔ اب ٹیکسوں میں رعایت و سبسڈی کا خاتمہ کیا جا رہا ہے تا کہ جو محصول اکٹھا ہو‘ اس سے عالمی ساہو کاروں کو سود ادا کیا جائے۔ آنے والے دنوں میں مالی سال 2022-23ء کے بجٹ کی تیاری شروع ہو جائے گی جبکہ شدید ترین مہنگائی، تنخواہوں اور اجرتوں میں کمی جیسے معاملات جوں کے توں ہیں۔ اربابِ اختیار کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ امریکا اور اس کے حواری پاکستان کی عسکری صلاحیتوں خصوصاً جوہری صلاحیت سے خوفزدہ ہیں اس لیے اپنے آلہ کاروں کے ذریعے انہوں نے وطن عزیز کو معاشی بحران سے دوچار کیا تاکہ اپنے معاشی کو اسی طرح استعمال کرسکیں جس طرح وینزویلا میں فتنہ پھیلایا گیا۔ مشرقِ وسطیٰ والا پلان یہاں بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ کون نہی جانتا کہ عراق، شام، یمن لیبیا اور مصر ہی وہ ملک تھے جو مستقبل میں اسرائیل کی دجالی حاکمیت کے راستے میں رکاوٹ بن سکتے تھے‘ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں کو تباہی اور عوامی انتشار کا شکار بنا دیا گیا۔