تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-01-2022

مغرب کی بڑھتی بدحواسی کا فسانہ

چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے سبھی خوفزدہ ہیں۔ کمزور پڑوسی خوف محسوس کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ممالک پریشان ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اُنہیں اپنی سیاسی، معاشی اور عسکری بالا دستی کا دھڑن تختہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ بہرکیف! چین جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ بہت سوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کہتے ہیں ''چینی قیادت نے اب ایک نیا طریقہ نکالا ہے اپنی برتری یقینی بنانے کا۔ مغربی ممالک کو چینی قیادت مختلف معاملات میں اُکساکر ایک دوسرے سے لڑوانے کی تیاری کر رہی ہے۔ ایسے میں چین سے بطریقِ احسن نمٹنے کے لیے ہم سب کو مل کر کچھ کرنا ہوگا۔ آپس میں لڑنے اور تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزرتے رہنے کے بجائے ہمیں مل کر چین کا سامنا کرنا ہوگا۔ اندرونی تقسیم سے زیادہ ہماری توجہ چین کو پچھاڑنے پر مرکوز ہونی چاہیے‘‘۔ ایک امریکی خبر رساں ادارے سے انٹرویو میں جسٹن ٹروڈو نے کہا ''چین کی معاشی اور عسکری قوت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران بھی چین نے خود کو مضبوط بنانے پر بہت توجہ دی ہے۔ وہ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں مغربی دنیا کو کھل کر چیلنج کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ مغربی دنیا کے لیے بہت خطرناک ہے‘‘۔
دنیا عجیب تماشا دیکھ رہی ہے۔ ایسے تماشے ہوتے رہے ہیں۔ ہر دور میں کوئی طاقت کمزور پڑی اور کسی کو عروج ملا۔ ایک دور یونان کی برتری کا تھا۔ پھر رومن سلطنت نے پَر پھیلائے۔ اُسی زمانے میں ایران (فارس) بھی سپر پاور سمجھا جاتا تھا۔ ایرانیوں نے ایک طویل مدت تک دنیا کے بڑے حصے کو مٹھی میں رکھا۔ پھر یوں ہوا کہ اللہ نے رومن اور ایرانی سلطنت کو اُن کی صریح بد اعمالیوں پر سبق سکھانے کے لیے عرب کے بادیہ نشینوں کو طاقت بخشی۔ مسلم اس اعتبار سے حیرت انگیز تھے کہ اُنہوں نے رومن اور ایرانی سلطنت کا مقابلہ ہتھیاروں سے کہیں بڑھ کر قوتِ ایمانی سے کیا۔ یہ دنیا اِسی طور چلتی آئی ہے۔ کسی کا عروج کسی کے زوال سے جڑا ہوتا ہے۔ جب مسلم دنیا ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہی تھی تب یورپ سمیت پوری مغربی دنیا جہالت کے اندھیروں میں غرق تھی۔ جہالت بھی ایسی تھی کہ علم کی بات کرنے والے کو جادوگر یا پھر بھوت پریت کہہ کر پابندِ سلاسل کر دیا جاتا تھا۔ بعض معاملات میں تو اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر موت کے گھاٹ اتارنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا تھا۔
یورپ نے اپنی جہالت اور پس ماندگی سے نجات پانے کے لیے کم و بیش پانچ صدیوں تک محنت کی۔ مسلم دنیا سے بہت کچھ سیکھ کر یورپ نے اپنے ہاں روشن خیالی اور علم دوستی کی بنیاد رکھی۔ ایک زمانے تک مسلم دنیا سے تعلق رکھنے والے فطری علوم و فنون کے ماہرین یورپ کے لوگوں کے لیے بہترین نمونے کے درجے پر فائز رہے۔ یورپ کی کئی نسلوں نے سپین سمیت کئی سرکردہ مسلم ریاستوں کی ترقی سے بہت کچھ سیکھا۔ یہ بھی فطری امر تھا کیونکہ ہر عہد میں سپر پاور سمجھی جانے والی ریاستوں سے باقی دنیا بہت کچھ سیکھتی ہے۔ یورپ نے جہالت کی تاریکی سے نکل کر اپنے لیے علم و فن کی روشنی کا اہتمام کیا تو سبھی کچھ بدل گیا۔ پندرہویں صدی میں یورپ کے ابھرنے کا عمل شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ سولہویں سے بیسویں صدی تک مغرب ہی باقی دنیا پر چھایا ہوا تھا۔ بیسویں صدی کے اواخر میں چین سمیت کئی ممالک نے ابھرنا شروع کیا۔ چین کا ابھرنا زیادہ خطرناک محسوس ہوا کیونکہ اُسے غیر معمولی آبادی کا ایڈوانٹیج بھی ملا۔ ایک وقت تھا کہ چین کی بڑی آبادی اس کی اپنی ہی راہ میں دیوار تھی۔ پھر یوں ہوا کہ یہی آبادی اُس کے لیے ترقی کا ایک بڑا ذریعہ بن گئی۔ یورپ اور امریکا نے مل کر کم و بیش تین صدیوں تک پوری دنیا پر بلا شرکتِ غیرے راج کیا ہے۔ اس دوران دونوں خطوں نے مل کر دنیا بھر کے پس ماندہ خطوں کا خوب استحصال کیا، اُن کے قدرتی وسائل پر جی بھر کے ہاتھ صاف کیا اور اپنی بھرپور ترقی ممکن بنانے میں کسی بھی حد سے گزرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ بیسویں صدی نے مغرب کا نقطۂ عروج بھی دیکھا اور زوال کی طرف بڑھنے کا عمل بھی۔ امریکا اور یورپ نے تین صدیوں کے دوران باقی دنیا سے جو سلوک روا رکھا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ آسانی سے بھلا دیا جائے۔ یہ بات مغربی دنیا کے لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنہیں کچل کر رکھا جاتا رہا‘ وہ اگر موقع ملتے ہی مضبوط ہوگئے تو گزرے ہوئے زمانوں کو اپنے دل و دماغ سے کھرچ کر پھینک نہیں سکیں گے۔
ایشیا، افریقہ اورمشرقِ وسطیٰ میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کے قدرتی وسائل کو خوب جی بھرکے لُوٹا گیا۔ جب مغرب میں رہنے والوں کے دل و دماغ سے اب تک صلیبی جنگیں نہیں نکل سکیں تو پھر یہ کیسے فرض کرلیا جائے کہ وقت آنے اور موقع ملنے پر کمزور اقوام اُن مظالم کا بدلہ نہیں لیں گی جو اُن پر امریکا اور یورپ نے مل کر ڈھائے ہیں؟ خیر! اب امریکا اور یورپ کو یہ فکر لاحق ہے کہ چین کے بہت مضبوط ہو جانے کی صورت میں اگر مسلم دنیا اور دیگر بہت سی پس ماندہ اقوام ایک ہوکر چین کے ساتھ کھڑی ہوگئیں تو کیا ہوگا۔ یہ خطرہ تو ہر دور میں ہر اُس طاقت کے لیے موجود رہا ہے جو دوسروں کو لوٹ کھسوٹ کر اپنی جیبیں اور تجوریاں بھرتی رہی۔ ہمارے لیے یہ سب کچھ زیادہ انوکھا اس لیے ہے کہ ہم اُس مقام تک آگئے ہیں جہاں ایک سُپر پاور ہانپ رہی ہے اور ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور اپنے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کرتی جارہی ہے۔ یورپ کے مقدر میں اب صرف تماشا دیکھنا رہ گیا ہے۔ یورپ نے ایک طویل مدت تک کئی خطوں کو لوٹا اور اُسے بھی یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر کچلے ہوئے لوگ کسی نہ کسی طور مضبوط ہوگئے تو اُس کے حق میں بہت بُرا ہوگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکا اور یورپ میں فکر و نظر کا فرق بڑھتا جارہا ہے۔ یورپ اپنا راستا بدل چکا ہے۔ وہ عسکری قوت کے ذریعے دور افتادہ خطوں کو کنٹرول کرنے اور مقامی لوگوں کا خون بہانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا مگر مشکل یہ ہے کہ امریکا اُسے اِدھر اُدھر ہونے کا موقع نہیں دے رہا۔ وہ چاہتا ہے کہ اب جو بھی حالات ہیں اُن کا سامنا کرنے میں یورپ اُس کی مدد کرے۔ امریکا کا کمزور پڑنا یورپ کے لیے بھی مصیبت کا باعث ہے کیونکہ دونوں نے مل کر بہت مظالم ڈھائے ہیں۔ ایسے میں چین کا ابھرنا دونوں کے لیے پریشانی کا باعث کیوں نہ ہو؟ مغرب میں صرف امریکا اور یورپ نہیں، کینیڈا اور اُس سے ملحق علاقے بھی شامل ہیں۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا چین کے خلاف انتباہ اس اعتبار سے معنی خیز ہے کہ امریکا دباؤ ڈال کر دیگر خطوں میں بھی میں چین مخالف ماحول پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ چین کا راستا روکنا ممکن نہیں۔ ہاں! اُس کی راہ مسدود کرنے کی کوششیں بگاڑ ضرور پیدا کریں گی۔
مغرب کے لیے ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے۔ ٹیکنالوجی پر اجارہ داری کا وقت گزر چکا ہے۔ چین، جاپان، جنوبی کوریا، ترکی اور دوسرے بہت سے ممالک امریکا اور یورپ کی تکنیکی برتری کے لیے بڑے چیلنج کا روپ دھار چکے ہیں۔ اب لازم ہے کہ معاملات کو محض طاقت اور دھونس دھمکی سے درست کرنے کے بجائے افہام و تفہیم کا سہارا لیا جائے۔ امریکی پالیسی میکرز کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اُن کی مکمل اجارہ داری کا وقت گزر چکا ہے۔ یورپ یہ بات سمجھ چکاہے تو کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کو بھی سمجھ لینی چاہیے اور ہر معاملے میں سوچے سمجھے بغیر امریکا کا ساتھ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قوت نے امریکا اور یورپ کے حواس منتشر کردیے ہیں۔ یہ وقت حواس باختہ ہوکر آئیں بائیں شائیں کرنے کے بجائے ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے ایسے اقدامات یقینی بنانے کا ہے جن سے افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہو اور تصادم کی راہ مسدود ہو۔ کچھ بامقصد کرنے کے لیے اب وقت بہت کم رہ گیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved