تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     04-01-2022

کہ یہ سال بھی کٹ گیا ہے

میں ہر سال 31 دسمبر کو ڈوبتے سورج کے ساتھ تن تنہا گاڑی میں کہیں دور نکل جاتا ہوں اور اپنے آپ سے ملاقات کرتا ہوں۔ اس ملاقات کا آغاز ڈاکٹر خورشید رضوی کی نظم ''محاسبہ‘‘ کو ڈوب کر پڑھنے سے ہوتا ہے۔ آپ بھی یہ نظم ملاحظہ کیجئے:
محاسبہ
''ہوا کہیں نام کو نہیں تھی
اذانِ مغرب سے دن کی پسپا سپاہ کا دل دھڑک رہا تھا
تمام رنگوں کے امتیازات مٹ چکے تھے
ہر ایک شے کی سیہ قبا تھی
جگہ جگہ بام و در کے پیکر
افق کے رنگین چوکھٹے میں
مثالِ تصویر جم گئے تھے
شجر حجر سب کے سب گریباں میں سر جھکائے
محاسبہ کر رہے تھے دن بھر کے نیک و بد کا
طویل قامت حزیں کھجوریں
کٹی ہوئی ساعتوں کے ماتم میں
بال کھولے ہوئے کھڑی تھیں
اِدھر مرا دل دھڑک دھڑک کر
عجیب عبرت بھری
ندامت سے سوچتا تھا
کہ آج کا دن بھی کٹ گیا ہے‘‘
نظم پڑھ کر میں اپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہوں ''کہ یہ سال بھی کٹ گیا ہے‘‘۔
گزشتہ برس اسی 31 دسمبر کو میں نے نئے سال کے لیے کیا کیا منصوبے بنائے تھے۔ ارادے باندھے تھے کہ کم از کم اتنی کتابیں پڑھنی ہیں‘ اتنی کتابیں لکھنی ہیں‘ حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی اور نہ ہی کسی کی دل آزاری کرنی ہے۔ اس دنیا سے رخصت ہونے والے بزرگوں اور دوستوں کی قبروں پر حاضری دینی ہے اور ان کے اہلِ خانہ کی خیریت بھی معلوم کرنی ہے۔ اپنی شخصیت کی فلاں فلاں خامیوں کو دور کرنا ہے اور خیر کے کن کن کاموں میں تعاون کرنا ہے۔ گزرتے سال کی یہ آخری شام میرے لیے انتہائی افسردہ‘ حزیں اور المناک ہوتی ہے کیونکہ شامِ احتساب کو میرے ہاتھ سوائے ندامت کے کچھ نہیں آتا۔
میں سوچتا ہوں کہ یقینا حکمران بھی سالِ رفتہ کے موقع پر اپنا احتساب کرتے ہوں گے کیونکہ اُن کے ذمے ایک فرد کا نہیں‘ کروڑوں انسانوں کی فلاح و بہبود کا حساب ہوتا ہے۔ بظاہر کوئی ایسا حکومتی احتساب دیکھنے میں تو نہیں آرہا۔ مئی 2019ء میں آئی ایم ایف کے نمائندے ڈاکٹر رضا باقر کو گورنر سٹیٹ بینک مقرر کیا گیا تھا۔ موصوف پاکستان آنے سے پہلے مصر میں آئی ایم ایف کی طرف سے نمائندگی کا فریضہ انجام دے چکے تھے اور ابنائے نیل کی چیخیں نکلوا چکے تھے۔ میں نے اپنے مصری دوستوں کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق لکھا تھا کہ خدا کرے میرا اندازہ بالکل غلط ثابت ہو مگر میں آئندہ اڑھائی تین برس میں مہنگائی کی شرح کو 20 فیصد سے اوپر اور ڈالر کی شرح کو 200 روپے کی بلند ترین سطح پر جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ میری خواہش کے برعکس میرا خدشہ بالکل درست ثابت ہوا اور دسمبر 2021 ء میں مہنگائی ایک سال پہلے کے مقابلے میں 20.9 فیصد زیادہ تھی اور ڈالر کی قیمت بھی 180کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ملک کی تقریباً نصف آبادی کے لیے اشیا کی ان بلند ترین قیمتوں اور بجلی گیس کے ان بلوں کے ساتھ زندہ رہنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے۔ بیروزگاری لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ سسکتی ہوئی معیشت پر آئی ایم ایف نے جو تازہ تازیانہ برسایا ہے اس سے معیشت کا جانبر ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ منی بجٹ کے اس تازیانے سے عام آدمی کو استعمال کی 144 اشیا پر 17 فیصد سیلز ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ صرف ایک بلین ڈالر کی قسط دینے کے لیے آئی ایم ایف نے حکمرانوں کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ وہ اپنے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایک خودمختار ادارہ بنا دیں۔ مختصر یوں سمجھئے کہ حکومت پاکستان سٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے سکے گی اور نہ ہی سٹیٹ بینک کے گورنر سے جوابدہی کر سکے گی۔
تبدیلی ماہ و سال کے بدلنے سے نہیں خیالات کے بدلنے سے آتی ہے۔ مجھ سمیت لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ جناب عمران خان آئیں گے تو نہ صرف خیالات بدلیں گے بلکہ عملاً حالات بدلیں گے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک عمران خان ایک واعظ کی طرح جوشِ خطابت دکھا رہے ہیں۔ شاید خان صاحب کو یہ ادراک نہیں کہ وہ تقریباً ساڑھے تین برس سے حاکم ہیں اور اب اُن کی مہلتِ اقتدار میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سال باقی ہے۔
جناب عمران خان جب اقتدار میں آنے کے لیے بیتاب و بے قرار تھے تو اس وقت وہ شب و روز کی ہر ساعت کے ساتھ غریبوں کے دکھ درد کو بیان کرتے سنائی بھی دیتے تھے اور اس دور کے حکمرانوں کے زمانے کی آج سے نصف بلکہ بعض صورتوں میں ایک تہائی قیمتوں کو نشانۂ تنقید بناتے تھے اور غریبوں کو نوید سناتے تھے کہ وہ آئیں گے تو پہلے تین ماہ میں بڑے بڑے کام کر گزریں گے۔ تین ماہ کیا‘ اب ساڑھے تین برس گزر گئے اور حالات بد سے بدتر بلکہ بدترین ہو چکے ہیں مگر خان صاحب اور اُن کے ترجمان سابقہ حکمرانوں کو ہی برا بھلا کہتے اور انہیں مزہ چکھانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اذیت ناک زندگی گزارنے والے عوام ضمنی و بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کو شکست سے دوچار کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ دو تین روز قبل جناب وزیراعظم نے ایک بار پھر کہا ہے کہ کمزور اور طاقتور کے لیے الگ الگ قانون سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اخلاقی معیارات نہ ہوں تو معاشرہ انصاف فراہم نہیں کر سکتا۔ حضور! آپ نے بالکل بجا فرمایا مگر سوال تو یہ ہے کہ آپ نے اقتدار کے اس طویل عرصے میں امیر غریب کے لیے یکساں انصاف کی فراہمی کے لیے کیا کیا‘ آپ نے پولیس کے کرپٹ نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے‘ آپ نے غریب اور امیر کے درمیان زمین اور آسمان کا فرق کو کم کرنے کے لیے کیا کیا؟
میں نہایت دردمندی سے گزارش کروں گا کہ جناب وزیراعظم ریاست مدینہ کے نام کا تکرار کرنے سے گریز کریں۔ کیا ریاست مدینہ میں جہلم کی ایک غریب خاتون اپنے بھوک سے نڈھال تین بچوں کو قتل کرکے خودکشی کی کوشش کرتی ہے اس پر ''مقدس ریاست‘‘ کسی دکھ درد کا اظہار کرتی ہے اور نہ ہی ہولناک غربت کی مستقل روک تھام کے لیے کسی طرح کے ایمرجنسی اقدامات کا اعلان کرتی ہے۔ ریاست مدینہ کے حاکم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر سے اس کا حساب لیا جائے گا۔جناب عمران خان کے اپنے صوبے پنجاب میں صرف 2021ء میں 8 سے 14 سال تک کی 4 پھول سی ملازمہ بچیوں کو انسانیت سوز تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور ریاست مدینہ کے نام لیوا ان واقعات کو کسی چیونٹی کی موت سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تو اس سے بہتر تو یہی ہے کہ وہ آخرت کے احتساب سے ڈریں اور ریاست مدینہ کی تکرار ترک کر دیں۔
مجھے تو اپنے ایک اور بے ثمر سال کے گزرنے کا بہت رنج ہے مگر میں نے حاکم وقت یا اُن کے کسی ترجمان کو اپنے اقتدار کے تیسرے بے ثمر سال کے موقع پر افسوس کے ساتھ یہ کہتے نہیں سناکہ یہ سال بھی کٹ گیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved