تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     04-01-2022

گورننس اور افسر شاہی کا رویہ

خیبرپختونخوا میں گورننس کے مسائل اس قدرگمبھیرہیں کہ جنہیں مینج کرنا روزبروز ناممکنات سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ بلا سوچے سمجھے نت نئے قوانین متعارف کرانے کے نتیجے میں چین آف کمانڈ مفقود ہوگئی ہے، اس لیے اب یہاں مربوط حکومتی اتھارٹی کا کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ بظاہر ہم ایک قسم کی طوائف الملوکی کے نزدیک آن پہنچے ہیں جہاں ضلعی سطح کے تمام سرکاری محکمہ جات مطلق العنانی سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ سرکاری اہلکارکسی چین آف کمانڈ کی کامل اطاعت یا قواعد و ضوابط کے تحت اجتماعی مساعی کے برعکس نہایت دیدہ دلیری سے من مانی کرکے سماجی نظم و ضبط کو اُدھیڑنے میں مشغول ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کا وہ ادارہ‘ جو کبھی سرکار خاطر مدار کی حیثیت سے گورنمنٹ کا چہرہ اور قومی املاک کے کسٹوڈین کے طور پر ضلعی سطح کے تمام وفاقی و صوبائی محکموں کو مینج کرتا تھا‘ اب اپنے وسیع کردار سے دستبردار ہو کر خود کو چھوٹے موٹے ترقیاتی کاموں کی ''مؤثر نگرانی‘‘ تک محدود کر بیٹھا ہے؛ چنانچہ اعلیٰ ترین سرکاری اہلکار امورِ مملکت کی انجام دہی پہ غور و فکر کرنے کے بجائے ہر وقت اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے جھنجھٹ میں سرگرداں رہتے ہیں۔ وہ کسی مشکل اسائنمنٹ میں ہاتھ ڈالنے یا اپنی صلاحیتوں کو آزمانے سے دانستہ گریز میں عافیت تلاش کرتے ہیں؛ چنانچہ ہزاروں اہلکاروں اور درجنوں سرکاری محکموں کی موجودگی کے باوجود معاشرے میں بدامنی اور تشدد کا محرک بننے والے پریشر گروپوں کے باغیانہ رویے، بازاروں اور شاہراہوں پر تیزی سے بڑھتی تجاوزات، شہری علاقوں میں صحت و صفائی کی ابتر صورتحال، ٹریفک جام اور گراں فروشی و ملاوٹ جیسے مہلک مسائل کو کنٹرول کرنے والی کوئی اتھارٹی دکھائی نہیں دیتی۔ بجلی کی طویل غیراعلانیہ بندش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی اورسماجی مسائل کو ڈسٹرک لیول پہ سنبھالنے کا خیال کسی کو نہیں رہا۔ یہاں اندرونِ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں راتوں کو دس دس گھنٹے بجلی غائب اور اٹھارہ سے بیس گھنٹے کی غیر قانونی لوڈشیڈنگ کے باوجود کمشنر اورڈپٹی کمشنر کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ پولیس کی طرف سے چوری کی ایف آئی آر کے اندراج سے گریز کی وجہ سے چوریوں سمیت سٹریٹ کرائمز کی واردتیں روزافزوں ہیں، حالت بہ ایں جا رسیدکہ رکشہ ڈرائیور تک ٹریفک پولیس کی پروا نہیں کرتا۔ ہر مسئلے کے حل کیلئے مجبور شہریوں کو مظاہرے کرکے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی توجہ حاصل کرنا پڑتی ہے۔
حال ہی میں ایک اعلیٰ آفیسر کی توجہ اربوں روپے کی سرکاری اراضی پہ ایک تنظیم کے اعلانیہ قبضے کی طرف مبذول کرائی گئی تو ان کا جواب تھا ''let the sleeping dogs lie‘‘ یعنی سرکاری آفیسر قومی املاک کے تحفظ اور شہریوں کی زندگی کو متاثر کرنے والے مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنی اتھارٹی اور اُن ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کو تیار نہیں جن کے عوض انہیں لامحدود اختیارات اورغیرمعمولی مراعات مل رہی ہیں۔ وہ فرض کی ادائیگی کے بجائے معمول کے مسائل کو قالین کے نیچے چھپا کر زیادہ مہلک بنانے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔ اِسی مشقِ ستم کیش کی بدولت لاینحل مسائل کے انبار ہمارے ریاستی ڈھانچے کی مجموعی استعداد سے بڑھ گئے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ اب بھی پولیس اور بیورو کریسی مغربی سرحد پہ چالیس سالوں سے جاری جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے پیچیدہ مسائل کونمٹانے کے بجائے بدستور انہیں ڈمپ کرنے کی پالیسی پہ عمل پیرا ہیں۔
ہمارے روزمرہ مسائل کی پیچیدگیاں بڑھنے سے گورننس کمزور اور ناقص تعامل کے اسباب دوچند ہوتے جا رہے ہیں۔ اب اگر پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں کوئی آشفتہ سر تجاوزات کو ہٹانے کی جسارت کرے تو بپھرے ہوئے لوگ مار کٹائی پہ اتر آتے ہیں۔ چند روز قبل انتظامیہ نے بھکر کی حدود میں واقع خیبرپختونخوا کے ایک محکمے کی ہزاروں ایکڑ اراضی واگزار کرانے کی کوشش کی تو مقامی با اثر افراد کی پشت پناہی کے حامل قابضین نے سرکاری عملے پہ فائرنگ کرکے آپریشن ناکام بنا دیا۔ اس معاملے کا نوٹس خود وزیراعظم کو لینا پڑا لیکن اب بھی عملاً صورتحال جُوں کی تُوں ہے۔ عمالِ حکومتی کی کم ہمتی اورگریز پائی نے سرکاری اداروں اور شہریوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ مزید کمزور کیا ہے۔ جب وسائل پہ چند طاقتور افراد کا قبضہ ہو‘ تمام تر اثر و رسوخ، عہدے اوردولت انہی میں مرتکز ہوتی جا رہی ہو توعام لوگ قومی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنے سے لاپروا ہو جاتے ہیں۔ بلاشبہ ایک مضبوط حکومت ہی ہمیں امن اور بہترین نظم و ضبط فراہم کر سکتی ہے۔
بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ ملک کے مشکل جغرافیے کے علاوہ چاروں صوبوں کی مضبوط نسلی شناخت سے جڑے ہوئے سیاسی تعصبات کے اثرات انتظامی ڈھانچے تک سرایت کر گئے ہیں جن کی تطہیر کا عمل زیادہ پیچیدہ اور دشوار ہو گا کیونکہ معاشرے کو منظم کرنے والی سیاسی پارٹیوں کی کمزوریوں نے قوم کو منقسم کرکے مملکت کیلئے ایسے چیلنجز پیداکیے جن سے نمٹنے اور قومی سلامتی کی ضمانت حاصل کرنے کیلئے ریاست کو مختلف گروہوں کو متحد کرنے والے عنصر کو فروغ دینا پڑا‘اس کے نتیجے میں مجموعی سیاسی عمل زیادہ پراگندہ ہوتا گیا۔ دور افتادہ علاقوں میں عسکریت پسندوں کے اثرات پہ قابو پانے کیلئے طاقت کے استعمال کے باعث بھی ضلعی سطح کا انتظامی ڈھانچہ بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ جنگجو گروپوں کی جارحانہ کارروائیوں کی وجہ سے بیس لاکھ کے لگ بھگ قبائلی نقل مکانی کرکے شہروں میں آ بسے جہاں پہلے سے بجلی، پانی اورمکانات کی ناکافی تعداد کے باعث کئی سماجی و نفسیاتی مسائل جنم لینے لگے‘ اس لیے معاشرے میں سکون آور ادویات کا استعمال بڑھ گیا، خودکشی اور گھریلو تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا اور مل رہا ہے۔ ان حالات میں پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے رہنماؤں کو مشترکہ قومی تعمیر پر غور کرنے کی ضرورت تھی لیکن کئی نادیدہ قوتیں ان سماجی اکائیوں کو باہم جڑنے سے روکتی رہیں۔ اگست 2001ء میں تین درجوں پہ مشتمل لوکل گورنمنٹ سسٹم کے نفاذ کا اصل مقصد ریاستی ڈھانچے کو زیادہ فعال اور انٹریکٹو بنانا تھا تاکہ سیاسی‘ مالیاتی اور انتظامی اتھارٹی کو نچلی سطح تک منتقل کرکے مقامی طور پر انتظام، سروسز اور وسائل کی ترسیل کی بہتر سہولت فراہم کرنے کے علاوہ عام لوگوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شراکت کا احساس دیا جائے؛ تاہم ناراض بیورو کریسی نے ان تجربات کی توثیق کے بجائے نوزائیدہ نظام کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر ایسا انتظامی خلا پیدا کیا جس کے نتیجے میں نئے مسائل ابھر کر سامنے آ گئے۔ سیاسی بنیادوں پراختیارات کی منتقلی، میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کا فقدان، عملے کی تعداد اور وسائل کی تقسیم جیسے تنازعات کھڑے کر دیے گئے‘ افسوس کہ کوشش بیسار کے باوجود گورنمنٹ معاشرے سے اپنے روابط کو مضبوط کرنے میں ناکام رہی؛ چنانچہ افراتفری ناگزیر عمل بن کر ہمارا تعاقب کرنے لگی جس نے سسٹم کے قلیل مدتی استحکام کے اثرات کو بھی کند بنا دیا۔ اسی سرگرانی کی بدولت گزشتہ 30 سالوں میں حکومت، معاشرے اور ٹیکنالوجی کے درمیان کوئی مفید ربط پیدا نہیں ہو سکا ‘ اس لیے مستقبل میں زیادہ پیچیدہ اور متحرک چیلنجز سامنے آنے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے جو زیادہ مربوط اور لچکدار نقطۂ نظر کے طلبگار ہوں گے۔
مستقبل کے ڈیجیٹل دور میں حکومتی نظم و نسق کی مسلسل ترقی کیلئے رجالِ کار کے گہرے انہماک اور مناسب انفراسٹرکچر کی ضرورت پڑے گی، سوال یہ ہے کہ ہمارے اربابِ بست و کشاد مستقبل میں ہمارے سماج کی فطری اساس کو برقرار رکھ پائیں گے؟ مغربی ماہرین کے مطابق جدید معاشرے کے طاقتور اوزار ایک قسم کا تکنیکی عزم پیدا کرتے ہیں جو قدرتی دنیا کی تفہیم کو مصنوعیت سے بدل دیتا ہے، جس سے انسان کی فطری آزادی خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ ان کے خیال میں سافٹ ویئر کی تکنیکی مداخلتیں مختلف معاشی اور سماجی اصولوں کے مطابق چلنے والی ٹیکنالوجی کی نئی صورتوں پراقدارکی پرانی شکلوں کا اطلاق نہیں کر سکتیں جس کے نتیجے میں ایک نئی قسم کا معاشرہ ابھر رہا ہے، جو پیداواری عمل کے بجائے ڈیجیٹل خدمات پر مبنی ہو گا اور جس کے میکنزم میں اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے کے بعد پورا سماج ایک بے شناخت ہجوم کا لبادہ اوڑھ لے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved