کیسا محسوس ہو اگر یہ پتہ چل جائے کہ عوام سڑکوں پر کھاد کے لیے ذلیل ہوتے پھرتے ہیں اور کابینہ اجلاس میں جب اس پر بات کی جائے تو متعلقہ وزیر‘ ان دو تین وزیروں کی‘ جنہوں نے نشاندہی کی‘ دھلائی کر ڈالے کہ کیا رولا ڈالا ہوا ہے کہ کھاد نہیں مل رہی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بھی اپنے اس وزیر کی باتوں سے مطمئن ہو گئے اور ان وزیروں کی نہیں سنی گئی جو یہ رولا ڈال رہے تھے کہ کسان رل گئے ہیں اور اس سال گندم کی فصل پھر کم ہو گی۔ خان صاحب نے فوراً اپنے وزیر خسرو بختیار کی بات سے قائل ہو کر کہا کہ پھر آپ پریس کانفرنس کرکے کسانوں کو سمجھائیں کہ ملک میں بہت کھاد ہے اور وہ ایسے ہی لائنیں بنا کر کھاد خریدنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ وزیر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اپنے اپنے علاقوں میں جن کے گرد کسانوں نے گھیرا ڈالا ہوا تھا کہ ہمیں کھاد نہیں مل رہی۔ پچھلے کابینہ اجلاس کی اندرونی کہانی شیئر کروں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہر حکمران کی آنکھوں پر پٹی کیوں بندھ جاتی ہے یا باندھ دی جاتی ہے۔
اجلاس میں ایک نیا راگ سننے کو ملا کہ ہر فصل بمپر ہورہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پچھلے سال بھی یہی ڈھول پیٹا گیا تھا کہ جناب گندم کی فصل بمپر ہوئی ہے‘ کاٹن بمپر ہوئی ہے‘ گنا بمپر ہوا ہے۔ بمپر بمپر کہہ کر ساتھ ہی روس سے لاکھوں ٹن گندم خریداری کے آرڈر بھی کر دیے۔ اب تک چالیس لاکھ ٹن سے زیادہ گندم ایک سال میں روسی کسانوں سے خریدی جا چکی ہے جس پر پانچ ارب ڈالرز سے زیادہ لاگت آئی ہے۔ پندرہ کروڑ ڈالرز کی چینی منگوائی جا چکی ہے۔ دو ارب ڈالر کی کاٹن منگوائی گئی۔ سوال یہ ہے اگر پچھلے سال بمپر کراپ ہوئی تھی توگندم‘ چینی اور کاٹن کیوں منگوائی گئی؟ کہا جاتا ہے کہ افغانستان کی وجہ سے۔ بھائی افغانستان کا مسئلہ تو اس سال اگست میں شروع ہوا اور اب پاکستان نے چند لاکھ ٹن گندم کا عطیہ دیا ہے۔ اس سے پہلے گندم کہاں گئی تھی کہ چالیس لاکھ ٹن منگوانا پڑی؟ مزے کی بات یہ ہے کہ اُس وقت بھی کہا گیا تھا کہ ہمارے پاس بہت گندم ہے لہٰذا باہر بھیج دو۔ یوں گندم باہر بھیج دی گئی اور گندم اور آٹے کا وہ بحران شروع ہوا کہ اب تک اربوں ڈالرز کی گندم منگوائی جا چکی ہے۔
اب بھی کابینہ کو یہی کہانی سنائی جا رہی ہے کہ کھاد کا کوئی بحران نہیں۔ ایک انتہائی قابلِ احترام افسر نے بتایا کہ انہیں خود کھاد لینے کیلئے سفارش کرانا پڑی کیونکہ گندم کی فصل بونا تھی‘ ہر ایکڑ کیلئے دو بوریاں درکار ہیں اور کابینہ میں وزیراعظم کو بتایا جارہا ہے کہ یہ شور ہمارے مخالف مچا رہے ہیں کہ کھاد کا بحران ہے۔ ایک وزیر نے تو یہاں تک کہا کہ گیارہ جنوری سے نہروں کی بھل صفائی مہم شروع ہو رہی ہے‘ نہ نہروں میں پانی ہوگا نہ کھاد کی ضرورت پڑے گی۔ جب یہ لیول ہو وزیروں کا تو آپ توقع رکھ سکتے ہیں کہ گندم کا اگلا بحران زیادہ سنگین ہوگا لیکن کابینہ اجلاس میں سب اچھا کی رپورٹ چلی گئی ہے۔ وزیرِ صنعت نے سب کے منہ یہ کہہ کر بند کرا دیئے کہ سارا قصور کسانوں کا ہے جو قطاریں بنا کر کھڑے ہیں ورنہ ملک میں بہت کھاد ہے۔
ہر کابینہ میں چند وزرا‘ خصوصاً جو شہری بابو ہوتے ہیں اور عمر بھر کوئی گائوں نہیں دیکھا ہوتا نہ کسانوں کے ساتھ زندگی گزاری ہوتی ہے‘ اپنا الگ گروپ بنا لیتے ہیں۔ وہ اپنی اچھی انگریزی سے دیسی وزیروں کو دبا لیتے ہیں۔ پرویز مشرف کی کابینہ میں بھی یہی کچھ ہوتا تھا جب دو وزیروں نے اپنے ساتھ ایک دو شہری بابو ملا کر زراعت اور کسان مخالف محاذ بنا لیا تھا۔ اُس وقت اکیلے ڈاکٹر ظفر الطاف سیکرٹری زراعت ان سے ٹکراتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کی وزارت کا وزیر بھی ان وزیروں کے ساتھ مل کر اپنے سیکرٹری کے خلاف سازشوں میں شامل ہوتا تھا اور آخرکار ڈاکٹر ظفر الطاف کو ہٹوا کر دم لیا۔ یہ وزیر کارٹل‘ مافیا اور مل مالکان کے ساتھ کھڑے ہوتے‘ کسانوں کے ساتھ نہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف ان سے بہتر نالج رکھتے تھے اور ان سے بہتر انگریزی بولتے تھے‘ لہٰذا وہ ان سے چڑ گئے اور پرویز مشرف سے کہہ کر انہیں ہٹوا دیا۔ یہی کام پیپلز پارٹی کے دور میں کچھ اور لوگوں نے کیا اور صدر زرداری کے کان بھر کر ڈاکٹر ظفر الطاف کو ہٹوا دیا کہ ہمارے کہنے پر بندے نہیں رکھتا۔
نواز شریف کی کابینہ کو ایک ہی بندہ چلاتا تھا وہ تھے اسحاق ڈار۔ نواز شریف اپنی حکومت انہیں دے کر خود ابن بطوطہ بن کر دنیا کی سیر کو نکل گئے۔ وہ چھ چھ ماہ کابینہ اجلاس میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ اب خان صاحب کی کابینہ میں تین وزیر وہی کردار ادا کررہے ہیں جو رزاق دائود‘ شوکت عزیز وغیرہ مشرف دور میں کرتے تھے۔ ان تینوں میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ تینوں بہت اچھی انگریزی بولتے ہیں‘ تینوں کی اپنی ملیں اور کاروبار ہیں۔ تینوں ایک دوسرے کو کابینہ اجلاس میں بڑی سپورٹ کرتے ہیں اور وزیر اعظم کو بڑی آسانی سے قائل کر لیتے ہیں۔ اسی حماد اظہر نے وزیراعظم کو قائل کیا ہوا ہے کہ گیس بحران میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ جب گیس چھ ڈالرز پر مل رہی تھی تو نہیں خریدی‘ اب چالیس ڈالرز پر خریدنی پڑ رہی ہے تو خیر ہے ۔ وزیراعظم بھی مطمئن ہیں۔ خسرو بختیار صاحب نے بھی وزیراعظم کو قائل کر لیا ہے کہ ملک میں کھاد کا کوئی بحران نہیں اور کسان جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے تو وزیر اعظم کو اس بات پر بھی قائل کر لیا تھا کہ ان کے بھائی کی شوگر مل کو اور ان کے ایک اور بھائی کو پچاس کروڑ روپے کا سبسڈی کے نام پر چیک پیش کرنا کتنا ضروری تھا۔ اب قومی اسمبلی میں بتایا گیا ہے کہ چار ارب روپے سبسڈی دے کر تین لاکھ ٹن شوگر باہر بھجوائی تھی اور چینی کی قیمت ایک سو روپے کراس کر گئی‘ اب کمی پوری کرنے کے لیے تیس ارب روپے کی چینی باہر سے منگوائی گئی ہے۔
وزیراعظم نے عمران خان نے اپنے قابل وزیروں سے نہیں پوچھا کہ آپ تو کہتے تھے کہ ملک میں وافر چینی ہے لہٰذا تین چار ارب روپے سبسڈی دے کر باہر بھیج دیں۔ اب ہمیں تیس ارب روپے کی چینی باہر سے کیوں منگوانا پڑ گئی ہے؟ وہی بات جو اچھی انگریزی کابینہ میں بول لے اس سے سب قائل ہوجاتے ہیں۔ پرویز مشرف کو ان کے وزیر قائل کر لیتے تھے اور اب عمران خان کو بھی کر لیتے ہیں۔ رزاق داؤد صاحب نے ہی چینی ایکسپورٹ کرائی اور تیس ارب روپے کی واپس منگوائی گئی۔ کسی نے ان سے نہیں پوچھا۔ وزیروں کا ایک گروپ کسان کی نہیں بلکہ اپنے جیسے بزنس مینوں یا اپنے بھائیوں کی ملوں کے مفادات کا خیال رکھتا ہے۔ اب انہیں وہ کسان غلط اور برے لگتے ہیں جو کھاد نہ ملنے پر احتجاج کرتے ہیں۔ متعلقہ وزیر صاحب کو اب وہ کسان جھوٹے لگتے ہیں جو انہیں ووٹ دے کر وزیر بنواتے ہیں۔ اس لیے میرے کسان بھائیو رونا دھونا بند کرو۔ وزیر صاحب نے کابینہ اجلاس میں سب او کے کی رپورٹ دے دی ہے۔ پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی بمپر کراپ کی کہانیاں خان صاحب کو سنائی جا چکی ہیں۔ یہ اسی طرح کی ہی کہانیاں ہیں جیسی دو برس پہلے گندم اور چینی ایکسپورٹ کرنے سے پہلے سنائی گئی تھیں اور اب دس ارب ڈالرز کی گندم‘ کاٹن‘ دالیں اور شوگر منگوائی گئی ہیں۔ ابھی ڈیرھ سال باقی ہے ‘ ایسے کئی لطیفے آپ کو سننے اور پڑھنے کو ملیں گے لیکن یہ اصلی لطیفے ہیں جن کی قیمت آپ لوگوں کو ڈالروں میں ادا کرنا پڑتی ہے اور جھوٹے بھی آپ ہی قرار دیے جاتے ہیں۔