تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     05-01-2022

توانائی کا شعبہ ، معاشی سکیورٹی کا ضامن

ہمارے ملک کی معیشت تقریباً قرضوں پر ہی گزارہ کر رہی ہے۔ ہماری حکومت جس طرح آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرض کے لیے بے چین ہے اس سے بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حالات اگر دگرگوں نہیں تو تسلی بخش کے قریب بھی نہیں ہیں۔ اس کے برعکس Spider-Man: Homecoming ایک ہالی ووڈ فلم ہے جس نے صرف بارہ دنوں میں ایک ارب ڈالر کمائے ہیں۔ اچھا وہ ایک ارب ڈالر جو ہمیں قرضے کی صورت میں ملیں گے ان کی ہم بحیثیت قوم جو قیمت ادا کریں گے اگر وہ ایک ارب ڈالر یا اس کے برابر کسی صورت ہوتی تو پھر بھی کوئی بات ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے‘ آج کل کے دور میں کوئی ادارہ کسی ملک کو کیوں مفت قرضہ دے گا؟
قرض لینے والے ممالک کے وہ کون سے ادارے ہیں جو قرض لینے کے بعد بدحال ہوتے ہیں؟ کیوں اور کیسے بد حال ہوتے ہیں‘ اس پر ہم کافی دفعہ بات کر چکے ہیں‘ آج ہم ملک میں توانائی کے شعبے کے بارے میں کچھ بات کریں گے لیکن کسی نہ کسی طرح سے اس کا تعلق بھی قرضوں کے ساتھ ہی ہے۔ ہمارے ملک میں توانائی کے ساتھ میرے خیال میں دو اہم ترین مسائل ہیں جن کی وجہ سے یہ شعبہ زوال پذیر ہے۔ سب سے پہلے پاور پلانٹس میں ضرورت سے زیادہ انسٹالڈ کپیسٹی‘ دوسرا ان پاور پلانٹس کو چلانے کے لیے ہم مہنگے داموں کوئلہ اور گیس درآمد کرتے ہیں جس سے گردشی قرضہ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان جیسے ایٹمی قوت سے مالا مال ملک میں گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ باعثِ تشویش تو ہے ہی‘ باعثِ شرم بھی ہے۔ اب ہم اس حالت کو کس طرح پہنچے‘ یہ ایک افسوسناک کہانی ہے۔
آج پاکستان کے پاس تقریباً 40 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کے ساتھ سرپلس بجلی ہے مگر سسٹم کی زیادہ سے زیادہ ترسیلی صلاحیت تقریباً 26 ہزار میگا واٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گرمیوں میں جب طلب عروج پر ہوتی ہے تو اس وقت بھی اوسطاً 10ہزار میگا واٹ سرپلس بجلی ہوتی ہے جبکہ سردیوں میں بجلی کی طلب میں کمی کے سبب آسانی کے ساتھ اس سرپلس کو دوگنا سمجھاجا سکتا ہے۔ تقریباً 5300 میگاواٹ کی مجموعی صلاحیت کے حامل پانچ چینی پاور پلانٹس مستقبل قریب میں بجلی فراہم کرنا شروع کر دیں گے لیکن یہ پیداواری صلاحیت چونکہ ہماری اپنی نہیں ہے اس لیے یہ اضافہ ہماری ادائیگیوں میں بھی اضافہ کرے گا۔ پیداواری صلاحیت کی ادائیگی (capacity payment) ماہانہ تقریباً 35 ارب روپے تک بڑھ چکی ہے جبکہ اکتوبر 2021 ء کے آخر تک مجموعی گردشی قرضہ 2419 ارب روپے ہو چکا تھا۔
پاکستان اس پیداواری صلاحیت کا کیا کر سکتا ہے جسے وہ استعمال کرنے سے قاصر ہے؟ کیوں نہ کم از کم 2000 میگاواٹ بجلی کی کمی کے شکار افغانستان کو اسی طرح بجلی برآمد کریں جس طرح بھارت نے نیپال‘ بھوٹان‘ بنگلہ دیش اور میانمار کو اپنے قومی گرڈ سے جوڑ کر کیا ہے؟ نہایت چالاکی سے کئے گئے اس کاروبار سے بھارت کو نہ صرف ان ممالک میں نیک نامی ملی بلکہ ایک اہم کنٹرول لیور بھی اس کے ہاتھ میں آگیا۔ افغانستان میں صرف 700 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر آبادی اب بھی بجلی سے محروم ہے۔ بجلی کے حوالے سے افغانستان تاجکستان کا لاکھوں ڈالر کا مقروض ہے۔ 2017ء میں کئے گئے ایک مطالعے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان پاکستانی بجلی کی برآمدات کے لیے ایک انتہائی منافع بخش مارکیٹ بن سکتا ہے۔
اشرف غنی کی حکومت سنٹرل ایشیا‘ ساؤتھ ایشیا (CASA-1000) پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے کافی پر امید تھی‘ جس میں 300 میگاواٹ بجلی افغانستان جبکہ باقی پاکستان کو ملنی تھی۔ پاکستان میں CASA پروجیکٹ کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کے بعد اس منصوبے کو پاکستان کے بجلی کے شعبے کو افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک کے تابع بنانے کی سازش کے طور پر دیکھا گیا۔
CASA-1300 MW (Take or pay پروجیکٹ) 1270 کلومیٹر پاور ٹرانسمیشن لائن ہے جس سے افغانستان کے راستے پاکستان کو اضافی کرغزستان اور تاجکستان پن بجلی برآمد کرنے کی توقع ہے۔ اس منصوبے پر 2015ء میں دستخط ہوئے اور نیشنل پاور ریگولیٹر (نیپرا) نے اس پروجیکٹ کے لیے 9.4 امریکی سینٹ کے ٹیرف کی منظوری دی۔ یہ ٹیرف ہوا اور شمسی منصوبوں کے موجودہ ٹیرف کے مقابلے میں 80 فیصدزیادہ اور ناقابل برداشت ہے اور جو قومی توانائی کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہائیڈرو پاور کے لیے 9.4 سینٹ فی یونٹ ٹیرف بالواسطہ طور پر چینی سرمایہ کاروں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ کوئلے سے چلنے والے چینی پاور پلانٹس کے لیے طے شدہ 8.4 سینٹ فی یونٹ کو کم کریں لیکن دوسری صورت میں بھی CASA-1000 کے لیے منظور شدہ یہ بلند ٹیرف 1200 کلومیٹر طویل خطرناک ٹرانسمیشن لائن کے ساتھ اسے مالی طور پر ناقابل برداشت اور لاجسٹک طور پر ناقابل عمل بنا دیتا ہے۔ اس منصوبے کو اگر شروع کیا جاتا ہے اور جیسا ہم نے ذکر کیا کہ اگر اس بجلی کو استعمال میں نہیں لایا جاتا تو Take or pay کے تحت اس کی لاگت کا جرمانہ 36 ارب روپے سالانہ اور اگلے 10 سال میں 360 ارب روپے ہو گا۔ یہ گردشی قرضوں میں ایک اور اضافہ ہو گا‘ لہٰذا میرے خیال میں موجودہ سیاسی غیر یقینی صورتحال اور غیر معمولی طور پر زیادہ ٹیرف کے ساتھ اس منصوبے کو پاکستان کے وسیع تر مفاد میں روک دیا جانا چاہیے۔
دوسری طرف پاکستان کو ملک میں موجود اضافی صلاحیت کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے لیے اس ضمن میں دستیاب مارکیٹوں میں افغانستان ایک ہے‘ جسے اس وقت لیکویڈٹی کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جیسا کہ ہمارے علم میں ہے کہ افغانستان اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے تو بارٹر سسٹم کے تحت پاکستان بہت سستا افغان کوئلہ خرید کر اور بدلے میں بجلی فراہم کر کے افغانستان کی مدد کر سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان اپنے پاور پلانٹس اور سیمنٹ کی صنعت کے لیے جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا سے ہر سال 16 ملین ٹن کوئلہ درآمد کرتا ہے۔ وزارت تجارت کو افغانستان کے ساتھ بارٹر تجارت کے لیے کلیئر ہونے والی اشیاکی فہرست میں کوئلہ شامل کرنا چاہیے۔ یہ ایسے وقت میں درآمدات کو بھی سہولت فراہم کر سکتا ہے جب کوئلے کی بین الاقوامی قیمتیں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ افغانستان سے کوئلے کی سستی درآمد پاکستان کے بجلی کے شعبے کے لیے بیل آؤٹ کے طور پر کام کر سکتی ہے جو گردشی قرضے (زیادہ نصب شدہ صلاحیت کی وجہ سے) سے شدید دباؤ میں ہے اور درآمدی ایندھن کے لیے قیمتی ڈالر بھی ادا کرنا پڑ رہا ہے۔کیا پاکستان کے پالیسی ساز سکیورٹی سے ہٹ کر تھوڑا معاشی سکیورٹی کے لیے اپنی ذہن سازی کرسکتے ہیں؟ اگر ہاں تو یہی وقت ہے۔
بجلی کے علاقائی ترسیلی نظام پر مشتمل پالیسی پاکستان سے مغرب کی جانب بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو (Belt and Road Initiative) کے ممکنہ پھیلاؤ کی جانب بھی پہلا ٹھوس قدم ثابت ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved