بہت سال پہلے ایک بہادر لڑکی سے ملاقات ہوئی‘ اس کا نام صائمہ عمار تھا۔ وہ دیکھ نہیں سکتی لیکن خواب پھر بھی دیکھتی تھی۔ وہ بریگیڈیئر نیاز کی بیٹی تھیں۔ بہت حسین‘ ہر وقت مسکراتی ہوئی‘ نابینا ہونے کے باوجود انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد اور ماموں نے ان کو لندن سے تعلیم دلائی؛ تاہم تعلیم مکمل ہونے کے بعد انہوں نے وطن لوٹنے کو فوقیت دی اور پاکستان میں نابینا افراد کیلئے بہت کام کیا‘ چاہے وہ آڈیو لائبریری ہو، فرسٹ انٹرنیٹ کیفے فار بلائنڈز ہو یا بریل‘ وہ سب کیلئے مشعل راہ بنیں‘ 2011ء میں ان کا انتقال ہوگیا تھا؛ تاہم ان کی جلائی ہوئی شمع سے بہت سے خصوصی افراد مستفید ہوئے۔ میں نے ایف سیون ٹو کالج سے تعلیم حاصل کی‘ وہاں پر کچھ نشستیں خصوصی افراد کیلئے مخصوص ہیں۔ وہیں پر ایک بہت پیاری طالبہ ملی جس کا نام عمارہ انور تھا‘ وہ بہت پیاری تھی‘ چہرے پر معصومیت‘ سر پر ہیئر بینڈ اور آنکھوں پر سیاہ چشمہ۔ اس کو تقاریر اور مباحثوں میں حصہ لینے کا شوق تھا‘ ہم نے اسے اپنے ساتھ اردو سوسائٹی کا حصہ بنا لیا تھا۔ ایک دفعہ ایک مقابلے میں ہم دونوں نے اپنے کالج کی نمائندگی کرنی تھی‘ وہ اپنی چھڑی غلطی سے کالج کی گاڑی میں بھول گئی۔ اب واحد راستہ یہ تھا کہ میں اس کو چلنے میں مدد دوں۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ ماشاء اللہ بہت صحت مند اور میں بہت دھان پان تھی۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی: جویریہ باجی! مجھے ڈر ہے کہ میرے بوجھ سے آپ گرجائیں گی۔ میں نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا: تم بہت شرارتی ہو۔ کہنے لگی: کچھ کھایا پیا کریں‘ جان بنائیں۔ میں نے کہا: کیا کروں‘ وزن بڑھتا ہی نہیں۔ کالج میں ڈیپارٹمنٹس اتنے دور دور ہیں کہ چل چل کر برا حال ہوجاتا ہے۔
وہ کالج‘ جس میں ہم مقابلے کیلئے گئے تھے‘ اتنا ''سپیشل پیپل فرینڈلی‘‘ نہیں تھا۔ اتنی سیڑھیاں تھیں کہ میری سانس پھول گئی۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا: باجی دیکھ لیں‘ یہ تو میری روز کی روٹین ہے۔ خیر اس کاہاتھ پکڑ کر میں نے اسے گائیڈ کیا‘ پھر اس کو سٹیج پر بٹھایا تو ہال میں موجود تمام لوگوں نے تالیاں بجا کر اسے داد دی۔ سب کو بہت خوشی ہوئی کہ ایک نابینا بچی اپنے کالج کی نمائندگی کیلئے آئی ہے۔ میں بار بار اس سے پوچھتی رہی کہ اس نے واش روم تو نہیں جانا‘ پانی تو نہیں چاہیے۔ میرے پاس اس وقت موبائل ہوتا تھا کیونکہ ہمارے کالج میں صرف سینئرز کو اس کی اجازت تھی‘ جونیئرز کو نہیں۔ میں نے اس کو کہا: کال کرلو امی ابو کو۔ وہ ہنسنے لگی: باجی کیوں پریشان ہورہی ہیں‘ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میرا یہ پہلا تجربہ تھا ایک پیاری سی خصوصی دوست کے ساتھ۔ جب مقابلہ ختم ہوا تو میں نے کہانی سنانے کے مقابلے میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور عمارہ نے تقریر کے مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد بھی ہم نے بہت سے مقابلوں میں حصہ لیا‘ ہم ساتھ سفر کرتے‘ ہنستے باتیں کرتے اور انعامات جیت کر لاتے۔ دورِ طالب علمی کے بعد جب عمارہ سے ملاقات ہوئی تو پتا چلا کہ اس نے نمل یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ہے اور وہ رشتۂ ازدواج میں بھی بندھ چکی تھی۔ اس نے کہا: جویریہ آپی! پہلے تو ہم صرف بریل اور آڈیو سے پڑھتے تھے لیکن اب سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ نے کام بہت آسان کردیا ہے۔ عمارہ بھی اس وقت خصوصی افراد کیلئے کام کررہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ خصوصی بچوں پر توجہ دیں‘ ان کو پیار دیں، وہ بھی اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں‘ ان پر عام بچوں سے زیادہ توجہ دیں‘ ان کو بھی معاشرے کا کارآمد فرد اور حصہ بنائیں۔ عمارہ اب دو بہت پیاری بیٹیوں کی ماں ہے اور اس کے شوہر اس کے بہترین معاون ہیں۔ وہ خصوصی افراد کیلئے بہت کام کررہی ہے۔
صحافتی ذمہ داریوں کے دوران میں نوجوان کھلاڑی سلیمان ارشد سے ملی۔ وہ پاکستان کے نامور اتھلیٹ ہیں۔ وہ دیکھ نہیں سکتے؛ تاہم کھیلوں میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ وہ ریس اور راک کلائمبنگ کے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں اور طلائی تمغے بھی جیت چکے ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے مینجمنٹ سائنسز میں تعلیم مکمل کی ہے۔ ان کی بینائی بچپن میں چلی گئی تھی؛ تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اس وقت وہ دو پروجیکٹس پر کام کررہے ہیں‘ ان کو کامن ویلتھ یوتھ ورکر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ اسی طرح مجھے اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی تھی جب میری اردو کی استاد نے بتایا کہ ان کی ایک ہونہار طالبہ نے بینائی نہ ہونے کے باوجود پی ایچ ڈی کی ہے۔ پاکستان میں خصوصی افراد کیلئے سہولتیں بہت کم ہیں‘ اس لیے کچھ لوگ کا یہاں تک بھی پہنچ جانا میرے لئے باعثِ حیرت ہے۔ یہ ڈگری انہوں نے بین الاقوامی یونیورسٹی سے مکمل کی۔ ان کا تحقیقی مقالہ پاکستان ٹیلی وژن کے اردو ڈراموں میں نسوانی کرداروں کا تہذیبی و سماجی مطالعہ تھا۔ اب وہ ملتان یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا کے رہائشی نواز انقلاب‘ جو نابینا ہیں‘ نے پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔ ہمیں اس طرح کے پاکستانیوں کی پذیرائی کرنا ہوگی تاکہ دیگر ایسے لوگ بھی سامنے آئیں اور ان کی ہمت بڑھے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر افراد لوگوں کی معذوری کا مذاق بناتے ہیں اور معذور افراد کے والدین کا بھی دل دکھاتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر صدمہ اور حیرت ہوتی ہے کہ لوگوں میں اللہ کاڈر ختم ہو گیا ہے۔ معذور افراد بھی اللہ کی مخلوق ہیں؛ تاہم ہمارے ہاں ہر جگہ خصوصی افراد کو دھتکارا جاتا ہے۔ پبلک مقامات‘ محکموں اور دفاتر میں ان کیلئے سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ خاص طور پر بینائی سے محروم افراد بہت دقت کا سامنا کرتے ہیں۔
4 جنوری کو دنیا بھر میں بریل کا دن منایا جاتا ہے۔ فرانس کے ''لوئی بریل‘‘ اس منفرد رسم الخط کے موجد ہیں۔ یہ ابھرا ہوا رسم الخط نابینا افراد کو کو لکھنے پڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ لوئی خود بھی نابینا تھے اسی لیے انہوں نے ایسا رسم الخط ایجاد کیا جو نابینا افراد آسانی سے سیکھ سکیں۔ اس کام میں انہیں آٹھ برس سے زائد کا عرصہ لگ گیا۔ ان کے انتقال کے بعد نابینا افراد میں یہ رسم الخط عام ہوگیا۔ فرانس نے ان کو قومی ہیرو قرار دیا؛ تاہم ان کے جیتے جی لوگوں نے ان کو کام کو مسترد کر دیا تھا۔ بریل میں حروف کو چھو کر پڑھا جاتا ہے۔ بریل کی وجہ سے خصوصی افراد کتب وغیرہ پڑھنے میں کامیاب ہوئے اور ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت نے نابینا افراد کیلئے بریل پریس بنایا ہے‘ اس پرنٹنگ پریس میں بریل کی تدریسی کتب‘ پہلی جماعت سے میٹرک تک‘ کی پرنٹنگ ہو گی۔ یقینا یہ اقدام بینائی سے محروم افراد کیلئے بہت معاون ثابت ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں۔ اسی طرح ایک جدید بریل پرنٹنگ پریس لاہور میں بھی کام کررہا ہے۔ سندھ‘ بلوچستان اور شمالی علاقوں میں بھی یہ ہونا چاہیے‘ علاوہ ازیں ایسی ایپس بھی متعارف کروائی جائیں جو نابینا افراد کو پڑھنے‘ لکھنے میں مدد دیں۔ ہمیں چاہیے کہ بریل کو عام کریں تاکہ تمام بینائی سے محروم افراد بسہولت تعلیم حاصل کرسکیں۔ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور اس کی سہولتوں پر پورا حق رکھتے ہیں۔ ہم سب کو مل کر ان کی مدد کرنا ہوگی کیونکہ یہ صرف حکومت کا فرض نہیں‘ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم خصوصی افراد کو آگے بڑھنے میں مدد دیں‘ ان سے حسن سلوک کریں اور ان کا مذاق مت بنائیں۔
میں نے یہ بات محسوس کی ہے کہ خصوصی افراد کیلئے قائم سکول اور کالج اتنے اچھے نہیں ہیں‘ ان میں سہولتوں کی شدید کمی ہے۔ ہمیں ان اداروں کو جدید طرز پر تعمیر کرنا ہوگا اور ان میں جدید لیپ ٹاپس‘ ٹیبلٹ اور انٹرنیٹ وغیرہ مہیا کرنا ہوں گے۔ اس کے ساتھ نجی سیکٹر میں قائم سکول‘ کالجز اور یونیورسٹیوں میں خصوصی افراد کے کوٹے پر عملدرآمد کروایا جائے تاکہ خصوصی افراد بھی اچھے ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں۔ ان کیلئے ہر ادارے میں نوکریوں کا کوٹہ مقرر ہوتا ہے مگر اس قانون پر کم ہی عملدرآمد ہوتا ہے‘ اس طرزِ عمل کا خاتمہ ہونا چاہیے تاکہ وہ بھی باعزت روزگار کماسکیں۔ خصوصی افراد کسی پر بوجھ نہیں ہیں نہ ہی وہ کسی بددعا یا گناہ کا نتیجہ ہیں۔ وہ اللہ کی مخلوق اور اس کی تخلیق ہیں۔ ان کا معذوری کا مذاق مت اڑائیں۔ بریل کے عالمی دن پر حکومت کو خاص طور پر اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ وہ خصوصی افراد کی بھرپور مدد کرے گی اور بریل نصاب اور کتب کو عام کرے گی۔