تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-01-2022

بے رحم ہاتھ اور اندھا احتساب

اگر اس ملک کی قسمت بدلنے کا کسی دل میں ہلکا سا بھی ارادہ ہے تو پھر اس کیلئے 'بے رحم ہاتھ سے اندھا احتساب‘ کرنا ہو گا جس کا سوائے پاکستان کی سالمیت کے‘ کسی بھی ایجنڈے سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ کام اسی کو زیبا ہے جس کی کسی سے بھی‘ سوائے پاکستان کے‘ رشتہ داری نہ ہو جسے سوائے پاکستان کے کسی سے بھی رتی بھر مفاد نہ ہو۔ایک بے رحم مگر انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق چلنے والا اور ہر حکم پر بے دریغ عمل کرنے والا ہی اس ملک کے مسائل کا واحد حل ہے‘ ورنہ اگر کسی نے ڈنگ ٹپائو پالیسی کے تحت‘ اپنے مفادات کے تحت کوئی عارضی ایکشن لیا تو اس غلطی کی تلافی مشکل ترین ہو جائے گی۔انتظامی کرسی ہو یا سماجی و معاشرتی، قلم کی کرسی ہو یا کیمرے کی‘ قسم اٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ سب جانتے ہیں کہ اس ملک کو کس نے کب اور کتنا لوٹا ہے۔
جب ہم سب جانتے ہیں کہ مجرم ہمارے سامنے ہیں تو پھر ان کی پردہ داری جرم نہیں؟ آخرت کی عدالت میں کوئی اعلیٰ عہدیدار ہو گا اور نہ کوئی حامی و ناصر‘ ہر کسی کو اپنے اعمال کا خود حساب دینا ہو گا‘ اس لیے ان لوگوں سے خوف کھانے کے بجائے اپنے رب سے خوف کھائیں۔ ان کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے والا بھی اس ملک کا مجرم گردانا جائے گا۔ ایک لمحے کو تصور کریں وہ منظر جب سر کے بالوں اور ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے خدا کے حضور پیش کیا جائے گا اور ہر انسان کے اعضا اس کے خلاف گواہی دیں گے اور پھر گنہگاروں کیلئے شدید اور ہمیشہ کیلئے نافذ رہنے والا عذاب مقدر بنا دیا جائے گا۔ وہ عذاب اس قدر شدید ہو گا کہ اس کا ہلکا سا تصور بھی انسانی جسم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک مرتبہ قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ پاکستانیوں کے 200 بلین ڈالر سے زائد پیسے سوئٹزر لینڈ کے مختلف بینکوں میں جمع ہیں‘ جس پر (موجودہ وزیراعظم) عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ یہ لوٹی ہوئی رقم واپس لائیں گے لیکن ابھی تک اس دولت تک کسی کا ہاتھ نہیں پہنچ سکا۔ اگر موجودہ حکومت کو اس کا علم نہیں تو ڈار صاحب ہی ہمت کر کے ان کے نام بتا دیں۔ سپریم کورٹ میں ایک بار ان افراد کی لسٹ پیش کی گئی تھی جنہوں نے دبئی میں اربوں ڈالر کی جائیداد اور پراپرٹی خرید رکھی ہے‘ ایف بی آر نے انہیں نوٹس بھیجنے کا اعلان کیا تھا‘ مگر اس پر بھی مزید کارروائی نہیں ہو سکی۔ اگرچہ بہت سے افراد کے پیسے نہ صرف جائز ذرائع سے حاصل کیے گئے ہوں گے بلکہ قانونی ذرائع سے باہر منتقل کیے گئے ہوں گے؛ تاہم اگر ان کا سراغ لگایا جائے اور خوب چھان بین کی جائے تو بہت سا پیسہ‘ جو ٹیکس کی مد میں بچا لیا یا چھپا لیا گیا تھا‘ ریکور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کالے دھن اور ناجائز ذرائع آمدن کا بھی علم ہو سکتا ہے۔ایک بار ایک ترقیاتی بینک کی 2005ء کی سالانہ بیلنس شیٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا جس نے ہوش اڑا کر رکھ دیے تھے۔ اس کے مطابق 31 دسمبر 2005ء تک ملک کی گیارہ مختلف کمپنیوں کے ذمہ قرضہ جات ''write off‘‘ کیے گئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں انہیں فنانشل ریلیف دیا گیا۔ یہ وہ لسٹ تھی جنہیں پانچ لاکھ یا زائد کا ''ریلیف‘‘ دیا گیا تھا۔ یہ سب نام اب بھی میرے سامنے ہیں جنہیں دیکھ کر صاف پتا لگ رہا ہے کہ اس ضمن میں بہت سی تفصیلات چھپا لی گئی ہوں گی۔
اب اسی پاکستان کا ایک رخ یہ بھی دیکھیں کہ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور دوسرے بڑے شہروں میں متوسط اور غریب والدین کے لائق اور ہونہار بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک خواب بن گیا ہے۔ اس ملک کے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہونہار طالب علم سابقہ اور موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اس وقت جو لوگ اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں‘ کیا لوگ نہیں جانتے کہ ان کی اکثریت آج سے تیس یا چالیس سال پہلے متوسط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی تھی۔ سوچیں اگر اُس وقت تعلیم آج کی طرح اتنی مہنگی ہو تی تو یہ سینئر بیوروکریٹس‘ جو اپنے دور میں ہونہار اور لائق طالب علم شمار کیے جاتے تھے‘ کیاآج ان عہدوں پر پہنچ سکتے تھے؟ تعلیم و صحت کی فیسیں مینارِ پاکستان کی بلندی تک شاید اس لیے پہنچ رہی ہیں کہ متوسط اورغریب طبقے کے بیمار اور لائق فائق طالبعلم اتنی اونچائی سے گرنے کے بعد دوبارہ اٹھ نہ سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اعلیٰ تعلیم صرف حکمرانوں‘ اشرافیہ اور ان کے علاوہ رسہ گیروں، منشیات فروشوں، قبضہ گروپوں،کمیشن مافیا اور ٹیکس چوروں کی اولادوں کیلئے مخصوص ہو چکی ہے؟ غریب مگر لائق طالب علم اس ملک کے اربابِ بست و کشاد سے سوال کرتے ہیں کہ یہ ملک کیا انہی لوگوں کیلئے بنا تھا‘ ان کا اس ملک پر کوئی حق نہیں؟ ہمارے جیسے چالیس‘ پچاس ہزار کمانے والوں کے بچے اپنے والدین کی معاشی مجبوریوں کے سبب اسی طرح گھر بیٹھے رہے تو پھر اس ملک کے غریب لوگ ایک دن پکار اٹھیں گے کہ ہما رے وسائل الگ کرو اور کمیشن خوروں، رشوت خوروں، لینڈ ما فیا اورمفاد پرستوں کو الگ کر دو‘ ہمیں وہ پاکستان دو جس میں ہمارے والدین کو دی جانے والی تنخواہوں کے مطا بق ضروریاتِ زندگی پوری ہوں اور اگر ہم میں سے کوئی تعلیم حاصل کرنے کاسوچے تو اس کیلئے فیس اتنی ہی ہوکہ جتنی وہ ادا کر سکے۔ ہمیں وہ پاکستان نہیں چاہئے جس میں حکمرانوں کے منظورِ نظر افراد کے کروڑوں روپے معاف ہو جائیں اور چند ہزار روپے قرضے کی ادائیگی نہ کرنے والے غریبوں کی زمینیں اور گھر نیلام ہوں یا جہاں بھاری فیسوں کی ادائیگی نہ ہونے سے ان کے انتہائی ذہین اور لائق بچے گھر بیٹھ جائیں اور علاج افورڈ نہ کر سکنے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور کر دیے جائیں۔
وزارتِ خزانہ میں مشیروں کی فوج ظفر موج پر سالانہ کروڑوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے لیکن دیکھا جائے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کی کا رکر دگی کیا ہے؟ اب تک کی کُل کارکردگی یہ ہے کہ گھریلو عورتیں چینی کیلئے سارا سارا دن ٹرکوں کے پیچھے بھاگتی ہیں‘ گوشت پندرہ سو روپے کلو ہو چکا ہے، غضب خدا کا! غریب کی آخری امید چنے کی دال اور عام سبزیوں کو بھی پر لگ گئے ہیں۔معمولی کپڑا بھی غریب کی پہنچ سے با ہر ہو گیا ہے۔ دودھ اور دہی ان کے لیے ایک خواب بن چکے ہیں۔ غریب تو اب ادویات کا نام ہی سن سکتا ہے کہ انہیں خریدنے کی سکت اس میں نہیں۔ ہسپتالوں میں دھکے‘ تھانوں میں گالیاں‘ کچہریوں میں لوٹ کھسوٹ‘ اسے کارکردگی کا نام تو نہیں دیا جا سکتا۔
لوگوں کے گھر دن دہاڑے لٹتے ہیں‘ بینکوں میں ڈاکے‘ دکانوں اور پٹرول پمپوں پر ڈاکے‘ بسیں روک کر‘ ناکے لگا کر مسافروں کو لوٹا جا رہا ہے‘ عورتوں کے زیورات اتارنے کیلئے ان کے کان اور بازو تک کا ٹ دیے جاتے ہیں‘ قتل یوں ہو رہے ہیں جیسے مکھیاں ما ری جا تی ہیں۔ عوام کی عزت و آبرو کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔ اشیائے ضرورت کی قلت اور قیمتیں روز بروز آسمان پر چڑھ رہی ہیں اور کہیں رکتی نظر نہیں آتیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے جو مہنگائی روکنے والے ہیں‘ وہ اُس فاقہ کشی اور زوال سے نا آشنا ہیں جس میں گر کر عوام اپنی عظمت کھو بیٹھے ہیں۔ بھوکے ننگے عوام کو تنگدستی کے رسوں سے الٹا لٹکا کر سوائے تباہی اور بربا دی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اگر مہنگائی کا یہ طوفان اسی طرح بڑھتا رہا تو ایک دن عوام کے ہاتھ نجانے کس کس کے گریبا نوں تک جا پہنچیں۔ یہ وہ وقت ہو گا جب ان کو کچھ بھی نظر نہیں آ ئے گا اور وہ ہر چیز کو تہس نہس کر دیں گے۔ یہ وارننگ حکومت کونہیں بلکہ ہر ظالم، رشوت خور، قبضہ گروپ، منی لانڈرنگ کرنے والے، انصاف کا بیوپار کرنے والے، ناجائز منافع خور، ذخیرہ اندوز، مہنگا اور ناقص مال بیچنے والے تاجر اور ان کرپٹ افراد کے لیے ہے جن کے سبب عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ رب کریم کے حضور مخلوق کی ضروریات جان بوجھ کر مہنگی اور نایاب کرنے‘ انہیں جعلی اور ملاوٹ والی اشیا سمیت کم تول کو نقصان پہنچانے جیسے اپنے ان تمام گناہوں اور کرتوتوں کی معافی مانگتے ہوئے آتش فشاں کو پھٹنے سے روک لیں‘ ورنہ اﷲ کی پکڑ سے بے رحم ہاتھ اور اندھا احتساب حرکت میں آکررہے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved