میں، میرے ماں باپ ، اولاد، مال اسباب آقائے دو جہاں محمد الرسول اللہﷺ پر لاکھوں کروڑوں بار قربان۔آپؐ کا فرمان ہے… ’’میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ۔‘‘ تو آئیے اس علم کے دروازے کے ذریعے شہرِ علم میں داخل ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ نظر ڈالتے جاتے ہیں کہ ہمیں تو آقائے دو جہاں محمد الرسول اللہﷺ کی سیرت کی صورت میں پورا شہرِ علم نصیب تھا اور اس میں داخلے کے دروازوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی مگر ہم نے کیا حاصل کیا… کیا کھویا… کیا پایا…؟؟؟ …… حضرت علیؓ فرماتے ہیں… ٭دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا انجام بخیر نہیں ہوتا… 1۔ظلم……2۔شر (کیا ہم نے‘ ہمارے حکمرانوں نے اس مملکتِ پاکستان سے ظلم ختم کر دیا ہے…؟ کیا شر، فتنہ وفساد کی جڑیں اکھاڑی جا چکی ہیں؟؟؟ اگر ایسا ہے تو شانتی ہی شانتی ہمارا اور ہماری نسلوں کا مقدر ہو گی… لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو حضرت علیؓ کے فرمان کے مطابق انجام بخیر نظر نہیں آتا… اگر شر اور ظلم کا خاتمہ نہ کیا گیا تو …!!! مگر ہمہ وقت مال اسباب اکٹھا کرنے میں مصروف رہنے والے ہمارے حکمران کیا مملکتِ پاکستان سے ظلم وشر کا خاتمہ کر پائیں گے؟) باب العلمؓ فرماتے ہیں… ٭جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے بھروسے پر مغرور ہو جاتا ہے وہ ذلت اٹھاتا ہے ( پاکستان کی معاشی پالیسیوں کو ہی دیکھ لیں جتنا بھروسہ ہم امریکہ ، ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف، چین اور برادر مسلم ممالک کی امداد پر کرتے ہیں اگر اس کے بجائے اپنے اخراجات میں کمی لا کر اپنے وسائل اور اپنے لوگوں کے زورِ بازو پر کریں تو یقینا یہ ذلت وپستی ہمارا مقدر نہ ہو کہ مانگنے والا دنیا میں ذلیل تو ہو سکتا ہے فخر سے سینہ تان کر نہیں چل سکتا۔) مختلف سیاسی پارٹیاں، ’’اہم‘‘ادارے، اداروں کے سربراہان اور لیڈران اس قول سے کچھ سیکھنا چاہیں تو حضرت علیؓ نے فرمایا …’’سب سے بُرا وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو سب سے اچھا خیال کرے…‘‘ ٭جس طرح ہمارے وطن میں سیاسی رہنما، صحافی اور اہم ادارے اکثر نان ایشوزکو ایشو بنا کر قوم کو مہینوں الجھائے رکھتے ہیں اور حالتِ نزع میں پڑی قوم کا انتہائی قیمتی وقت برباد ہوتا ہے اس پر حضرت علیؓ کے یہ اقوال یاد آتے ہیں… ٭ فضول جھگڑا دنیا اور آخرت میں سب چیزوں سے زیادہ مضر ہے……٭جھگڑا تمام برائیوں کا گھر ہے……٭بے وقوفوں سے جھگڑا نہ کر کیونکہ عقل مند کیلئے یہ سخت عیب ہے……٭جھگڑا جھگڑالو کو سر کے بل گراتا ہے… اسی طرح حسنِ اخلاق کے حوالے سے حضرت علیؓنے فرمایا… ٭بے شک لوگ سونے چاندی کی نسبت اچھے اخلاق کے زیادہ محتاج ہیں ٭لوگوں سے اس طرح پیش آئو کہ اگر مر جائو تو وہ تم پر روئیں ٭جس شخص کے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں اس کی روزی تنگ ہو جاتی ہے اور جس کے اخلاق درست ہوں گے اس کے رزق میں وسعت اور برکت پیدا ہو تی ہے (لیڈروں سے لے کر اینکروں تک صحافیوں ، قلم کاروںسے لے کر ججوں تک ہم میں سے بہت سوں کو اخلاق والے ان اقوال پر غور کرنے کی شدید ضرورت ہے) سبحان اللہ سبحان اللہ اب جو اقوال سیاست کے حوالے سے درج کرنے جا رہا ہوں اسے پڑھتے جائیے اور سر دھنتے جائیے اور حکمران پڑھیں تو شرماتے جائیں… فرمایا۔ ٭زوالِ سلطنت کی چار نشانیاں ہیں 1۔ اصول کا خیال نہ رکھنا……2۔ فروعی باتوں کے پیچھے پڑنا……3۔ کمینوں کے مراتب بڑھانا……4۔شریفوں کے مدارج گھٹانا… (پاکستان میں تقریباً ہر حکومت ہر اہم ادارے کا سربراہ انہی چار باتوں پر عمل پیرا رہتا ہے… کہیں کوئی اصول نظر نہیں ا ٓتا… فروعی باتوں میں گِٹّے گٹّے اُترے ہوئے …کمینوں کو بہترین مرتبے و اہم ذمے داریاں سونپی ہوئیں…اپنی صفوں کے شریف اور اہل لوگوں کو کھڈے لائن لگایا ہوا) ٭حکومتیں انسانوں کے لئے امتحان کا میدان ہیں ٭اپنے نفس پر حکمرانی بہترین سیاست ہے (کلائی پر کروڑوں کی گھڑیاں باندھنے والے، اربوں کی کرپشن میں ملوث پائے جانے والے ہم پہ مسلط حکمرانوں کو اپنے نفس پر کتنا قابو ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ ان کی سیاست نفس پہ حکمرانی کی نہیں نفسانی خواہشوں کی بھرمار کی، لوٹ مار کی سیاست ہے۔ ) اور آخر میں علم کے کچھ نادر موتی صرف آپ کے ہمارے لیے کہ جنہیں چُن کر ہم یقینا اپنی زندگیوں میں آسانی پیدا کر سکتے ہیں حضرت علیؓ فرماتے ہیں … ٭ بے شک قناعت میں تو نگری اور حرص ولالچ میں رنج ہے……٭ جو قناعت و صبر اختیار کرتا ہے غنی ہوتا ہے……٭ جس شخص میں عقل ہوتی ہے وہ قناعت اختیار کرتا ہے…… ٭قانع کبھی غم ناک اور دُکھی نہیں ہوتا…… ٭تھوڑے مال ودولت پر راضی رہنا بہت زیادہ مال کمانے اور فضول خرچی سے کہیں بہتر اور افضل ہے……٭قناعت ایسی تلوار ہے جو کبھی کُند نہیں ہوتی…… ٭ قناعت کرنے والا ان آفتوں سے بچا رہتا ہے جو لالچی کو پیش آتی ہیں…… ٭ قناعت ایسی دولت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی……٭ تھوڑے مال کو اچھی طرح اندازے سے خرچ کرنا، کثرت مال اور فضول خرچی سے بہتر ہے……٭ قناعت کرنے والا لوگوں میں آرام سے رہتا ہے اور حریص یا لالچی آزاد ہو کر بھی غلام بنا رہتا ہے… پھر لکھوں گا کہ یہ قناعت والے اقوال صرف ہمارے یعنی عوام الناس کے لیے ہیں کہ اس حوالے سے حکمرانوں اور اشرافیہ کے دلوں پر تو ’’مہریں‘‘ لگ چکی ہیں ۔ حضرت علیؓ نے مزید فرمایا ٭ بخل سب عیبوں کو جمع کر لیتا ہے…… ٭ غور کا نتیجہ کامیابی اور غفلت کا انجام محرومی ہے…… ٭تھوڑا سا لالچ بہت سی پرہیز گاری کو بگاڑ دیتا ہے……٭سب سے زیادہ قریب اور بھاری دشمن خود تیرا نفس ہے……٭ نفاق شرک کا بھائی اور خیانت جھوٹ کی بہن ہے……٭ کوئی قدر شناس نہ ملے تب بھی نیکی سے ہاتھ نہ روکو…… ٭جو شخص زیادہ تر بے ہودہ باتیں کرتا ہو اس کی حق بات بھی کوئی نہیں سنتا……٭ جنت کا مول دنیا سے بے رغبت ہونا ہے۔ آخر میں حضرت علیؓ کے اس آخری درج کردہ قول کے حوالے سے اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا ایک بات اور پتے کی میں بتائوں تجھ کو آخرت بنتی چلی جائے گی دنیا نہ بنا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved