تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     06-01-2022

جب امریکی صدر نے شاستری کا دورہ منسوخ کر دیا!

چند دن قبل ان سطور میں عرض کیا تھا کہ رن آف کچھ کے تنازع پر صدر ایوب خان نے صدر لنڈن جانسن کو خط لکھا تھا کہ وہ بھارت کو یاد دلائیں کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو امریکہ بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دے گا۔ جواب آں غزل کے طور پر لال بہادر شاستری نے تئیس مئی انیس سو پینسٹھ کو صدر جانسن کے نام اپنے خط میں پاکستان پر جارحیت کا الزم لگایا، اور کہا کہ وہ بھارت کے خلاف امریکی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ لال بہادر شاستری نے یہ خط اس وقت لکھا، جب شاستری کو صدر جانسن کی طرف سے ان کا دورہ امریکہ منسوخ کرنے پر سخت غصہ اور دکھ تھا۔ انہوں نے لکھا:
''سولہ اپریل انیس سو پینسٹھ کو سفیر چیسٹر باؤلز نے مجھے آپ کا پیغام پہنچایا، جس میں مجھے بتایا گیا کہ مختلف وجوہات کی بنا پر آپ کے لیے پروگرام کے مطابق دو جون کو واشنگٹن میں میرا استقبال کرنا آسان نہیں ہو گا۔ آپ کی خواہشات کے احترام میں، امریکہ کا دورہ منسوخ کرنے پر، جو جون کے اوائل میں طے تھا، مجھے فطری طور پر کچھ مایوسی ہوئی ہے۔ آپ نے مشورہ دیا ہے کہ مجھے خزاں میں امریکہ کا دورہ کرنا چاہیے؛ تاہم، میں فی الحال یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا میری پارلیمانی مصروفیات اور دیگر وعدے مجھے ایسا کرنے کی اجازت دیں گے۔
مجھے سفیر ہنری کیبوٹ لاج سے مل کر خوشی ہوئی، جنہوں نے مجھے آپ کا پندرہ اپریل کا خط بھی دیا۔ میں ان سے ویت نام کی صورت حال کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ صورت حال واقعی مایوس کن اور خطرناک ہے۔ مجھے امید ہے کہ ایسے حالات کا پیدا ہونا ممکن ہو سکتا ہے، جو بات چیت سے ویت نام کے مسئلے کے پُرامن حل کی اجازت دیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کے ذہن میں بھی یہی خیال غالب ہونا چاہیے۔ آج کے حالات میں جب چین ایک جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے، کسی بھی حد تک یقین کے ساتھ، ممکنہ طور پر واقعات کا اندازہ لگانا مشکل ہے‘ لیکن جناب صدر، مجھ پر یقین کریں، میں خلوص دل سے محسوس کرتا ہوں کہ اگر آپ کے لیے ویت نام پر ہوائی حملوں کو روکنے پر غور کرنا ممکن ہو تو زیادہ عقلی بنیادوں پر سوچنے والے عناصر ممکنہ طور پر مثبت جواب دیں گے۔ آپ کی طرف سے اس طرح کا فیصلہ عالمی امن کے فروغ اور پُرامن حل کے لیے ایک اہم کردار ادا کرے گا، اور یہ عمل ان اعلیٰ مدبرانہ روایات کے مطابق ہو گا، جن کا مظاہرہ امریکہ نے بحران کے لمحات میں کیا ہے۔
ہم خود مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ بلا شبہ آپ کو سندھ کے سرحدی علاقے رن آف کچھ میں پاکستان کی طرف سے ہم پر حالیہ حملے سے آگاہ کیا گیا ہے۔ ہم ایک پرامن قوم ہیں، جو امن اور معاشی ترقی کے حصول کے لیے جتے ہوئے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پڑوسی چین اور پاکستان ہمیں مشتعل کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ ہم بہت صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اور ہم نے وزیر اعظم ہیرالڈ ولسن کے اقدام کا مثبت جواب دیا ہے، تاکہ جنگ بندی کر کے 'سٹیٹس کو‘ کو بحال کیا جا سکے۔ پاکستان یکم جنوری انیس سو پینسٹھ سے لے کر جنگ بندی اور 'سٹیٹس کو‘ کی بحالی کے حوالے سے ہر قسم کی مشکلات کھڑی کر رہا ہے، جس کی وجہ سے کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ہمارے خلاف امریکی ہتھیار اور ساز و سامان استعمال کر رہا ہے۔ اس سے ہمارے ملک میں قدرتی طور پر بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے؛ تاہم میں جانتا ہوں کہ آپ کی حکومت پہلے ہی یہ معاملہ حکومت پاکستان کے ساتھ اٹھا چکی ہے‘‘۔
اس خط میں وزیر اعظم شاستری نے امریکہ کی طرف سے اپنا دورہ امریکہ منسوخ کرنے کا مختصر ذکر کیا، لیکن حقیقت میں جو حالات بر صغیر میں چل رہے تھے، ان کے پیش نظر یہ لال بہادر شاستری کے لیے بہت سنگین معاملہ تھا۔ رن آف کچھ کے بحران پر صدر جانسن سے خط و کتابت اور سفارتی پیغامات کے علاوہ ان کا خیال تھا کہ امریکی دورے کے دوران وہ صدر جانسن سے ذاتی طور پر مل کر امریکہ کی طرف سے پاکستان اور بھارت کو اسلحہ اور مالی مدد کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر واضح کریں گے۔ جس طریقے سے یہ دورہ منسوخ کیا گیا، وہ بھی شاستری کے لیے قطعاً قابل قبول نہیں تھا، اور اسے سفارتی حلقوں میں توہین آمیز قرار دیا گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ صدر جانسن نے وزیر اعظم شاستری کے وزیر اعظم بنتے ہی ان کو جون میں دورہ امریکہ کی دعوت دی، جو شاستری نے فی الفور قبول کر لی۔ شاستری بنیادی طور پر اکتوبر میں امریکہ کے دورے کے خواہش مند تھے، لیکن اکتوبر میں پہلے سے صدر ایوب خان کا دورہ طے تھا۔ اس منسوخی پر امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ڈین رسک نے امریکی سفیر چیسٹر بولز کو بتایا کہ صدر جانسن جنوب مشرقی ایشیا میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے صدر ایوب خان اور شاستری کا دورہ منسوخ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے خود صدر جانسن نے ایک خط بھی ارسال کیا۔ لیکن ایمبیسیڈر بولز کو اس خبر کا علم کسی خط یا سرکاری ذرائع کے بجائے ریڈیو پاکستان کے بلیٹن سے ہوا۔ اس نے فوراً وائٹ ہائوس سے اس خبر کی تصدیق چاہی۔ وائٹ ہائوس نے تصدیق کر دی کہ صدر بہت زیادہ تھکاوٹ کا شکار ہیں، ان پر بہت زیادہ دیگر اہم ذمہ داریاں ہیں، جن کی وجہ سے وہ شاستری سے ملاقات کے لیے وقت نہیں نکال سکتے۔ اس شام جب ایمبیسیڈر بولز نے شاستری سے ملاقات کی تو وہ بہت زیادہ دکھی تھے۔ بولز نے لکھا کہ اگر ان سے کہا جاتا تو وہ شاستری کو بتا سکتے تھے کہ چونکہ وہ اکتوبر میں دورہ کرنا چاہتے تھے، اس لیے وہ جون کے بجائے اکتوبر میں آئیں، مگر اس کا ان کو موقع نہ ملا، کیونکہ منسوخی کی خبر پاکستان سے آئی تھی۔ سوال یہ تھا کہ یہ خبر امریکی سفارتی حلقوں اور شاستری تک پہنچنے سے پہلے ریڈیو پاکستان تک کیسے پہنچی؟ بہرکیف شاستری کا یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا، اور وہ بطور وزیر اعظم کبھی امریکہ کا دورہ نہ کر سکے۔
حقیقت یہ تھی کہ اپنے پیشرو جے ایف کینیڈی کے بر عکس صدر لنڈن جانسن کو جنوبی ایشیا کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ مسئلہ کشمیر اور پاکستان و انڈیا کے درمیان دوسرے تنازعوں کو وقت اور وسائل کا ضیاع قرار دیتے تھے۔ جانسن کے اقتدار کے پانچ سالوں کے دوران امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئے۔ حالانکہ جانسن صدر ایوب خان کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے تھے۔ صدر جانسن نے انیس سو سڑسٹھ میں صدر آئزن ہاور کو بتایا تھا کہ وہ آج تک جن لوگوں سے ملے ہیں، ان میں ایوب خان ایک قابل ترین آدمی ہیں، اور اس آدمی میں بہت بڑی کشش ہے۔ لیکن دوسری طرف صدر جانسن اور ان کے کچھ کانگرس کے دوست ممبران کا یہ موقف تھا کہ پاک بھارت تنازع اور مسئلہ کشمیر جیسے مسائل پر باقی تمام خارجہ امور سے زیادہ امریکہ کا وقت اور وسائل ضائع ہوتے ہیں۔ مگر بد قسمتی یہ کہ دوسری طرف پاکستان اور بھارت‘ دونوں اپنے تنازعات کے حل کے لیے امریکہ کی طرف ہی دیکھتے تھے۔ جانسن کی عدم دلچسپی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین رن آف کچھ جیسے واقعات پر ثالثی نہ ہونے کی وجہ سے حالات خراب ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ جنگ کے حالات پیدا ہو گئے۔ صدر جانسن نے جنگ رکوانے کی کسی کوشش کے بجائے حیرت انگیز طور اپنے سفارتکاروں کو انتظار ''sit it out‘‘ کا حکم دیا، جس کا احوال آئندہ سطور میں پیش کیا جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved