تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     06-01-2022

اقوام متحدہ اور مسئلۂ کشمیر

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پانچ جنوری کا دن اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس روز اقوام متحدہ نے کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کی ضمانت دی تھی؛ تاہم بھارت آج تک اس مسئلے کے ممکنہ حل کی راہ میں روڑے اٹکاتا آ رہا ہے۔ بھارت سمیت دنیا بھر کو اقوام متحدہ کی اس ضمانت کے بارے میں یاد دلانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اُس وقت بھی اور آج بھی‘ انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ سے بڑا دنیا میں کوئی ادارہ موجود نہیں لہٰذا ہر سال پانچ جنوری کو پوری دنیا میں کشمیری عوام یومِ حق خود ارادیت کے طور پرمناتے ہیں اور دیگر ممالک اور عالمی تنظیموں کی طرح اقوام متحدہ کو یہ یاد دلاتے ہیں کہ اس نے 13 اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کو اپنی قراردادوں میں کشمیری عوام کو رائے شماری کا موقع فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اس پر عمل درآمد کیے بغیر مسئلہ کشمیر کا منصفانہ اور شفاف حل ممکن نہیں۔
گزشتہ روز بھی اسی عزم کی یاد تازہ کی گئی اور دنیا کو یہ بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بارہا اپنی قراردادوں میں کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کا اعادہ کیا تھا اور آج بھی کشمیر کا مستقل حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے سے ہی ممکن ہے۔ دوسری جانب بھارت جس نے مقبوضہ کشمیر میں زبردستی اپنی فوجیں داخل کر کے وہاں کے چپے چپے پر ناجائز قبضہ جما لیا تھا وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کے بجائے مسئلہ کشمیر کے حل میں ہمیشہ رکاوٹ بنا رہا۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے دھونس اور زبردستی سے کام لے کر مقبوضہ علاقے میں ریاستی دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا جو آج تک جاری ہے۔ آج بھی مقبوضہ کشمیر کی فضا میں جبر اور ظلم کی بو رچی ہے۔ آج دنیا دو ہزار بائیس میں داخل ہو چکی ہے لیکن کشمیری عوام سات عشروں سے زائد پرانے کشمیر میں زندہ ہیں۔ ان کے حالات بدلے ہیں نہ قسمت۔ اس دوران اگر کسی چیز میں اضافہ ہوا ہے تو وہ بھارت کی ریاستی فوج کی جانب سے برپا کی گئی بربریت اور درندگی ہے جن کا شکار آج مقبوضہ وادی کی مائیں‘ بہنیں نوجوان‘ بچے اور بوڑھے مسلسل بن رہے ہے۔ آج بھی مقبوضہ کشمیر کی فضا میں خوف و ہراس کا راج ہے۔ غیریقینی کی صورت حال نے وادی کو لہو لہان کر رکھا ہے لیکن بھارت اپنے مذموم ایجنڈے سے ہٹنے کو تیار نہیں۔
دوسری طرف پاکستان ہمیشہ کی طرح کشمیریوں کی اخلاقی‘ سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے جو اس کا بنیادی فرض بھی ہے۔ کشمیری عوام بھی پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں اور ہر مشکل میں ''پاکستان زندہ باد‘‘ اور ''کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ ان نعروں کی انہیں جو قیمت ادا کرنا پڑتی ہے‘ یہ وہی جانتے ہیں۔ ان نعروں کے جواب میں بھارتی فوج ان پر پل پڑتی ہے‘ ان کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں‘ بوڑھے، مرد، خواتین یا بچے‘ جو بھی ان کے ہاتھ لگتا ہے وہ انہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی‘ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس دن کی مناسبت سے دنیا کو یہی باور کرایا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعملدرآمد مسئلہ کشمیر کا واحد اور قابلِ عمل حل ہے۔ بھارت نے ماضی میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ کشمیری عوام کو ان کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا؛ تاہم وہ آہستہ آہستہ اپنے موقف سے ہٹتا چلا گیا کیونکہ یہ بات بھارت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ اگر کشمیریوں کو1947ء میں رائے شماری کا موقع دے دیا جاتا تو کشمیر پاکستان کا حصہ بن جاتا۔
اس معاملے میں اس قرارداد کا جائزہ لینا بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ بھارت نے اس سے اگر راہ فرار اختیار کی ہے تو آخر اس کی وجوہ کیا ہو سکتی ہیں۔ قرارداد میں ایسی کوئی بات نہیں کہ جس میں کسی فریق کی جانب کوئی جھکائو نظر آیا ہو۔ نہ بھارت کو اور نہ ہی کشمیر کے عوام کواس میں کوئی ناجائز چھوٹ دی گئی ہے نہ ہی کوئی زور زبردستی کا اس میں ذکر ہے؛ البتہ بھارت کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی اس لیے ہے کہ اس میں کشمیری عوام کو اپنی رائے کے آزادانہ استعمال کی آزادی فراہم کی گئی ہے جو بھارت کو کسی صورت قابل قبول نہیں۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے سوال کا فیصلہ ایک آزادانہ اور غیرجانبدارانہ ریفرنڈم کے ذریعے عمل میں لایا جائے گا اورریفرنڈم کا انعقاد اس وقت کیا جائے گا جب کمیشن کو یقین ہو جائے گا کہ جنگ بندی اور عارضی صلح کے ساتھ ساتھ ریفرنڈم کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ قرارداد میں انتہائی وضاحت اور باریک بینی کے ساتھ تمام نکات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی طے پایا کہ کمیشن کے اتفاقِ رائے کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل عالمی مقام کی حامل ایک عمومی طور پر قابلِ اعتماد شخصیت کو ریفرنڈم کا منتظم مقرر کریں گے جس کو باضابطہ طور پر ریاست جموں و کشمیر کی طرف سے اس عہدے پر تعینات کیا جائے گا۔ ریفرنڈم کے منتظم کو ریاست جموں و کشمیر کی جانب سے وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے جنہیں وہ ریفرنڈم کے انعقاد اور اس کی غیرجانبداری کو یقینی بنانے کیلئے ضروری تصور کرے گا۔ قراردار میں ریفرنڈم کے منتظمین‘ عملہ‘ معاونین اور مبصرین کی تعیناتی سے متعلق اختیارات تک واضح کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ریاست جموں و کشمیر کی تمام مقامی حکومتوں سے ریفرنڈم کے منتظم کے اشتراکِ کار کے ساتھ اس امر کو یقینی بنانے کا عہد لیا جائے گا کہ ریفرنڈم میں ووٹروں کو کسی قسم کے خطرے، جبر یا خوف، رشوت یا کسی اور قسم کے ناجائز دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اورریاست بھر میں جائز سیاسی سرگرمیوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں ہو گی۔ تمام ریاستی شہری بلا لحاظِ عقیدہ، ذات اور پارٹی‘ ریاست کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے سوال پر اپنے خیالات کے اظہار اور ووٹ کے استعمال پر آزاد ہیں اور انہیں تحفظ حاصل ہے۔ اسی طرح یہ بھی واضح کیا گیا کہ ریفرنڈم کے اختتام پر ریفرنڈم منتظم نتائج کی رپورٹ فوری طور پر کمیشن اور حکومتِ جموں و کشمیر کو دے گا۔ پھر کمیشن اس امر کی تصدیق سکیورٹی کونسل کو دے گا کہ ریفرنڈم کا انعقاد آزادانہ اور غیرجانبدارانہ ہوا ہے یا نہیں۔ اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے بھارت اور پاکستان نے 5 جنوری 1949 کو اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا۔ کمیشن ممبران میں ارجنٹائن، بلجیم، کولمبیا، چیکوسلواکیہ اور امریکہ شامل تھے۔ یوں اس قرار داد نے واضح کر دیا کہ اس میں ریاست جموں و کشمیر میں ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے کیا شرائط رکھی گئی ہیں اور ریاستی باشندوں کو کن حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام گزشتہ چوہتر سال سے جن مصائب‘ مشکلات اور اذیتوں سے گزر رہے ہیں‘ اگر اس قرارداد پر من و عن عمل کر لیا جاتا تو یہ مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے قرارداد میں کہا تھا کہ کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعے یہ موقع دیا جائے گاکہ آیا وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنا چاہیں گے۔
بھارت کے حکمران مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ تسلط کے بعد مسئلہ کشمیر خود اقوام میں لے کرگئے اور پھر خود ہی اس سے راہِ فرار اختیار کر لی اور ساتھ ہی مقبوضہ وادیٔ کشمیرکو تختہ مشق اور ظلم کے دہکتے ہوئے انگارے میں تبدیل کر دیا۔ آج اگر دنیا اس خطے میں امن برقرار دیکھنا چاہتی ہے تو اسے بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کے لیے قائل کرنا ہو گا وگرنہ اس سے پیدا ہونے والے منفی اثرات جنوبی ایشیا کے ساتھ دنیا بھر کے امن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved