حکومت کی معاشی پالیسیوں کا ایک مقصد ڈالر کی ترسیل میں اضافہ ہے۔ یہ مثبت اپروچ ہے۔ وقت گزاری کرنا اور آنے والی نسلوں کی بہتری کو مدنظر رکھ کر قوانین بنانے میں فرق ہوتا ہے۔ تقریباً 35 ارب ڈالر مارکیٹ میں جھونک کر ڈالر کو 105 روپے کی سطح پر روکے رکھنا کامیابی نہیں کہلا سکتی۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی اس اپروچ کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے میں تحریک انصاف کے ساتھ کھڑا ہوں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی معیشت کو مستحکم کرنے کے نام پر جو اقدامات کر رہی ہے‘ ان سے پیدا ہونے والی صورتحال کا احتساب کیسے ہو گا۔ تقریباً 3 ارب ڈالرز روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ذریعے سے پاکستان آ چکے ہیں۔ برآمدات کی مالیت میں 2018ء کے مقابلے میں تقریباً 8 ارب ڈالرز کا اضافہ ہو چکا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ہر ماہ 2 ارب ڈالرز سے زیادہ ترسیلاتِ زر پاکستان بھجوا رہے ہیں۔ ڈالر کے ذخائر تقریباً 25 ارب ڈالرز کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ چین اور بنگلہ دیش کے سرمایہ کار پاکستان میں ٹیکسٹائل فیکٹریاں لگا رہے ہیں جس سے ڈالرز پاکستانی معیشت میں شامل ہو رہے ہیں لیکن ان تمام اچھی خبروں کے باوجود پاکستان میں ڈالر کی قیمت کم نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے دسمبر میں مہنگائی کی شرح سوا بارہ فیصد سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ایسی صورتحال میں ڈالرز کی ترسیل کو بڑھانے کے لیے حکومتی اقدامات میں تیزی کے دعووں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ جس پودے سے پھل حاصل نہیں کیا جا سکتا‘ اسے پانی اور کھاد دینے کا کیا فائدہ؟
وزیراعظم نے گورنر سٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ کو ہدایت کی ہے کہ ملک میں ڈالرز کی پوزیشن بہتر کرنے کے لیے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے نمائندوں سے ہنگامی ملاقات کی جائے۔ ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے گورنر سٹیٹ بینک اور وزیرخزانہ سے ملاقات کی ہے اور ملک میں زرمبادلہ لانے کے لیے جو چند تجاویز دی ہیں‘ میری نظر میں وہ ملکی سے زیادہ ذاتی نوعیت کی دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرکار جس طرح بینکوں کو بیرونِ ملک سے ترسیلات زر لانے پر6 روپے فی ڈالر ریبیٹ دیتی ہے‘ اسی طرح انہیں بھی یہ سہولت دی جائے اور 100 بین الاقوامی منی ٹرانسفر کمپنیوں سے معاہدہ کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس سہولت کے بدلے وہ پاکستان میں 10 ارب ڈالرز کا زرمبادلہ لا سکتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ یہ جاننے کے لیے جب میں نے ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت ایسے اربوں ڈالرز پاکستان آ بھی رہے ہیں اور جا بھی رہے ہیں جو پاکستان کی معاشی کتابوں کا حصہ نہیں بن رہے۔ حوالہ‘ ہنڈی کا ریٹ تقریباً تین سے چار روپے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر سٹیٹ بینک ہمیں بینکوں کی طرح 6 روپے فی ڈالر ریبیٹ دیتا ہے تو ہم بہتر ریٹ آفر کر کے غیر قانونی طریقے سے پاکستان آنے والے ڈالروں کو قانونی طریقے سے لا سکتے ہیں۔ پچھلے سال ہم نے حکومت کو تقریباً ساڑھے چار ارب ڈالرز دیے تھے۔ سرکار بینکوں پر مہربان ہے جبکہ وہ پاکستان میں ڈالرز لانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہے۔ ایکسچینج کمپنیاں اس سہولت کے بدلے 10 بلین ڈالرز کا وعدہ کر رہی ہیں لیکن بینک پر اس طرح کی کوئی بندش نہیں ہے‘ ان کے لیے اہداف طے نہیں کیے گئے۔ ڈالرز کم آئیں یا زیادہ‘ انہیں 6 روپے فی ڈالر مل جائیں گے۔ ان کے مطابق روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں ڈالرز لانے کے لیے حکومت عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے اربوں روپے کے اشتہارات چلا رہی ہے لیکن اس کا تمام تر فائدہ بینک اٹھا رہے ہیں بلکہ جو سہولت سرکار نے دے رکھی ہے‘ کئی جگہوں پر اس کا ناجائز استعمال بھی ہوتا ہے۔ ان کے بقول‘ بینک بغیر ڈالرز خریدے درآمدکنندگان کو فارورڈ میں فروخت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈالر 5 روپے مہنگا ہے۔ بینکوں کو پابند کیا جانا چاہیے کہ پہلے وہ ڈالرز خریدیں پھر وہ درآمدکنندگان کو بیچیں۔ اس عمل سے ڈالر فوری طور پر 5 روپے نیچے آ جائے گا۔ پراچہ صاحب کی رائے محترم ہے لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ملک میں حوالہ ہنڈی کا کام ایکسچینج کمپنیوں کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔ 6 روپے فی ڈالر کا مطالبہ ایک طرح کی بلیک میلنگ دکھائی دیتا ہے۔ حکومت نے ایکسچینج کمپنیوں سے پندرہ دن قبل 1 روپیہ فی ڈالر کا وعدہ کیا تھا۔ ممکن ہے کہ اس میں مزید اضافہ کر دیا جائے۔ لیکن اگر ایکسچینج کمپنیاں مطلوبہ نتائج نہ دے سکیں تو جرمانے کے اصول و ضوابط بھی طے کیے جانے چاہئیں۔
اس کے علاوہ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے اربوں ڈالرز موجود ہیں جو 2013ء سے بھی پرانے ہیں لیکن پاکستانی بینک ان کے خریدار نہیں ہیں۔ ایکسچینج کمپنیاں انہیں خرید رہی ہیں اور برآمد بھی کر رہی ہیں لیکن یہ طریقہ کار اس قدر طویل ہے کہ تقریباً ایک ماہ میں مکمل ہوتا ہے۔ اس سے سرمایہ بلاک ہورہا ہے بلکہ غیر قانونی طریقے سے خریدوفروخت کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ جس طرح دیگر کرنسیوں کی برآمدات ایک ای میل کے ذریعے بہ آسانی کی جا سکتی ہیں‘ اسی طرح پرانے ڈالرز کی ایکسپورٹ بھی آسان کی جائے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ڈالرز کی ایکسپورٹ ایک حساس معاملہ ہے۔ زیادہ چیک رکھنے کا مقصد اس سہولت کے غلط استعمال کو روکنا ہے۔ بعض کمپنیاں اس سہولت کی آڑ میں نئے ڈالرز بیرونِ ملک بھجواتی رہی ہیں۔ ایکسچینج کمپنیاں کلائنٹس کی منی ٹریل حاصل نہیں کر رہیں جبکہ وہ قانونی طور پر پابند ہیں کہ پرانے یا نئے ڈالرز کی خریدوفروخت سے پہلے مکمل منی ٹریل حاصل کریں۔ اس صورت میں ٹیکس ریٹرن، ویلتھ سٹیٹمنٹ اور بینک سٹیٹمنٹ بطورِ ثبوت پیش کیے جانا ضروری ہیں۔
فوریکس ٹریڈرز نے یہ بھی مشورہ دیا کہ افغانستان برآمدات کے لیے کیش ڈالرز بینکوں میں جمع کروانے کی سہولت کو ختم کیا جائے۔ یہ ڈالر کے عدم استحکام کی بڑی وجہ ہے۔ اس کا مناسب حل یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارت ڈالرز کے بجائے پاکستانی روپوں میں کی جائے کیونکہ افغانستان میں اربوں روپوں کی پاکستانی کرنسی موجود ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر اور وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے ان تمام مطالبات پر غور کرنے اور عمل درآمد کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور اس ملاقات کو ملکی معیشت کے لیے سود مند قرار دیا جا رہا ہے۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کی تجاویز ملک کے لیے سود مند ثابت ہوتی ہیں یا نہیں‘ ان کا علم مستقبل قریب میں ہو جائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ اس سے ایکسچینج کمپنیوں کے کاروبار پھل پھول سکتے ہیں۔ پہلے ہی ان کی پانچویں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ میں یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ فوریکس ٹریڈرز کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ بینکوں کو 6 روپے فی ڈالر رعایت ختم کی جائے‘ یہ پاکستانی معیشت پر بوجھ ہے اور اب انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ ہمیں بھی یہی سہولت دی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ملکی مفاد کا خیال کہاں ہے؟ ایک پالیسی اگر بینکوں کے لیے غلط ہے تو فاریکس ٹریڈرز کے لیے بھی غلط ہے۔ ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دینے کی وجہ سے ہی مافیاز مضبوط اوراور ملک کمزور ہوتا جا رہا ہے۔دوسری طرف ان کے مطالبات مان کر دس بلین ڈالرز پاکستانی معیشت میں مزید شامل ہو جائیں‘ پرانے ڈالرز کی برآمدات میں تیزی آ جائے اور افغانستان میں ڈالروں کی سمگلنگ رک جائے تو پاکستانی معیشت پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ کیا ڈالر کی قیمت نیچے آ سکے گی؟ کیا مہنگائی میں کمی لائی جا سکے گی؟ کیا قرضوں کا بوجھ کم ہو سکے گا؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں ڈالرز آنے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے اور اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔