تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     07-01-2022

دلوں میں بسنے والے قاضی حسین احمد

مجھے یہ تو یاد نہیں کہ قاضی حسین احمدؒ سے پہلی ملاقات کتنی دہائیاں قبل ہوئی تھی مگر اتنا یاد ہے کہ میں اسی ملاقات میں قاضی صاحب کی ملائمت، مسکراہٹ، شفقت اور جلال و جمال کا گرویدہ بن چکا تھا۔ والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہریؒ سے اپنے قلبی اور جماعتی تعلقِ خاص کی بنا پر وہ ہم سب بھائیوں سے بڑی شفقت فرماتے تھے۔ قاضی صاحب کی آٹھویں برسی پر پیچھے مڑ کر دیکھا تو یاد آیا کہ ان سے میرا تعلقِ خاطر کئی دہائیوں پر پھیلا ہوا تھا۔ میرے قیامِ سعودی عرب کے دوران وہ ارضِ مقدس تشریف لاتے تو ہم بھی اُن کی مجالس میں حاضر ہوتے۔ ایک دو بار وہ طائف میں غریب خانے پر بھی تشریف لائے اور انہوں نے محفل احباب میں بڑی دل خوش کن باتیں کی تھیں۔
قاضی صاحب کلامِ اقبال کے حافظ اور اقبال کے عاشق تھے۔ وہ دورانِ گفتگو اقبال کے فارسی اور اردو کلام کا برمحل استعمال کرنے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ 2004ء میں جب میں پاکستان منتقل ہوا تو قاضی صاحب سے میرے نیازمندانہ روابط میں اضافہ ہوگیا اور مجھے اُن کی بے پایاں شفقت سے فیض یاب ہونے کے مواقع کثرت سے مہیا ہونے لگے۔ ایک معلم اور کالم نگار و تجزیہ کار کی حیثیت سے میں بصد ادب قاضی صاحب کے سیاسی موقف اور اُن کی جماعتی پالیسیوں سے گاہے بگاہے اختلاف بھی کرتا جسے وہ خندہ پیشانی سے سنتے اور دلائل کے ساتھ مجھے اور دیگر اہل محفل کو قائل کرنے کی محبت آمیز سعی فرماتے۔
اکتوبر 1987ء میں قاضی صاحب جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تو جماعت اسلامی اور بیرونِ جماعت لوگوں نے قاضی صاحب کی سیماب صفت شخصیت سے بجا طور پر بہت بڑی توقعات وابستہ کرلی تھیں جن میں سے کچھ پوری ہوئیں اور کچھ پوری نہ ہوسکیں۔ قاضی صاحب کو اللہ نے زبردست وژن و وسعت عطا کی تھی۔ وہ ایک ایسے مومن تھے جس کی ہر لحظہ نئی شان اور نئی آن تھی۔ اُن کے بحرِ بیکراں کی موجوں میں اضطراب بھی تھا اور جوش و ولولہ بھی۔ وہ جماعتی و جغرافیائی حدود اور سرحدوں سے ماورا ہوتے ہوئے خادمِ اسلام بن کر عالم اسلام کے مسائل کے بارے میں فکرمند رہتے اور اسی کشمکش میں اُن کی زندگی کی راتیں گزرتیں؛ تاہم قاضی حسین احمد کا کمال یہ تھا کہ وہ ملکی سیاست میں ہمہ وقت برسرِ پیکار رہتے۔ کبھی دھرنا، کبھی جلسہ اور کبھی ملین مارچ‘ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ جہادِ افغانستان و کشمیر کے لیے منصوبہ بندی کرتے بھی نظر آتے۔
امتِ مسلمہ کے کسی حصے پر خنجر چلتا تو قاضی حسین احمد خود تڑپتے اور مسلمان حکمرانوں اور عوام کو جگاتے تھے۔ وہ اتحادِ امت مسلمہ کے داعی تھے اور فلسطین، ایران، عراق اور بوسنیا وغیرہ کے زخموں کی چارہ گری کے لیے کوشاں رہتے۔ قاضی صاحب کے عالم اسلام کے حکمرانوں سے بھی اچھے روابط تھے اور وہ ان روابط کو عالم اسلام کے استحکام اور امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے استعمال میں لاتے تھے۔ ایک بار غالباً 2002ء کے انتخابات سے چند ماہ قبل رمضان المبارک میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے جدہ میں اُن سے بڑی گرمجوشی کے ساتھ ملاقات کی۔ قاضی حسین احمد نے ملکی اور جماعتی محاذ پر جن نئے خیالات کو عملی جامہ پہنایا اُن میں پاسبان، اسلامک فرنٹ، ملی یکجہتی کونسل اور ایم ایم اے قابل ذکر ہیں۔ ایک دینی خانوادے سے تعلق رکھنے کی بنا پر قاضی صاحب کو بخوبی اندازہ تھا کہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے دینی جماعتوں کی یک جہتی ازبسکہ ضروری ہے۔
1960ء کی دہائی میں بعض علمائے کرام نے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے تمام سابق ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔ دین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی درد رکھنے والے علمائے کرام کے لیے بعض ''دینی شخصیات‘‘ کا یہ منفی طرز عمل نہایت تکلیف دہ تھا۔ 1963ء میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اہم رکن مولانا گلزار احمد مظاہری نے‘ جو مستند عالم دین تھے، تمام مسالک کے اہل درد علمائے کرام کے ساتھ مل کر جمعیت اتحادالعلما کی بنیاد رکھی۔ اتحادالعلما کی اس وقت کے مشرقی اور مغربی پاکستان میں زبردست پذیرائی ہوئی اور چند سال میں منفی طرز عمل والے صاحبانِ علم بڑی حد تک پسپائی پر مجبور ہو گئے۔
قاضی حسین احمد منصب امارت پر فائز ہونے سے پہلے ہی اتحادالعلما کے کارِ خیر کو نئی وسعتوں اور جہتوں سے روشناس کرانے کے لیے سرگرم عمل رہے۔ 1987ء میں منصب امارت پر فائز ہونے کے بعد انہوں نے اتحادِ امت کے لیے اپنی سرگرمیوں کو تیز تر کر دیا۔ 1995ء میں ملی یکجہتی کونسل قائم ہو گئی جس میں سنی، شیعہ، اہل حدیث و دیگر تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے پُرخلوص شرکت کی۔ اتحادِ علما کی کوششوں کا نقطہ عروج 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کا قیام تھا جس کے فورم سے 2002ء کے انتخابات میں دینی جماعتوں کی مشترکہ شرکت قاضی حسین احمد کا تاریخ ساز کارنامہ تھا۔ اس انتخاب میں ایم ایم اے نے قومی اسمبلی میں 70 کے قریب سیٹیں حاصل کیں جن میں جماعت اسلامی کے حصے میں 28 سیٹیں آئیں۔ قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے حصے میں قائد حزبِ اختلاف کا منصب آیا۔ پاکستانی سیاست کی پچپن سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ جماعت اسلامی کو اتنی بڑی تعداد میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سیٹیں حاصل ہوئیں۔
جماعت اسلامی کی دیانت و امانت اور پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی بنا پر اہل پاکستان کی ایک بہت بڑی تعداد کا خیال تھا کہ اب جماعت اسلامی دعوتی ہی نہیں بلکہ انتخابی پٹڑی پر بھی چڑھ گئی ہے؛ تاہم 2008ء میں جناب قاضی حسین احمد نے متحدہ مجلس عمل سے علیحدگی اور انتخابات کا بائیکاٹ کر کے اپنے مداحوں کو حیران ہی نہیں بلکہ ششدر کر دیا کیونکہ خیال یہ کیا جا رہا تھا کہ جماعت مسلم لیگ (ن) اور دیگر ہم خیال پارٹیوں کے ساتھ مل کر 2008ء کے انتخابات میں پہلے سے کہیں بڑھ کر کامیابی حاصل کرے گی۔ اس طالب علم نے قاضی صاحب سے نیاز مندی کے باوجود روزنامہ نوائے وقت میں ''نو بائیکاٹ‘‘ کے عنوان سے دو کالم لکھے۔ قاضی صاحب نے میرے واشگاف اختلاف کو وقتی طور پر محسوس تو کیا مگر کچھ ہی مدت کے بعد اُن کے رویے میں وہی سابقہ شفقت لوٹ آئی۔ 2009ء میں جماعت اسلامی کی امارت سے مستعفی ہونے کے بعد قاضی صاحب نے ایم ایم اے کے بارے میں اپنے موقف سے رجوع کرلیا تھا مگر اس وقت کی جماعتی قیادت متحدہ مجلس عمل میں جماعت کی واپسی پر آمادہ نہ ہوئی۔
اس وقت عملی سیاست میں جماعت اسلامی کی کوئی نمایاں سرگرمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ جماعت اسلامی نے اپنے بل بوتے پر آئندہ انتخابات لڑنے کا جو موقف اختیار کیا ہے اس میں کامیابی کے بظاہر زیادہ امکانات دکھائی نہیں دے رہے؛ تاہم یہ موضوع ایک الگ کالم کا متقاضی ہے۔
ڈاکٹر محمد اقبال خلیل ڈائو میڈیکل کالج کراچی کے فارغ التحصیل اور جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے سینئر رہنما ہیں۔ قاضی صاحب کے عزیز ہیں۔ دہائیوں تک قاضی صاحب کے ساتھ بے تکلف قربت رہی۔ انہوں نے بتایا کہ قاضی صاحب اُن کے ساتھ بہت شفقت فرماتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی گواہی یہ ہے کہ قاضی صاحب جس قدر جماعتی و عوامی حلقوں میں مقبول و محبوب تھے اس سے کہیں زیادہ وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں میں بھی ہردلعزیز تھے۔ اللہ قاضی صاحب کے درجات بلند کرے۔ وہ رہتی دنیا تک پاکستان کے ہی نہیں عالم اسلام کے مسلمانوں کے دلوں میں بستے رہیں گے اور امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved