تحریر : محمد اعجاز میاں تاریخ اشاعت     07-01-2022

الیکٹرانک ووٹنگ اور ممکنہ خدشات

کوئی شک نہیں کہ ہمارا جمہوری نظام ریاست اور عوام کو اپنے حقیقی ثمرات مہیا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وہ نظام جو عوامی بالادستی‘ شفاف حکمرانی اور احتساب و جوابدہی کی بات کرتا ہے‘ ہمارے ہاں ہمیشہ جعلی وعدوں کے ذریعے عوام کو سبز باغ دکھانے‘ فسطائیت پروان چڑھانے‘ دھاندلیوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ جمانے اور ان پڑھ ہجوم کو ذاتی مقاصد میں استعمال کرنے کیلئے بروئے کار لایا گیا۔ جمہوریت کی اصل روح اقتدار کی عوام تک منتقلی ہوتی ہے‘ مگر ہمارے ہاں تو اختیار و اقتدار عام آدمی تک پہنچنے کے بجائے ہمیشہ چند خاندانوں کے حواریوں کے ہاتھوں میں تقسیم ہوا۔ اس سے الیکٹ ایبلز کے عفریت نے جنم لیا جو پورے نظام کو ہڑپ کرگیا۔ نہ ہمارے ہاں کبھی خود مختار مقامی حکومتیں قائم ہو سکیں‘ جس کی تائید ہمارے آئین کا آرٹیکل 140 کرتا ہے‘ نہ مثالی گورننس اور سروس ڈلیوری کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکا‘ نہ ہمارے عوام کو سیاسی شعور اور نمائندگی حاصل ہوسکی۔
حقیقی جمہوریت شفاف انتخابات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ آئین پاکستان کی شق 218 (3) کے مطابق یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام اختیارات کے تحت ملک میں شفاف‘ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے‘ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں آج تک وارڈ سے لے کر ایوانِ بالا کے انتخابات تک کوئی بھی معرکہ غیر متنازع نہیں رہا۔ الیکشن کمیشن چاہتے ہوئے بھی نہ سیاسی جماعتوں میں نظم و ضبط لا سکا نہ انتخابات میں پیسوں کی ریل پیل کو روک سکا اور نہ ہی انتخابی عمل میں کوئی جدت لاسکا۔ دراصل ہمارے ہاں قومی سوچ کا شدید فقدان پایا جاتا ہے اور ہمارا معاشرہ علاقائی‘ مذہبی‘ سیاسی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہے۔ یہی برادری ازم اور فرقہ واریت انتخابی شفافیت اور جدت کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں‘ جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی ایسا نظام موجود نہیں جسے استعمال کرتے ہوئے وہ روایتی انتخابی عمل کو ان رکاوٹوںسے پاک کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ چند خاندان ہم پر بار بار مسلط ہوتے رہے‘ جنہوں نے ملک کو ذاتی وراثت سمجھ کر مختلف صوبوں پر اجارہ داری قائم کی اور ہماری سیاسی تاریخ کو فقط چھانگا مانگا کی سیاست‘ انتخابات کی چوریوں اور مختلف طریقوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے تک محدود کردیا۔ دھاندلی کے اس کھیل تماشے سے چھٹکارا حاصل کرنے اور روایتی انتخابی نظام کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت الیکشن ایکٹ کی شق 103 میں ترمیم کے تحت آئندہ عام انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے کروانے کیلئے پرعزم ہے جس کی منظوری اب پارلیمنٹ بھی دے چکی ہے۔ دنیا میں الیکٹرانک ووٹنگ کا رجحان دیکھا جائے تو قریب 30 ممالک میں اس ٹیکنالوجی کا تصور موجود ہے یا رہا ہے جن میں زیادہ تر جمہوری ممالک ہی ہیں۔ چار ممالک (بھارت‘ برازیل ‘ بھوٹان اور وینزویلا) یہ مشینیں پورے ملک میں استعمال کر رہے ہیں‘ نو ممالک (امریکہ‘ کینیڈا‘ بلجیم‘ فرانس‘ میکسیکو‘ پیرو‘ ارجنٹائن‘ فلپائن اور جاپان) اپنی چند ریاستوں میں ان مشینوں کا استعمال کر رہے ہیں‘ چھ ممالک (روس‘ منگولیا‘ نیپال‘ بنگلہ دیش‘ انڈونیشیا اور ایکواڈور) ان مشینوں کو تجرباتی طور پر چلا رہے ہیں‘ تین ممالک (جرمنی‘ نیدرلینڈ اور پیراگوئے) الیکٹرانگ ووٹنگ کو مسترد کر چکے ہیں‘ جبکہ آٹھ ممالک ایسے ہیں جو الیکٹرانک ووٹنگ کے تجرباتی عمل سے گزرنے کے بعد اب اسے ترک کرنے کا سوچ رہے ہیں جن میں آسٹریلیا‘ کوسٹا ریکا شامل ہیں۔
یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ جن ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ کامیاب ہوئی‘ کیسے ہوئی؟ اور جہاں اسے مسترد کیا گیا تو اس کی وجوہات کیا تھیں؟ اس حوالے سے دو ممالک جرمنی اور بھارت کا جائزہ لیتے ہیں۔ جرمنی میں 2005ء میں الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے انتخابات پر شفافیت کے اعتراضات اٹھائے گئے جوایسے بھاری ثابت ہوئے کہ جرمن عدالت کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال غیرآئینی قرار دینا پڑا۔ وہاں الیکٹرانک ووٹنگ کو مسترد کرنے کی تین بنیادی وجوہات تھیں۔پہلی ٹیمپرنگ‘ دوسری سائبر حملوں کے ذریعے نظام کو مفلوج کرنا اور تیسرا سیاسی جماعتوں کا عدم اعتماد ہونا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تینوں خدشات پاکستان میں بھی موجود ہیں‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہمارے انتخابی کلچر میں سیاسی اور بااثر افراد کی مداخلت اتنی زیادہ ہے کہ ان کے حکم پر کوئی بھی بڑی واردات بہ آسانی ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں الیکٹرانک ووٹنگ کا جو نظام متعارف کروایا جا رہا ہے وہ ڈائریکٹ ریکارڈنگ الیکٹرانک ووٹنگ ہے جو عمل تین حصوں میں تقسیم ہے‘ پہلا حصہ ووٹر کی شناخت کا ہے‘ جس میں ووٹر اپنے انگوٹھے سے مشین کو اپنی شناخت بتائے گا‘ دوسرے حصے میں ایک کنٹرول یونٹ ووٹر کی شناخت کرے گا اور تیسرا حصہ بیلٹنگ کا ہے جس میں ووٹر امیدوار کا نام اور نشان کا بٹن دبائے گا اور ووٹ کاسٹ ہوجائے گا۔ گویا اس مکمل ٹیکنالوجی بیسڈ عمل کے کسی بھی مرحلے میں ٹیمپرنگ ممکن ہے۔ اسی طرح الیکٹرانگ ووٹنگ کا نظام مفلوج بھی بنایا جا سکتا ہے جیساکہ ماضی کے انتخابی معرکوں میں کبھی عین موقع پر آر ٹی ایس سسٹم فلاپ ہوتا رہا تو کبھی دھند کے باعث نتائج میں تاخیر کے بہانے کیے گئے۔ تیسرا خدشہ یہ ہے کہ اس اہم ترین قومی فیصلے پر ہماری جماعتیں تقسیم ہیں‘ جبکہ اس ٹیکنالوجی کو کامیاب بنانے کیلئے ہم آہنگی بے حد ضروری ہے۔ بھارت میں ای وی ایم کی کامیابی کا یہی راز ہے‘ جب وہاں عام آدمی پارٹی نے مشینوں پر اعتراضات اٹھائے تو عدالت نے الیکشن کمیشن کو تحفظات دور ہونے تک انتخابات نہ کروانے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح وہاں کے الیکشن کمیشن نے اس ٹیکنالوجی میں کمی کوتاہی کی کوئی گنجائش نہ چھوڑی حتیٰ کہ Voter Verified Paper Audit Trial کا عمل شروع کیا گیا جس سے ووٹنگ مشینوں کی شفافیت میں مزید اضافہ ہوا اور عوام کا اعتماد مضبوط ہوا۔ بھارت میں ان مشینوں کی کامیابی کے پیچھے 24 سال کی تجرباتی مشقیں چھپی ہیں جبکہ ہم ابھی تک کسی بھی الیکشن میں ان مشینوں کا تجربہ نہیں کرسکے۔ ہم الیکٹرانگ ووٹنگ ٹیکنالوجی کو صحیح معنوں میں اپنانے اور کامیاب بنانے کا عزم رکھتے ہیں تو یقیناً ہمیں جرمنی کے خدشات اور بھارت کے کامیاب اقدامات سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کا نئی انتخابی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے جو وقت کی ضرورت بھی ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے اس حوالے سے کوئی ہوم ورک کیا ہے؟ کیا کوئی ٹھوس تحقیق ہوئی کہ آیا یہ ٹیکنالوجی پاکستانی کلچر میں کامیاب ہو پائے گی‘ یا نہیں؟ خدشہ ہے کہ کہیں یہ اقدام بھی حکومت کے پچھلے اقدامات کی طرح فقط کاغذوں کی حد تک محدود نہ رہے۔ بظاہر الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے تاحال کوئی قومی اتفاق رائے نظر نہیں آرہا۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ اس قومی معاملے میں بھی وہ سولو فلائٹ سے کام چلا لے گی تو ایسا ممکن نہیں کیونکہ اس معاملے پر تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق رائے ناگزیر ہے۔ اگر ڈیڈ لاک ختم نہ ہوا اور سب بضد رہے تو یہ ایک بڑا National Chaos ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جس کڑوی حقیقت سے نظریں چرائی جا رہی ہیں وہ ہمارے سیاستدانوں کا مائنڈسیٹ ہے۔ مفاد پرستوں کو صرف اقتدار کی ہوس ہوتی ہے اور پھر چاہے انکے سامنے ڈبے رکھ دیے جائیں یا مشینیں ان کی پہلی کوشش دھاندلی ہی ہوگی۔ قومی اسمبلی کے 300 کے قریب حلقے ہیں اور ہر حلقے میں سینکڑوں کی تعداد میں پولنگ سٹیشنز ہوتے ہیں اور ہر پولنگ سٹیشن میں چار مشینیں ہوں گی‘ گویا کسی ایک مشین میں بھی خرابی پیدا کر دی گئی تو نتائج بدلے جا سکتے ہیں؛ چنانچہ سب سے پہلی ضرورت سیاستدانوں کے مائنڈ سیٹ کو بدلنے کی ہے‘ جب تک سیاستدان اقتدار اور سیاست کو ذاتی میراث سمجھنا نہیں چھوڑیں گے‘ ان کی سوچ جمہوری نہیں ہوگی‘ تب تک نہ کوئی ادارہ اور نہ کوئی ٹیکنالوجی دھاندلی پر قابو پا سکے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved