تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     07-01-2022

ّؐکامیابی کے کڑے امتحانات

انسانی زندگی کا ارتقا مختلف مراحل سے عبارت ہے۔ بہت سی ضروریاتِ زندگی اور اصولوں سے نا واقف بنی نوع انسان نے خود کو بھوک، موسموں کی شدت اور جنگلی جانوروں سے محفوظ رکھنے کیلئے گھر، خوراک اور کچھ بنیادی نوعیت کے ہتھیار‘ ذاتی حفاظت اورشکارکے شوق میںبنائے، اسی طرح اس نے کچھ سادہ نوعیت کی معاشرتی اقدار متعارف کرائیں۔ انہی کے نتیجے میں لباس، زبان، رسم ورواج اور تمدن نے جنم لیا۔ اپنے خوف، وحشت اور دیگر نفسیاتی رویوں کے زیرِ اثراس نے کبھی سورج، کبھی آگ اور کبھی شجر وحجر کو معبود بنایا مگر انسان کی سرشت میں جستجو اورجاننے کی صلاحیت ازل سے ودیعت کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا۔ سیکھنے سیکھانے، علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے اور کائنات کی وسعتوں کو چیر کر ستاروں پر کمند ڈالنے کا شوق ہر انسان کی فطرت میں شامل کیاگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم بنی نوع انسان کے ماتھے کا جھومراور راستوں کی قندیل بنا؛ یعنی انسان کی تعمیر وترقی، بڑھوتری اور کامیابی کا زینہ تعلیم و تربیت کی شعوری کوشش اور جہدِ مسلسل سے جڑا ہے۔ اسی تناظر میںاگرہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں تو ہر بچہ ماں کی گود سے غیر محسوس طریقے سے سیکھنے سکھانے کا عمل شروع کردیتا ہے۔ عموی طور پر پانچ سال کی عمر میں بچہ کچھ ہوش سنبھالتا ہے۔ وہ زندگی کے بارے میں جاننے اور سمجھنے کے جن مراحل سے گزرتا ہے ان کو ہم پانچ ادوار میں منقسم کرتے ہیں۔ بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑ عمری اور پھر بڑھاپا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطری طور پر بے حد صلاحیتوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا اور ہر فرد کو انواع واقسام کے اوصاف عطا کیے۔ سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ سونے کی طشتری میں سجا کر کچھ نہیں پیش کیا جاتا۔ محنت، مسلسل کاوش اور جدوجہد کے ساتھ کامیابی کو مشروط کر دیا گیا ہے۔ یہاں شعور، آگاہی اور سمت کا تعین کر نالازم ہوتا ہے اور منزل کی طرف سفر کے آغاز سے پہلے مقاصد اور اہداف چنے اور منتخب کیے جاتے ہیں۔ کچھ حد تک ابتدائی سطح پرانسانوں کی درجہ بندی بھی ہوجاتی ہے جو اپنی جبلتوںکے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں کا ادراک کر لیتے ہیں۔ وہ جسمانی ضروریات، خواہشات اور ترجیحات کے ساتھ روحانی اور ذہنی ضروریات اور تقاضے پورے کر نے کے بھی اہداف مقرر کرتے ہیں۔ وہ اعلیٰ انسانی اور اخلاقی قدروں سے روشناس ہو کر فکر وعمل کی شاہراہ کے مسافر بنتے ہیں۔ یہی وہ خوش نصیب ہیں جو دنیا میں کامیاب و کامران اور سرخرو قرار پاتے ہیں۔ یہاں سمجھنے کا باریک نکتہ یہ ہے کہ عقل کسی کی میراث نہیں اور آگاہی کس کے گھر کی خادمہ نہیں۔ اگر کو ئی شخص تن آسانی اور بنیادی جبلتوں پر ہی اکتفا کر لے اور محض خواہشات کا تابع غلام بن کر ان کو کل جہاں سمجھ بیٹھے تو وہ شاید زندگی میں کوئی نمایاں حیثیت حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔
کامیابی کیا ہے‘ اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں‘ اس کا کوئی شارٹ کٹ ہے یا یہ کامیابی کے زینے پر درجہ بدرجہ منزل کی جانب بتدریج سفر ہے‘ راستے میںکتنے پڑائو آتے ہیں‘ کتنے ہمسفر بچھڑتے اور کتنے راہی ادھورے خواب لے کر پیچھے رہ جاتے ہیں اور منزل تک رسائی کے راستے میں کتنی صعوبیتں برداشت کر نا پڑتی ہیں، کتنی بار ٹوٹنااور خود کو سمجھانا اور حوصلہ دے کر ہر روز نئے عزم، جوش اور تازہ ولولے کے ساتھ آگے بڑھنا پڑتا ہے تب جا کر خوابوں کی تعبیر پانے کا پرُلطف لمحہ نصیب ہوتاہے۔ اپنی امنگوں، خواہشات اور آرزوؤںکے نخلستان میں پھول کھلتے دیکھنا ہر شخص کو کہاں نصیب ہوتاہے اور اپنے خوابوں کے جہاں میں زندگی گزارنا اور کارزارِحیات سے عزت وآبرو سے گزرجانا کیا ہر شخص کیلئے آسان عمل ہے؟ہرگزنہیں!محض خوش بخت انسان ہی مقدر کے سکندر بنتے ہیں۔
ہمارے جیسے پسماندہ معاشرے میں محض چند خوش نصیب ایسے ہوں گے جنہیں اپنی محنت اور صلاحیت کی بنیاد پر حاصل ہونے والی کامیابی اور اس کے ثمرات سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہو۔ ورنہ اکثر کو تو ان کے اپنے ہی نئے امتحان اور کڑی آزمائشوں میں الجھا دیتے ہیں۔ یہ بات قابلِ افسوس اور عجیب ہے کہ ہمارے معاشرے میں منفی رویے اور رجحانات اس طرح رواج پا گئے ہیںکہ اقدار تبدیل ہوگئی ہیں۔ عزت، محبت اور دعائوں کی جگہ بغض، کینہ، حسد اور نفرت کے جذبات نے لے لی ہے۔ منافرت اور جھوٹی شان و شوکت اور بات بات پر الجھنے اور غصے سے عام سی بات پر ردِعمل ان کی ذاتی رقابت اور حاسدانہ چالوں کو بے نقاب کرتا نظر آتا ہے۔ ظلم تو یہ ہوا کہ گھروں سے لے کر کالج‘ یونیورسٹی تک اور اعلیٰ تربیتی ادارے بھی ان منفی رجحانات کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ نمبروں کی دوڑ میں دوسروں کو پیچھے چھوڑنے کی دھن نے نوجوانوں کو خود غرض اور پست سوچ کے تابع کر دیا ہے۔ اسی طرح رقابت کی آگ نے رشتوں کو نگل لیا ہے۔ خون کے رشتے حسدو رقابت میں حدود کو پامال کرتے نظر آتے ہیں۔ کاروبارِ حیات میں کامیاب لوگوں کے بے شمار حاسدین بنا کسی وجہ کے مخالفت میں الجھے مجرمانہ سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ایسے میں منفی رجحان نے پورے ماحول کو زہر آلودہ کر دیا ہے۔ ہم سب اندر سے اکیلے ہو کر کھوکھلے اور مطلب پرست رشتوں کا بھر م رکھتے رکھتے ہلکان ہو چکے ہیں۔ ایسے میں نفسیاتی طور پر ہم سب دبائو میں ہیں۔ یقینا بدنصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ کی تقسیم سے لڑ رہے ہیں، جوان کے پاس ہے اس پر اکتفا کرنے کے بجائے کا میاب لوگوں سے رقابت کا رو گ پال لیتے ہیں۔ وہ اپنی صلاحتوں اور توانائیوں کو اپنی ترقی اور خوشحالی کیلئے خرچ کرنے کے بجائے کامیاب لوگوں کے ساتھ مخاصمت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
اس کے برعکس مہذب دنیا نے اپنی اخلاقیات‘ روایات اور انسانی رویوں پر بہت کام کیا ہے۔ وہ انسانی کردار، انفرادی صلاحیت اور شخصی احترام کو مانتے ہیں۔ وہ خاندان، حسب نسب، برادری، ذات پات اور معاشی حیثیت کے تعصب سے بالاتر ہو کر سوچتے ہیں اور ہر شخص کی عزت وتوقیر کو مقدم سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں محنت، لگن، ذاتی کوشش اور صلاحیت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے والوں کے راستے میں کانٹے نہیں بچھائے جاتے اور نہ ہی انہیں حسد، بغض، کینہ اور عداوت کا شکار بنایا جاتا ہے بلکہ صرف میرٹ اور پرفارمنس کو اولین حیثیت دی جاتی ہے جس کے سبب آج وہاں نوجوان کم عمری کے باوجود بڑی بڑی کمپنیوں کے سربراہان کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ انسانی قابلیت اور کردار ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہموار کرتے ہیں اور آگے بڑھنے والوں کو کامیابی وکامرانی کی مسندِتوقیر عطا کی جاتی ہے۔ یہی تہذیب یافتہ معاشروں کی کامیابی کا راز ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی سماجی رویے اور انسانی قدریں اپنی ارتقائی منازل طے کررہی ہیں۔ پسندناپسند، برادری، حسداورذاتی بغض وکینہ ہمارے معاشرتی بگاڑمیںمرکزی کردار ادا کررہے ہیں، قابل اور باصلاحیت لوگوں کو کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی نت نئے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کے راستے میں ہر روز نئی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، کانٹے بچھائے جاتے ہیں، الزامات لگائے جاتے ہیں اور اُن کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اونچی اڑان والے عقابوں کو کرگس کے جہاں میں دھکیلا جاتا ہے اور ہماری اجتماعی ناکامیوں اور پسماندگیوں میں اس پست سوچ اور تعصبانہ طرزِفکر کا بہت بڑا کردار ہے۔ عملی زندگی کے کڑے امتحانوں سے گزر کر کامیاب ہونے والوں کو کامیابی کے بعد بھی کئی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے مگر محنت سے کامرانی کا تاج اپنے سر پر سجانے والے یہ سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں اور کامیابی کی شاہراہ پر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کا ادراک کر لیتے ہیں کہ کامیابی کی قیمت چکانا پڑتی ہے، حاسدین اور کم ظرف لوگوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے اپنے اہداف کا تعاقب کرنا اور اپنے خوابوں کی تعبیریں تلاش کرنا زیادہ مقدم ہے۔ یہی بنیادی فرق انہیں دوسروں سے ممتاز بنا دیتا ہے۔ بقولِ شاعر:
حریف کوئی نہیں دوسرا بڑا میرا
سدا مجھی سے رہا ہے مقابلہ میرا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved