اگر نواز حکومت کے دو ماہ کی کارکردگی رپورٹ کی امتحانی مارکنگ کی جائے تو منفی سی گریڈ دیا جائے گا۔ اہلیت اور شفافیت کو ترجیح دینے کے وعدے پر قوم نے ا ن کو ایک مرتبہ پھر موقع دے دیا کہ وہ آئیں اور اسے نااہلی اور بدعنوانی کے گرداب سے نکالیں۔ اس سے پہلے قوم بڑی لاچاری سے زرداری اور ان کی ٹیم کو بدعنوانی کے خاتمے کے لیے بے مقصد اجلاس، جس میں صرف عورتوں کی طرح گپ شپ کی جاتی ہے، بلاتے دیکھتی رہی تھی۔ امید کی جاتی ہے کہ نواز شریف ایوان ِ صدر کو ایسے معاملات میں ملوث نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے بجائے وہ باصلاحیت افراد کو جگہ دیں گے۔ حالات یہ ہیں کہ ریاستی ادارے تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں جبکہ ان کے چیف بڑی مشکل سے ، جوں توں کرکے انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ موت کی طرف گامزن سینکڑوں ایسے ادارے ہیں جن پر ٹیکس دہندگان کی رقم پانی کی طرح اُڑائی جارہی ہے تاکہ اُنہیں زندہ رکھا جاسکے۔ ان کے لیے باصلاحیت سی ای اوز کی ضرورت ہے ، ایسے افراد جو سیاسی اثر سے آزاد ہوں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی نواز شریف ان آسامیوں پر اپنی مرضی کے آدمیوں کا چنائو کرتے ہیں تو سپریم کورٹ آڑے آجاتی ہے۔ گزشتہ ہفتہ حکومت کے لیے ایک طرح کا مہربان وقت تھا۔ ہمارے فاضل جج حضرات نے ظفر الحق کی درخواست منظور کرتے ہوئے صدارتی انتخابات ایک ہفتہ پہلے کرانے کا حکم دیا۔ اس پر پی پی پی چراغ پا ہو گئی۔ تاہم کسی کو کیا لگے؟ جب عدالت کا حکم آ گیا تو کس کی ہمت ہے کہ اعتراض کرے؟ اس دوران، جب کہ کہا جارہا ہے کہ عدالت حکومت کی طرف جھکائو رکھتی ہے، عدالت اس بات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے کہ حکومت اُن اداروں، جن کا کوئی سربراہ نہیںہے، کے سی ای اوز کی تقرری کیسے کرتی ہے؟ ابھی تو نواز شریف کے تین رکنی کمیشن‘ جن کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ باصلاحیت ، ایماندار اور غیر جانبدار افراد ہیں اور اُنھوںنے حکومتی اداروں کے سربراہان کی تقرری کرنی تھی، پر بھی عدالتی فیصلہ آ سکتا ہے‘ اگر جج حضرات کو ان کی تقرری میں کوئی بے ضابطگی نظر آئی۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس وقت حکومتی اداروں، جن میں ایک درجن سے زائد مالی ادارے اور 126 کے قریب دوسرے شعبہ جات ہیں، میں آسامیوں پر تقرریاں کی جانی ہیں اور ان کی تقرری کے لیے عدالت کی طرف سے وضع کردہ خطوط کی پیروی ہونی چاہیے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ کمیشن راتوں رات وجود میں آگیا اور اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ کہ میڈیا کو اس کی خبر مل گئی۔ ایک مختصر خبر سننے کو ملی کہ ’’وزیر ِ اعظم صاحب نے بڑی خوشی سے بہترین افراد پر مشتمل ایک کمیشن قائم کر دیا ہے جو اعلیٰ ملازمتوںکے لیے بہترین افراد کا انتخاب کرے گا‘‘۔ اس سہ رکنی کمیشن کی سربراہی سابق ٹیکس محتسب عبدالر ئوف چوہدری کررہے ہیں جبکہ باقی دو ارکان شمس قاسم لکھا اور ڈاکٹر اعجاز نبی ہیں۔ اس پہلے اعلان کے بعد وزیر ِ اعظم کے سیکرٹریٹ میں مکمل خاموشی چھاگئی۔ میڈیا نے بھی اس خبر کا کوئی پیچھا نہ کیا ، حالانکہ اس خبر کا ایک پس ِ منظر تھا اور اُس کو اجاگر کیے بغیر یہ کہانی ادھوری تھی۔ اس وقت تک کوئی بھی ان تین افراد کے انتخابی عمل کے بارے میں نہیں جانتا کہ کس طرح انھوںنے محکموں کے سی ای اوز کے درست انتخاب کو یقینی بنانا تھا۔ اکسٹھ سالہ عبدالرئوف چوہدری پرانے دنوں میں بھی نواز شریف حکومت کے حامی سرکاری افسر تھے اور ان کو وزیر ِ اعظم سیکرٹریٹ میں ایڈیشنل سیکرٹری لگایا گیا تھا۔ وہ سی ڈی اے کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ کچھ غیر ملکی ڈپلومے اور کورس ان کے کریڈٹ پر ہیں ۔۔۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ دوسرے صاحب، شمس لکھاآغا خان یونیورسٹی کے بانی صدر ہیں۔ نگران وزیر ِ اعظم کے منصب کے لیے صدر زرداری کی نظر اُن پر بھی تھی۔ تیسرے صاحب، ڈاکٹر اعجاز نبی، نے عالمی بنک میں کام کیا ہے اور اُن کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری مدت کی حکومت کے دوران سلمان فاروقی نے بطور مشیر کام کرنے کی دعوت بھی دی تھی۔ ڈاکٹر نبی آج کل لمز (لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز) کی ٹیم میں شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان تینوں افرا د کی کس نے سفارش کی؟ ان کی کیا خاص صلاحیتیں ہیں جو ان کو اس کام کے لیے چنا گیا ہے؟ان کی ’’ٹی او آر‘‘ (ٹرمز آف ریفرنس) کیا ہیں؟یہ ٹی او آر کس نے تیار کی ہیں اور جن ملازمتوں کا اشتہار دیا جائے گا اور امیدوار باقاعدہ امتحان دے کر کامیاب ہو کر آئیںگے، ان کی یہ افراد جانچ پڑتال کیا کریں گے اور کیسے کریںگے؟ا گرہم شفافیت کے دعویدار ہیں توا ن سوالات کا جواب کوئی راز نہیںہونا چاہیے لیکن اسے راز میں رکھا جائے گا۔ ایک اور ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ کیایہ لوگ رضاکارانہ طور پر کام کریںگے یا ان کو تنخواہ بھی دی جائے گی؟اگر انہیں ان کی محنت کا معاوضہ دیا جانا ہے تو پھر یہ سوال پیداہوتا ہے کہ ان کی ملازمت کی شرائط کیا ہیں؟عوام کو یقین دلایا گیا ہے کہ ’’بین الاقوامی شہر ت کی حامل ایک فرم ہیومن رسورسز کے چنائو میںاس کمیشن کی معاونت کرے گی اور اس معاملے میں شفافیت کا خاص خیال رکھا جائے گا؟‘‘ایسے بیانات لا حاصل ہوتے ہیں۔ ابھی تو یہ پتہ چلایا جانا باقی ہے کہ کون سی ’’انٹر نیشنل فرم‘‘ کی خدمات حاصل کی جائیںگی، اس کے لیے معاوضہ کتنا ہوگا اور یہ خدمات کون حاصل کرے گا؟ اگر فاضل عدالت سی ای اوز کی تقرری میں شفافیت، میرٹ اور استحقاق کو یقینی بنانا چاہتی ہے تو جج صاحبان کو ان سوالات پر غور کرنا چاہیے۔ ناظم حاجی، جو کراچی کے سوشل ورکر اور شہری پولیس کے بانیوںمیںسے ایک ہیں، نے مجھے ای میل میں کہا ہے کہ ایک سہ رکنی کمیشن کی طر ف سے سی ای اوز کا چنائو مروجہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ مسٹر حاجی کا کہنا ہے ۔۔۔’’شمس لکھا اور ان کے ساتھی اچھی طرح جانتے ہیںکہ کارپوریٹ بورڈ چیف ایگزیکٹو کا انتخاب کرتاہے اور ایسا کرتے ہوئے بورڈ اس بات کی ذمہ داری لیتا ہے۔‘‘تاہم کمیشن کے نئے قوانین ابھی غیر واضح ہیں کیونکہ ۔۔۔’ اس ضمن میں آخری چنائو کی منظوری وزیراعظم نے دینی ہے۔ اس سے پہلے ہیومین رسورسز والے کچھ امیدواران کو منتخب کریںگے۔ اس کے بعد سہ رکنی کمیشن ان کا جائزہ لے گا اور پھر وزیر ِ اعظم ان ناموں کی منظوری دے دیںگے۔ اس طرح کارپوریٹ بورڈ کے ڈائریکٹرز اس عمل سے باہر ہوجائیںگے۔ہونا یہ چاہیے کہ پہلے سہ رکنی کمیشن ادارے کے ڈائریکٹرز کی تعیناتی کرے اور پھر وہ ڈائریکٹرز سی ای او کے چنائو کی ذمہ داری اٹھائیں‘‘ حاجی ناظم کی رائے وزن رکھتی ہے لیکن یہاںاسے سنے گا کون؟سپریم کورٹ کی اس سارے عمل پر نظر ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ بات جج ٓصاحبان میںسے کسی کی نظر سے گزرے کہ سی ای او کی طرح ڈائریکٹرز کا انتخاب بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت پی آئی اے، سول ایوی ایشن، کراچی پورٹ، نیشنل ہائی وے، این ایل سی، نیشنل شپنگ ، پاکستان پوسٹ آفس، ریلوے، سٹیٹ آئل، پی ٹی وی، نیشنل بنک آف پاکستان، ایچ بی ایف وغیرہ کے سی ای اوز کی تعینانی کی جانی ہے۔ ان افسران کا چنائو دراصل پاکستان کی شہ رگ ہے۔ نواز حکومت کا اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved