تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     08-01-2022

بارے گھوڑوں کا کچھ بیاں ہو جائے

''دادا جان! شہر میں بہت اچھی سرکس آئی ہوئی ہے، ہمیں دکھا لائیے نا‘‘ بچوں نے کہا۔
بیٹا! تم ہی بتاؤ‘ میری عمر کوئی سرکس دیکھنے دکھانے کی ہے؟ کسی اور کو ساتھ لے جاؤ، اور اب ان سرکسوں میں آج کل رہ بھی کیا گیا ہے‘‘ دادا جان بولے۔ '
'نہیں‘ دادا جان! اس میں سنہری بالوں والی ایک حسینہ سفید گھوڑے پر کھڑے ہو کررقص کرتی ہے‘‘ ایک بچہ بولا۔
''اچھا، تم کہتے ہو تو چلا چلتا ہوں‘ مجھے بھی سفید گھوڑا دیکھے ایک زمانہ ہو گیا ہے‘‘ دادا جان بولے۔
٭......٭......٭
ایک قبائلی شادی کے بعد اپنی دلہن کو لے کر گھوڑی پر سوار گھر جا رہا تھا، راستہ پتھریلا تھا، گھوڑی نے ایک جگہ ٹھوکر کھائی تو قبائلی بولا: پہلی غلطی۔
تھوڑی دُور جا کر گھوڑی نے پھر ٹھوکر کھائی تو وہ بولا: دوسری غلطی۔ کچھ آگے جا کر گھوڑی نے پھر ٹھوکر کھائی تو قبائلی نے کہا: تیسری غلطی۔
پھر اس نے نیچے اُتر کر پستول نکالا اور گھوڑی کی کنپٹی پر رکھ کر گولی مار دی۔
یہ دیکھ کر دلہن بولی ''کس قدر ظالم ہو تم‘‘،
اس پر قبائلی بولا: پہلی غلطی!۔
٭......٭......٭
ایک صاحب اپنی گاڑی پر کسی دوسرے شہر جا رہے تھے، ابھی شہر سے کچھ دُور ہی تھے کہ ان کی گاڑی بند ہو گئی۔ وہ نیچے اُترے، بونٹ کھولا اور انجن کو اِدھر اُدھر سے دیکھنے لگے کہ آواز آئی: اس کا کاربوریٹر خراب ہے۔ انہوں نے جدھر سے آواز آئی تھی‘ اُدھردیکھا تو کوئی نہیں تھا، صرف ایک گھوڑا سڑک کے کنارے گھاس چر رہا تھا۔ وہ پھر انجن پر جھک گئے تو دوبارہ آواز آئی: میں نے کہا کہ اس کا کاربوریٹر خراب ہے،
انہوں نے جلدی سے اس طرف دیکھا تو انہیں نظر آیا کہ گھوڑے کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ وہ اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ گاڑی کو وہیں چھوڑا اور شہر کی طرف بھاگے۔ کچھ آگے ایک کولڈ کارنر تھا، انہوں نے اندر جا کر کچھ پینے کا آرڈر دیا تو دیکھا کہ سامنے والی میز پر دو آدمی بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
انہوں نے ان صاحب کو پریشان دیکھ کر اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولے: کوئی ایسی بات نہیں، لیکن جب انہوں نے اصرار کیا تو انہوں نے ساری کہانی بیان کرنا شروع کی۔ وہ سنتے جاتے اور مسکراتے جاتے اور آخری جملے پر کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
پھر ان میں سے ایک بولا: ''ہم اُس گھوڑے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں، وہ بکواس کرتا ہے‘ اسے گاڑی کے پرزوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں!‘‘۔
٭......٭......٭
ایک صاحب کا گھوڑا بیمار پڑ گیا تو وہ اُسے ویٹرنری ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا اور اُنہیں کچھ سفوف دیا۔ پوچھنے پر کہ اسے استعمال کس طرح کرنا ہے‘ ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک نال میں یہ سفوف بھر گھوڑے کے منہ میں رکھیں اور زور سے پھونک مار دیں، ساری دوا گھوڑے کے اندر چلی جائے گی۔
کوئی نصف گھنٹے بعد وہ صاحب پھرآ گئے اُن کی آنکھیں سُرخ اور چہرے کی بھی بری حالت تھی ڈاکٹر نے وجہ پوچھی تو وہ بولے:
''گھوڑے نے پہلے پھونک مار دی!‘‘۔
٭......٭......٭
ایک بدو گھوڑے پر سوار ایک صحرا میں سے گزر رہا تھا۔ ساتھ اس کا کتا بھی تھا، گرمی کا موسم تھا اور تیز دھوپ پڑ رہی تھی کہ اس کا کتا بولا: ''ریت کس قدر گرم ہے، میرے تو پاؤں جل رہے ہیں‘‘۔
اس پر بدو نے کہا:میں تو سمجھا تھا کہ کتے باتیں نہیں کر سکتے۔ جس پر گھوڑا بولا:
''میں بھی یہی سمجھتا تھا !‘‘۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
کوئی اصلی کے مانند جعلی محبت جو تھی
ہم نے کی ہے محبت سے خالی محبت جو تھی
نہ کی ہو گی اب تک کسی نے بھی ایسی کہیں
رائگاں سی ہماری مثالی محبت جو تھی
خیالات پر ابر کی طرح چھائی رہی رات دن
بے نشاں کوئی اپنی خیالی محبت جو تھی
رنگ اپنے جماتی رہی جا بجا، سُو بہ سُو
کوئی اُس کے تغافل کی پالی محبت جو تھی
چھاؤں دیتی رہی دھوپ میں بھی‘ کسی شوخ نے
کاٹ ڈالی تھی جب ڈالی ڈالی محبت جو تھی
اندر اندر ہمارا بھی رکھتی رہی تھی خیال
دیکھنے میں بہت لااُبالی محبت جو تھی
وہ ہماری بھی پہچان میں آ نہ پائی کبھی
اجنبی بن گئی دیکھی بھالی محبت جو تھی
دل کے دشوار تر راستوں سے گزرتی رہی
وہ ہمیں چھوڑ کر جانے والی محبت جو تھی
ہم نے طوفان اٹھائے رکھے اس میں کیا کیا‘ ظفرؔ
سامنے اپنے چائے کی پیالی محبت جو تھی
آج کا مقطع
ظفرؔ، اُس کا ہوائی بوسہ بھی
بھاگتے چور کی لنگوٹی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved