نئی دہلی کے پالیسی میکرز کن مقاصد کا حصول یقینی بنانا چاہتے ہیں‘ یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ کبھی پاکستان پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ کبھی سری لنکا کا رونا رویا جاتا ہے۔ ایک دور تھا کہ بنگلہ دیش کو اپنا ساتھی اور بھائی کہتے بھارتی قائدین کی زبانیں نہیں تھکتی تھیں۔ پھر معاملات نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ردِعمل بنگلہ دیش میں دکھائی دے رہا ہے۔ وہاں کچھ ہندوؤں پر حملے بھی ہوئے ہیں۔ بھارتی قیادت نے جب بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد سے اس کا شکوہ کیا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ جب بھارت میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے گا تو پھر یہ تو ہوگا! چین نے الگ سے بھارت کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ اروناچل پردیش میں چینی فوج نے پندرہ مقامات پر اپنا تصرف قائم کرکے اُن کے نام تک تبدیل کردیے ہیں۔ اس پر مودی سرکار واویلا کر رہی ہے کہ چین بھارتی سرزمین کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے۔ کیا واقعی؟ بھارت کے بیشتر پڑوسی تو چھوٹے چھوٹے ہیں‘ اس لیے قدرت نے ایک بڑے کو بھیج کر بھارت کو سبق سکھانا شروع کیا ہے۔
بھارت کے پالیسی میکرز مختلف جہتوں میں تجربے کرتے رہتے ہیں۔ علاقائی سطح پر چودھری بننے کی خواہش اب تک پوری نہیں ہو پائی اور کوشش کی جارہی ہے عالمی قوت بننے کی! کہتے ہیں شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ مودی سرکار کا کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بعض معاملات میں غیر معمولی کامیابی یقینی بنالینے کے بعد بھی بھارتی قیادت اب تک خطے کے طاقتور ممالک کو اپنے زیرِ اثر رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ افغانستان سے بھارت کا زمینی رابطہ نہیں مگر پھر بھی وہاں وہ پاکستان کی مخالفت میں جا بیٹھا۔ امریکا کی چھتر چھایا میں پہلے حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی کے ساتھ مل کر دام بچھایا گیا مگر طالبان نے دوبارہ اقتدار میں آکر بھارت کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ طالبان کی دوبارہ آمد کو پاکستان کے سر منڈھتے ہوئے الزام تراشی سے گریز نہیں کیا جارہا۔ بھارت نے افغانستان میں ''سٹریٹیجک ڈیپتھ‘‘ پیدا کرنے کے نام پر اچھی خاصی سرمایہ کاری کی تھی۔ یہ سرمایہ کاری اب داؤ پر لگی ہوئی ہے‘ اگرچہ طالبان نے بھارتی قیادت کو یقین دلایا ہے کہ افغان سرزمین پر بھارت کے ترقیاتی منصوبوں کو بھرپور تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ ایران ایک زمانے میں بھارت کا حلیف تھا‘ بعض معاملات میں بھارت اور ایران کے تعلقات خاصے مستحکم رہے۔ دونوں ممالک کے مابین عوامی رابطے بھی غیر معمولی نوعیت کے رہے۔ بھارت نے چاہا کہ ایران کے ساتھ مل کر ایسی فضا تیار کی جائے جس میں افغانستان کو بھی ساتھ ملاکر پاکستان کو گھیرا جائے۔ ایران کا بنیادی ڈھانچا اَپ گریڈ کرنے میں بھارت کلیدی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ چا بہار کی بندرگاہ اِس کی ایک واضح مثال ہے۔ بھارت اس بندر گاہ کی مدد سے اپنے کاروبار کو وسعت دے رہا ہے۔ ایک طرف ایران سے تجارت بڑھی ہے اور دوسری طرف وسطی ایشیا کے ممالک سے بھی تجارت کو وسعت دینے میں مدد ملی ہے۔
اب اس کے ایران سے بھی معاملات بگڑنے لگے ہیں۔ چا بہار کی بندر گاہ سے زاہدان تک ریلوے لائن بچھانے کے معاملے میں ایران نے بھارت پر فنڈنگ روکنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ بھارت نے حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے اپنے حصے کی رقم روک دی ہے۔ دوسری طرف بھارتی ذرائع کہتے ہیں کہ ایران کسی جواز کے بغیر الزام عائد کرکے بھارت کو عالمی سطح پر بدنام کرنا چاہتا ہے۔ بھارتی میڈیا نے ایران کے خلاف بھی اب زہر اگلنا شروع کردیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ نیپال اور پاکستان کی طرح‘ اب ایران بھی بھارت سے سینگ پھنسا کر اپنے لیے مختلف النوع مشکلات کی راہ ہموار کر رہا ہے! سوال یہ ہے کہ بھارتی قیادت اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی کہ کسی بھی شوق کو پروان چڑھانے کی پرواز شروع کرنے سے قبل پَر پھیلانے کی صلاحیت اور سکت‘ دونوں کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ فی زمانہ علاقائی بنیاد پر بھی کچھ کر دکھانے کے لیے اچھا خاصا دم خم چاہیے۔ ایسے میں عالمی سطح پر کچھ کر دکھانے کی خواہش کو پروان چڑھانا محض دیوانے کا خواب ہے، اگر مطلوبہ صلاحیت و سکت کا دور دور تک نام و نشان نہ ہو۔
مودی سرکار نے بڑے بڑے انتخابی وعدے اور دعوے کیے تھے۔ کہا گیا تھا کہ ملک میں صنعتی ترقی کا عمل تیز ہوگا' نئی ملازمتیں دی جائیں گی اور افلاس کی سطح بھی نیچے لائی جائے گی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ملک نے بہت کچھ کمایا مگر اُس کے حقیقی ثمرات عوام تک منتقل نہیں کیے گئے۔ بھارت نے معیشت کے میدان میں تو کچھ بہتری دکھائی ہے مگر سیاست، معاشرت اور ثقافت کے محاذوں پر اُس کی لڑائی خاصی کمزور رہی ہے۔ اب سیاست ہی کو لیجیے۔ مودی سرکار نے طے کر رکھا ہے کہ باہر سے ملک چاہے کچھ بھی دکھائی دیتا ہو‘ اندر صرف خرابیوں ہی کو پروان چڑھانا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی کا جِن اس وقت بوتل سے یوں باہر آیا ہوا ہے کہ اندر جانے کا نام نہیں لے رہا۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل یقینی بنانے کی خاطر خاموش ہے۔ مودی سرکار نے بعض معمولی معاملات کو ایشوز بناکر ایسی خرابیاں پیدا کی ہیں جنہیں دور کرنے میں عشرے لگ جائیں گے۔ مسلم مخالف فضا اِس حد تک پروان چڑھادی گئی ہے کہ اب پورے بھارتی معاشرے کا توازن بگڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ جن ریاستوں میں مسلم مخالف فضا نہیں پائی جاتی تھی وہاں بھی عوام کے جذبات بھڑکادیے گئے ہیں۔ مودی سرکار عوام کو مختلف چھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھاکر رکھنا چاہتی ہے۔ میڈیا کے ذریعے بھی مسلم مخالف فضا برقرار رکھنے پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ بھارتی قیادت ایک طرف تو بین الاقوامی سیاست میں کچھ کر دکھانے کے لیے پَر تول رہی ہے اور دوسری طرف اندرونِ ملک خاصی بڑی اقلیت کو دیوار سے لگائے رکھنے کی پالیسی پر یوں عمل کیا جارہا ہے کہ دنیا دیکھ کر حیران ہے۔ نریندر مودی کی سوچ کہاں تک ہے‘ اِس کا اندازہ لگانے والے سوچ سوچ کر تھک جاتے ہیں مگر کسی واضح نتیجے تک نہیں پہنچ پاتے۔ نریندر مودی دو بار گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔ اب یہ ثابت ہو رہا ہے کہ وہ صرف اس سے بڑے منصب کے لیے موزوں نہیں۔ پوری قوم کا لیڈر بننے کے لیے جو بالغ نظری درکار ہوا کرتی ہے وہ اُن میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ ملک کو ہم آہنگی کی ضرورت ہے اور مودی اپنی ٹیم کے ساتھ اگلے الیکشن میں بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے سبھی کچھ داؤ پر لگانے کے لیے بے تاب دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ملک بھر میں جذبات بھڑکانے کا سلسلہ دم نہیں توڑ رہا۔ ادھر ایودھیا میں رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے بعد اب کرشن مندر کے نام پر لوگوں کوبے وقوف بنایا جارہا ہے۔ لوگوں کو انتہا پسندی کی راہ پر گامزن رکھنے پر تشویش ناک حد تک توجہ دی جارہی ہے۔
بھارتی قیادت نے بیک وقت کئی محاذ کھول رکھے ہیں اور اسے ہر محاذ پر فتح یقینی بنانے کی فکر لاحق ہے۔ مشکل یہ ہے کہ کسی ایک محاذ کے لیے بھی ڈھنگ سے تیاری نہیں کی گئی۔ ایسے میں یہ بات عجیب ہی لگتی ہے کہ کئی محاذوں پر لڑائی جاری رکھی جائے اور ہر محاذ پر مثالی نوعیت کی فتح یقینی بنانے کا خواب بھی دیکھا جائے۔ مودی سرکار نے اندرونِ ملک سو طرح کی خرابیوں کے پنپنے کی خوب گنجائش پیدا کر رکھی ہے۔ مذہب و مسلک اور نسل و ثقافت کے نام پر منافرت پھیلانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جارہی۔ اس وقت علاقائی اور عالمی سطح پر کچھ کر دکھانے کی کوشش سے کہیں بڑھ کر مودی سرکار کو اندرونِ ملک معاملات قابو میں رکھنے پر توجہ دینی چاہیے۔بھارت بھر میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو نشانے پر لینے سے جو خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں اُن کے نتیجے میں بھارت کا وجود اور اس کی بقا ہی داؤ پر لگ جائے گی۔