اپوزیشن رہنمائوں کی زبانیں شعلے اُگل رہی ہیں۔ جب سے تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس میں قائم کی جانے والی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی ہے، حکومت کے مخالفین میں نئی روح دوڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے اسد عمر اور فواد چودھری جیسے جانثار اپنی جگہ اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں، بلکہ بغلیں بجا رہے ہیں کہ ان کا دامن صاف ہے، ان کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہوا، ان کے کھاتوں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جسے بد معاملگی یا بد عنوانی قرار دیا جا سکے۔ تحریک انصاف تو پاکستان کی وہ پہلی سیاسی جماعت ہے، جس نے دنیا بھر میں پھیلے اہلِ وطن سے چندہ وصول کیا، اور یوں حاصل ہونے والی رقوم دِل کھول کر اپنی سیاست پر خرچ کی ہیں‘ لیکن درخواست گزار اکبر ایس بابر‘ جو ایک زمانے میں کپتان کے دیوانے تھے اور ان کے سیکرٹریٹ میں اعلیٰ درجے پر فائز تھے، اپنی جگہ مسرور ہیں کہ تیر نشانے پر بیٹھ چکا۔ عمرانی سیاست پر ایسا داغ لگ گیا ہے کہ کوئی ڈیٹرجنٹ اسے دھو نہیں پائے گا۔ اپوزیشن رہنمائوں کی سمجھ میں بھی یہی آ رہا ہے۔ مریم نواز کے لہجے کی کاٹ دیدنی ہے۔ شہباز شریف پکار اُٹھے ہیں کہ وزیر اعظم نام کی کوئی شے اب مملکتِ پاکستان میں موجود نہیں رہی، یہ منصب خالی ہو چکا ہے۔ عزیزم بلاول بھٹو زرداری نے تو لاہور پہنچ کر پی ڈی ایم سے بھی پہلے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ بضد ہیں کہ عمران خان کو اقتدار پر ٹکنے نہیں دیں گے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا ہے کہ 27 فروری کو ملک بھر میں اپنے گھروں سے نکلیں اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کوگھر بھیج دیں۔
تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کے بارے میں دائر ہونے والا مقدمہ الیکشن کمیشن میں سات سال سے زیر سماعت ہے۔ وکیل اور پینترے بہت بدلے گئے۔ التوا کی درخواستیں بھی دائر ہوتی رہیں، ایک عدالت سے دوسری عدالت تک اختیارِ سماعت بھی زیر بحث لایا جاتا رہا، لیکن گاڑی رک رک کر بھی چلتی چلی گئی۔ الیکشن کمیشن کی قائم کردہ سکروٹنی کمیٹی نے کسی نہ کسی طور رپورٹ مرتب کر کے پیش کر دی۔ تحریک انصاف کے وکیل نے اسے خفیہ رکھنے کی درخواست کی جو مسترد کر دی گئی، اس کی تفصیلات منظر عام پر آ چکی ہیں، اور فریقین اپنے اپنے مطلب کی باتیں اس میں سے نکال کر اپنا اپنا مطلب نکال رہے ہیں۔ کس بات میں کس قدر صداقت ہے، اس بحث میں الجھے بغیر یہ درخواست تو کی جا سکتی ہے کہ اللہ کے بندو صبر کرو۔ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ، اُسی طرح کی ایک رپورٹ ہے جیسے جے آئی ٹی کی رپورٹ ہوا کرتی ہے۔ یہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہے، نہ عدالت کا۔ اس میں سے جو کچھ نکالا جا سکتا ہے، یا نکل سکتا ہے، کمیشن کے روبرو نکالیے، تحریک انصاف کے وکیل بھی وہاں موجود ہوں گے، ان کے مخالف بھی قانون کی کتابوں سے لدے ہوں گے، سو جتنا زور ہے وہاں لگایا جائے، جب فیصلہ آئے گا، تو پھر دیکھا جائے گا کہ کس کو کون سی بغل کب کب بجانے کا حق حاصل ہو چکا ہے، اور کس کو اپنے خالی ہاتھوں سے محض تالی بجانی ہے۔ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا، اور جیسے بھی ہوا، وہ عدالت کے فیصلے کے بعد ہی ہو سکا تھا۔ قانون کو اپنا راستہ بنانے دیجیے، اور سیاست کو اپنے راستے پر رکھیے۔ یہ درست ہے کہ قانون کے نفاذ میں بھی سیاست کا دخل ہو سکتا ہے، اور سیاست کی کوئی کل حوالۂ قانون بھی کی جا سکتی ہے، لیکن قبل از وقت دھماچوکڑی مچانے سے توانائی تو ضائع ہو سکتی ہے، گوہر مقصود ہاتھ نہیں آ سکتا۔
تحریک انصاف اور اُس کے چیئرمین سے جو کچھ سرزد ہوا ہے، وہ آج تو ہوا نہیں، سات آٹھ برس پہلے کا معاملہ ہے۔ دو انتخابات اس دوران منعقد ہو چکے، تحریک انصاف اور اس کے مخالفین ایک ایک باری لے چکے، اب تیسرا انتخاب سر پر کھڑا ہے، اُس کی تیاری کی جانی چاہیے کہ فیصلہ تو وہی معتبر ٹھہرے گا، جس پر عوام کی مہر لگی ہو گی۔ سیاست کو حقیقی سزا تو عوام ہی کی عدالت سے ملتی ہے، وہاں اس کے لیے تالیاں بجتی رہیں تو پھانسی گھاٹ بھی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھ لیجیے! انہیں قومی سیاست سے آج تک بے دخل نہیں کیا جا سکا۔ ان کی بیٹی دو بار وزیر اعظم بنی، داماد ملک کی صدارت لے اڑے، اور اب نواسہ پَر تول رہا ہے۔ اپنی پارٹی کے جسدِ خاکی میں روح ڈالنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اور ناکامی اس کا مقدر یوں نہیں ہے کہ ناکام وہی ہوتے ہیں، جو ناکامی کو تسلیم کر لیں‘ حوصلہ چھوڑ دیں، ہمت ہار بیٹھیں، جس کا حوصلہ جوان ہو، اُسے ناکام کہا جا سکتا ہے نہ ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں سے چند لمحے کی فرصت ملے تو نواز شریف کی طرف دیکھ لیجیے، عمر بھر کے لیے انہیں نا اہل قرار دیا جا چکا۔ ان کے انتخاب میں حصہ لینے کا حق باقاعدہ قانون کی عدالت کے ذریعے سلب کیا جا چکا۔ وزیر اعظم ہائوس ان سے پہلے صدر غلام اسحاق نے چھینا، پھر جنرل پرویز مشرف کی بندوق نے، تیسری بار عدالت کے حکم نامے نے، یہاں تک کہ ان کی مسلم لیگ (ن) کی صدارت پر بھی ''شب خون‘‘ مارا گیا، وہ اب ہزاروں میل دور لندن میں بیٹھے ہیں لیکن ان کے ووٹر ان سے چھینے نہیں جا سکے۔ وہ آج بھی ان کی مالا جپتے ہیں اور ان کے بغیر مسلم لیگ (ن) دو قدم نہیں چل پاتی۔ نواز شریف کی واپسی کی خبریں ان کے مخالفین کی نیندیں اڑا دیتی ہیں، وہ چونک چونک اُٹھتے، اور اٹھ اٹھ کر چونکتے ہیں۔
عمران خان کے بارے میں بھی کوئی کچھ کہے، اور کچھ سوچے یا کچھ کرے، ان کی سیاست ان کے منصب کی پیداوار نہیں ہے، انہیں منصب سیاست کی بدولت نصیب ہوا ہے۔ اگر اسے چھین لیا جائے تو بھی سیاست تو ان سے کوئی نہیں چھین سکے گا۔ ان کا ''فین کلب‘‘ جب تک موجود ہے، وہ اپنے مخالفین کے اعصاب پر سوار رہیں گے۔ اس لیے مقابلہ سیاست کے میدان میں کیجیے، احمقوں اور حماقتوں کو اپنا رہنما نہ بنایے، پکاریے، للکاریے، میدان میں ڈٹ جائیے، چھاتی کے ساتھ چھاتی ملا کر مقابلہ کیجیے، چور دروازے چوروں کے لیے ہوتے ہیں، شیروں کے لیے نہیں۔ بلاول میاں، ذرا یہ بھی بتا دیں کہ اگر آپ نے لانگ مارچ اور مظاہروں کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کرنی ہے تو پھر جماعت اسلامی کا دھرنا سندھ میں آپ کی حکومت کو ختم کیوں نہ کر ڈالے؟ سندھ اسمبلی کے باہر جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکن، سردی اور بارش کے باوجود جم کر بیٹھے ہوئے ہیں، سندھ کے یک طرفہ بلدیاتی قانون میں ترمیم کا مطالبہ کر رہے ہیں، عزیزم بلاول کی منطق اگر انہوں نے اپنا لی، اور استعفے کا مطالبہ شروع کر دیا، تو پھر مراد علی شاہ صاحب کی کرسی کیسے بچائی جائے گی؟ اس سے پہلے کہ بلاول صاحب بہادر، عمران خان کا ذوالفقار علی بھٹو بنائیں، سراج الحق مراد علی شاہ کا عمران خان کیوں نہ بنا ڈالیں گے؟ ان کا استعفیٰ لیے بغیر کیونکر واپس روانہ ہوں گے؟
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)