وزیر اعظم عمران خان نے ہمارے دوست اور دنیا ٹی وی اسلام آباد کے بیوروچیف خاور گھمن کو دیئے گئے انٹرویو میں چند بڑے انکشافات کیے ہیں۔ باقی انکشافات پر تو بہت سارے ٹی وی شوز ہو چکے‘ باتیں بھی ہو چکیں اور ہوتی رہیں گی لیکن جس نکتے کو اب تک نظر انداز کیا گیا‘ وہ ہے خان صاحب کا یہ کہنا کہ وہ احتساب نہیں کر سکے اور آج بھی اپوزیشن کے بڑے بڑے کرپٹ لیڈر باہر پھر رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ ان کی پارٹی احتساب کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی لیکن وہ اپنے اس بڑے مشن میں ناکام رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ خان صاحب کو کس نے ناکام کیا؟ ایک تو وہی بات کہ وہ اور ان کے حامی خود کو تسلی دے سکتے ہیں کہ وہ کرپٹ ایلیٹ کا احتساب کرنا چاہتے تھے لیکن پورا نظام ان کے خلاف ہو گیا‘ سب ملزمان کو عدالتوں سے ریلیف ملنا شروع ہو گیا اور اس بات کی انہیں بڑی تکلیف ہے۔ اسی لیے وہ ماضی میں بار بار چینی اور سعودی ماڈلز کی بات کرتے تھے‘ جہاں ان کا خیال ہے حکمران بدعنوانوں کو لٹکا دیتے ہیں۔ ان کی باتوں سے پتہ چلتا تھا کہ وہ جمہوری نظام کے تحت چلنے والے احتساب کے اداروں کو اپنے مشن کے تکمیل میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ جمہوری نظام میں رہتے ہوئے وہ احتساب نہیں کر سکتے۔ وہ یہ بھول جاتے تھے کہ اگر ملک میں سعودی یا چینی نظام حکومت ہوتا تو کیا وہ خود ابھر کر وزیر اعظم یا کرائون پرنس بن سکتے تھے؟ کیا وہاں کا نظام انہیں بادشاہ یا حکمرانوں پر تنقید کرنے کی اجازت دیتا جیسے وہ نواز شریف یا زرداری پر کرتے رہے یا ان کا بھی وہی حشر ہوتا جو ان ملکوں میں حکمرانوں کے ناقدین کا کیا جاتا ہے؟
اب یہ تو ہونے سے رہاکہ آپ اس ملک کے وزیر اعظم تو بنیں جمہوری نظام کے تحت‘ لیکن اب اپنے مخالفوں کے لیے آپ سعودی اور چینی نظام کے تحت سزائیں چاہتے ہیں کہ آپ کو کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ تصور کریں‘ اگر خان صاحب کے سیاست میں داخل ہوتے وقت اس ملک کے حکمران بھی چینی اور سعودی سزائیں دینے پر یقین رکھتے تو ان کا کیا مستقبل ہونا تھا؟ اب آدھا تیتر آدھا بٹیر والا کام تو نہیں ہو سکتا تھا کہ وزیر اعظم بننے کے لیے تو مغربی جمہوریت ہی ٹھیک ہو جہاں آپ شہباز شریف، زرداری یا نواز شریف پر جو دل چاہے الزام لگا دیں یا جتنا چاہیں انہیں بُرا بھلا کہیں‘ لیکن جب آپ کی باری لگے اور آپ وزیر اعظم بن جائیں اور آپ کو بھی اسی طرح تنقید کا سامنا کرنا پڑے یا حکومت کے سکینڈلز سامنے لائے جائیں تو یکدم چینی اور سعودی نظام انصاف اچھا لگنے لگ جائے۔ خان صاحب کو تو شکر کرنا چاہئے کہ وہ سعودی یا چینی نظام کے تحت سیاست نہیں کر رہے تھے ورنہ نتائج ان کیلئے زیادہ اچھے نہ ہوتے۔ دراصل جب چینی اور سعودی ماڈل کی بات کرتے ہیں تو جواز پیش کررہے ہوتے ہیں کہ وہ کرپٹ ایلیٹ کا احتساب کرنے میں کیوں ناکام رہے۔ ان کا مطلب بڑا واضح ہوتا ہے کہ اگر ان کے پاس چینی اور سعودی حکمرانوں جیسی پاور ہوتی تو وہ قوم کو مایوس نہ کرتے اور قوم کا لوٹا ہوا پیسہ وصول کر لیتے‘ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان سے کوئی سوال و جواب نہ کریں کہ ان کی پارٹی تو احتساب کا نعرہ لگا کر پاور میں آئی تھی لیکن اب تک کسی ایک کو بھی سزا نہیں ملی۔
سوال یہ ہے کہ خان صاحب سے کہاں غلطی ہوئی؟ میرے خیال میں کہیں کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا خوب سوچ سمجھ کر اور پلان بنا کر کیا۔ نہ وہ بھولے ہیں اور نہ انہیں بھولا سمجھا جائے۔ انہوں نے احتساب کا نعرہ اس لیے لگایا تھاکہ زرداری اور نواز شریف کی لوٹ مار سے تنگ آئی قوم کو وہ ایک امید دلا سکیں کہ وہ ان سب کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس وقت وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ پاکستان کیلئے سعودی یا چینی نظام ہونا چاہیے جس کے تحت وہ سب کو سزائیں دلوا سکیں بلکہ اس وقت ان کا پسندیدہ ماڈل امریکہ، برطانیہ اور یورپی معاشرے و حکومتیں تھیں‘ جہاں ان کے بقول حکمران معمولی سے سکینڈل سامنے آنے پر استعفیٰ دے دیتے تھے۔ ٹرین حادثے پر وزیر گھر چلے جاتے تھے یا پھر مغربی ممالک کے وزیراعظم سائیکل پر دفتر آتے تھے‘ یا پھر جنوبی کوریا کا وزیراعظم ان کا رول ماڈل تھا جس نے دور سمندر میں کشتی کے حادثے میں مرنے والے بچوں تک کی ذمہ داری قبول کی اور استعفیٰ دے دیا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو ان بیس برسوں میں شاید ہی خان صاحب نے سعودی حکمرانوں کی خوبیاں بتائی ہوں گی۔
انہیں اگر احتساب کرنا ہوتا تو پھر پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو ساتھ ملا کر حکومت نہ بناتے، اپنی شوگر مل کے چوراسی کروڑ روپے قرض معاف کرانے والی فہیمدہ مرزا صاحبہ کو وزیر نہ بناتے، جن بشیر احمد المعروف اعظم سواتی کے خلاف سپریم کورٹ میں پانچ جے آئی ٹی کی رپورٹس ایف آئی اے پیش کر چکی ہو انہیں اپنے ساتھ کابینہ میں نہ بٹھاتے۔ لسٹ اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ جس کرپٹ نے تحریک انصاف جوائن کرنے کی ہامی بھری خان صاحب نے دیر نہیں لگائی۔ دوسرے لفظوں میں عمران خان دراصل کرپٹ سیاستدانوں کو بلیک میل کررہے تھے۔ انہیں پہلے ٹارگٹ کیا کہ وہ کرپٹ اور لٹیرے ہیں اور وہ انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ جب ان میں سے اکثریت نے ان کی پارٹی جوائن کر لی تو سب فرشتے ہوگئے بلکہ انہیں وزیر بنا کر ساتھ بٹھا لیا اور باقی کو اہم عہدے دیئے۔ ان کو برے صرف وہی کرپٹ سیاستدان لگتے ہیں جو ان کی پارٹی میں شامل نہیں ہوئے۔ اس طرح خان صاحب نے بھی نواز شریف کی طرح کا احتساب متعارف کرایا جب سیف الرحمن کو زرداری اور بینظیر بھٹو کے پیچھے لگایا گیا چاہے ججوں کو فون پر ہدایات دی گئیں۔ مطلب نواز شریف اور ان کا اپنا خاندان جو کچھ کر رہا تھا وہ معاف تھا لیکن جو کچھ سیاسی مخالفین کر چکے تھے اس پر عدالتوں پر دبائو ڈلوانا پڑا تو ڈالا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں خان صاحب کو بھی نواز شریف ماڈل پسند ہے۔ خان صاحب کو بھی اپوزیشن کی کرپشن بری لگتی ہے لیکن پنجاب میں اگر ڈپٹی کمشنر تک کے عہدے بھی بک رہے ہوں انہیں فرق نہیں پڑتا۔
خان صاحب کو ہر قیمت پر وزیراعظم بننا تھا اور اس کیلئے وہ ایک روایتی سیاستدان کی طرح کسی قسم کی موریلٹی یا اخلاقیات کو اپنی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہتے تھے۔ انہیں سمجھ آگئی تھی کہ اگر انہوں نے اخلاقیات پر کھڑے ہونے کی کوشش کی تو شاید وزیراعظم نہیں بن سکتے لہٰذا پنجاب کے ڈاکو ہوں یا سندھ کے بینکوں کو لوٹنے والے مرزا ہوں یا پھر خیبرپختون خوا کے سواتی ہوں‘ خان صاحب نے مڑ کر نہیں دیکھا۔
خان صاحب اب بہادر بنیں، اعتراف کریں اور قوم کو سچ بتائیں کہ انہوں نے خود احتساب کا بیڑا غرق کیا کیونکہ انہیں ہر قیمت پر وزیراعظم بننا تھا جیسے ڈاکٹر فائوسسٹس ہر قیمت پر خوب صورت ہیلن آف ٹرائے حاصل کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے کچھ بھی کیا۔ خان صاحب بھی ہر قیمت پر وزیراعظم بننا چاہتے تھے اور اس کے لیے ہر ڈاکو چور کو ساتھ ملا لیا اور اب بھولے بن کر گلہ بھی کرتے ہیں۔
اگر وہ گلہ کرنا چاہتے ہیں تو خود سے کریں۔ اپنی خواہشات سے کریں جنہیں پورا کرنے کے لیے وہ ڈاکوئوں، چوروں اور فراڈیوں ساتھ مل گئے۔ وزیراعظم تو بن گئے لیکن ڈاکٹر فائوسسٹس کی طرح اپنی روح سے ہاتھ دھو بیٹھے۔