تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     09-01-2022

دیمک زدہ ادارے

ہوا بازی کے معاملات کو کنٹرول کرنے والا ادارہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کہلاتا ہے۔ صراحت و درستی اور خدمت، سول ایوی ایشن کی پہچان ہے اور اسی اعتبار سے اس کی ایک پوری سائنس ہے اور بلا شبہ فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے بھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ تمام تر ایئر پورٹس کی دیکھ بھال اور صفائی‘ ایئر لائنز کو سہولتوں کی فراہمی کے بنیادی فرائض یہی ادارہ سرانجام دیتا ہے‘ مگر کمال یہ ہوا گزشتہ سال دسمبر میں آئی ایل ایس (Instrument Landing System (ILS)) غیر فعال ہو گیا۔ وجہ اَپ گریڈیشن بتائی گئی مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اَپ گریڈیشن یعنی نظام کو بہتر کرنے کا کام ان ہفتوں میں رکھا گیا جب لاہور شدید دھند کی لپیٹ میں ہوتا ہے اور جب اس نظام کو فعال رکھنے کی ضرورت باقی دنوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔
لاہور سے روزانہ تقریباً 30 ملکی اور بین الاقوامی پروازیں آپریٹ ہوتی ہیں‘ لیکن دسمبر میں درجنوں پروازوں کو اسلام آباد اور کراچی کی طرف موڑ دیا گیا یا پھر وہ کئی کئی گھنٹے تاخیر سے پہنچیں۔ کئی پروازوں کی روانگی میں گھنٹوں کی تاخیر بھی آئی ایل ایس کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے ہوئی۔ اس تمام قصے میں نقصان کس کا ہوا؟ پی آئی اے کا اور غیر ملکی کمپنیوں کا۔ بدنامی کس کی ہوئی؟ پاکستان کی۔ یورپ کے اکثر علاقوں میں سردیوں میں شدید برف باری‘ گہری دھند اور موسم کی خرابی کے باوجود پروازوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے بلکہ وہاں کے ایک ایک ایئرپورٹ سے روزانہ سینکڑوں جہاز پرواز کرتے ہیں اور وہ ان سب کا انتظام کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہاں ایسا کیوں نہیں ہے؟ دسمبر میں پروازیں کیوں ڈائیورٹ کرنا پڑیں اور انہیں تاخیر کیوں ہوئی۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں سی اے اے نے ایک نیا ٹھیکہ شروع کر دیا ہے۔ کیا ذمہ داران سے کوئی پوچھے گا کہ دُھند ہی کے مہینے میں آئی ایل ایس کیوں غیر فعال کر دیا گیا‘ اس موسم میں جب اس سسٹم کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ٹھیکے میں مفاد کس کا تھا، اور پی آئی اے‘ پاکستان کے مفادات اور امیج کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کا خیال کیوں نہ رکھا گیا؟ بڑی بڑی تنخواہوں کے ساتھ مراعات یافتہ مینجمنٹ اور ان کے گورننگ بورڈز کا آخر کیا فائدہ؟ حکومتی منصوبہ بندی اور Value for mancy کے نقطہ نظر سے اگر اس نوعیت کا آپریشن کیا جائے تو نہ تو ملک کا امیج خراب ہو گا، اور نہ ہی ایئر لائنز کو نقصان ہو گا۔ آخر کب تک ذاتی مفادات کی خاطر منصوبہ بندی کے بغیر اپنے اداروں اور ملک کے مفادات کے ساتھ کھیلنا جاری رکھا جائے گا؟ شاید ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ رن وے اور ایئرپورٹ آپریشنز کی تمام ذمہ داری سی اے اے کی ہے مگر عام طور پر برا بھلا پی آئی اے کو کہا جاتا ہے‘ جب اس کی پروازوں میں کئی کئی گھنٹے کی تاخیر ہوتی ہے یا جب پرواز ملتوی کر دی جاتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب پی آئی اے دُنیا بھر میں مُلک کی سفیر اور چھوٹے پاکستان کی شہرت رکھتی تھی۔ یہ ایک نفع بخش اور فروغ پذیر ادارہ تھا جس کی ترقی‘ کارکردگی اور فرض شناسی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ یہ ادارہ اتنا شاندار تھا کہ 1962 میں امریکہ کی خاتونِ اول جیکولین کینیڈی نے پی آئی کے ذریعے ایک سفر کیا اور سفر کے اختتام پر یہ الفاظ بولے تھے: 'Great people to fly with'۔ اسی تحسینی فقرے کو اس ادارے کے سلوگن کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ لیکن پھر اس شاندار ادارے کو سیاسی حکومتوں کی پسند‘ ناپسند کا نشانہ بنا دیا گیا۔ پی آئی اے جیسے مثالی ادارے سے وابستگی ہزاروں محبِ وطن پاکستانیوں کے لیے یقیناً ایک اعزاز ہوا کرتا تھا‘ لیکن کالی بھیڑیں کہاں نہیں ہوتیں۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ پی آئی اے اور دوسرے اداروں کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا۔ منظور نظر قطار اندر قطار نوازے گئے۔ اتنے کہ یہ بڑے ادارے ان کے بوجھ تلے دبتے چلے گئے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک کھلواڑ کیا گیا کہ ہم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں ہوگا۔
پی آئی اے میں سیاسی بھرتیوں اور اس کے وسائل سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی ایک مثال سابق بیوروکریٹ اور سیکرٹری دفاع سید اجلال حیدر زیدی تھے۔ شاید اسی وجہ سے وہ چیئرمین پی آئی اے بھی بنے۔ ان کے لئے بطور چیئرمین اسلام آباد کراچی اور لاہور میں ہمہ وقت ایک مرسڈیز گاڑی سمیت ڈرائیور کے موجود رہتی تھی۔ ہر نئے چیئرمین کے گھر اور آفس کو ایئر لائن کے خرچے پر آراستہ کیا جاتا تھا اور عہدے سے سبکدوشی کے بعد اسے وہ تمام سامان بلا معاوضہ گھر لے جانے کا استحقاق حاصل تھا۔ ایک دفعہ ٹرانس اٹلانٹک 747 پرواز کا پائلٹ دوران پرواز انتقال کر گیا۔ ان کی میڈیکل رپورٹس ٹھیک تھیں۔ انکوائری ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ لاہور میں دل کا پرائیویٹ علاج کروا رہے تھے۔ کراچی میں پی آئی اے کا چلایا جانے والا کلینک انہیں ہر سال کلین چٹ دیتا تھا۔ ایک اور ہوائی جہاز کے کاک پٹ کا دورہ کرنے پر معلوم ہوا تھا کہ پائلٹ ٹمٹماتی ہوئی وہ سرخ بتیاں نہیں دیکھ سکتا تھا جو دوران پرواز کسی غلطی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ پائلٹ کلر بلائنڈ تھا! پائلٹ نے پھر استفسار پر دعویٰ کیا کہ اب وہ مکمل طور پر ٹھیک ہو چکا ہے۔
لاہور ہوائی اڈے کا رن وے تقریباً دو دہائیاں قبل بیچٹیل کارپوریشن نے اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر کیا تھا۔ اس تعمیر کو تسلی بخش قرار نہیں دیا گیا تھا‘ اس لئے اس کی مرمت کی گئی۔ کنکریٹ رن وے کی عام طور پر زندگی 80 تا 100 سال تک ہو سکتی ہے لیکن اس شاہکار نے تھوڑے ہی عرصے میں باقاعدہ جواب دے دیا اور اب حال یہ ہے کہ اسی رن وے کو اب نئے سرے سے ''تعمیر‘‘ کیا جا رہا ہے۔
ایک اور مثال پر غور کرتے ہیں۔ پاکستان سٹیل ملز کے تازہ ترین مہیا اعدادوشمار کے مطابق سٹیل ملز کا محض گیس کا بل 42 ارب تک پہنچ چکا ہے حالانکہ مل 2015ء سے مکمل طور پر بند ہے۔ عوام کی جیبوں سے نکلوائے گئے اربوں روپے ہر سال سٹیل ملز کے کھاتے میں جھونک دیئے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ ایک اندازے کے مطابق 2005ء سے 2021ء تک اس مل کو 12 ارب ڈالر کے قریب نقصان ہو چکا ہے۔
سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ اتنا بڑا اور ترقی پذیر ادارہ کیسے اور کیوں تباہ ہوگیا؟ جبکہ سٹیل ملز کے چھوٹے چھوٹے یونٹس نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑے ہیں بلکہ ترقی بھی کر رہے ہیں اور باقاعدہ اپنا نام بنانے میں کامیاب ہیں۔ پاکستان سٹیل ملز جیسے ادارے کسی بھی ریاست کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح کام کر سکتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کرتے ہیں لیکن افسوس کہ ہماری اس معاشی شہ رگ کے ساتھ ہمارے اپنے رہنمائوں نے ہی سوتیلوں والا سلوک کیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
کافی عرصہ پہلے پاکستان سٹیل ملز کے ایک عہدے دار سے ایک نشست ہوئی تو انہوں نے بتایا تھا کہ جتنی بھی حکومتیں گئیں اور آئیں سب ہی چاہتی ہیں کہ مل کو بیچ دیا جائے‘ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کو اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا کریں۔ ان کے بقول کوئی ہمارے ساتھ بیٹھ جائے تو ہم بتا سکتے ہیں کہ کیسے اس مردہ گھوڑے میں جان ڈالی جا سکتی ہے‘ لیکن یہ تب ہو گا جب کوئی ان کی بات سنے گا۔ جب کوئی صدق دل سے چاہے گا کہ پاکستان سٹیل ملز دوبارہ پروڈکشن شروع کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved