پشاور میں پی ڈی ایم کے صوبائی چیپٹر کے ہنگامی اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمن کی پریس سے گفتگو میں پارلیمنٹ کے اندر اپنی قوت کے اظہارکے بیان کو لے کر الیکٹرانک میڈیا میں اس کی کئی زاویوں سے تشریح کی جاتی رہی۔ایک ٹی وی چینل نے اسے بالآخر بلاول بھٹو زرداری کی اِن ہاوس تبدیلی کی تجویز کی غیراعلانیہ پیروی سے مماثل قرار دینے کی پھبتی بھی کسی تاہم مولانا فضل الرحمن نے نہایت محتاط انداز میں ان نشریاتی قیاس آرائیوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت بلاول بھٹو کی بات بے وقت کی راگنی تھی‘پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں معروضی سیاسی صورت حال کو سامنے رکھ کر تمام تنقیحات کا تجزیہ کیا جاتا ہے؛چنانچہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)آج کے بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنی حکمت عملی ترتیب دینے جا رہی ہے‘جیسا کہ اسمبلیوں سے استعفے ایک قسم کا سیاسی ہتھیار ہیں‘اسے کب اور کیسے استعمال کرنا ہے یا پھر اس سے بہتر کوئی اور آپشن بروئے کار لانا ہے‘اس کا فیصلہ صرف مولانا فضل الرحمن نے نہیں کرنا ہوتا بلکہ پہلے بھی اور آج بھی پی ڈیم کے تمام فیصلے اور پالیسیاں اجتماعی دانش کے ذریعے تشکیل پاتی ہیں۔ہمارے بعض میڈیا کارکنان اپنے کہے ہوئے الفاظ کے نتائج کی ذمہ داری تو نہیں لیتے البتہ ایسی بعید از حقائق قیاس آرائیوں کے مزے ضرور لیتے ہیں۔ ایوانِ اقتدار اور اپوزیشن کے مابین لڑکھڑاتی پیپلزپارٹی کے طرزِ عمل سے قطع نظر خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج اور بعض دیگر عوامل اس امر کی توضیح کے لیے کافی ہیں کہ مقتدرہ مقبول سیاسی قیادت کی طرف سے برپا کی گئی مزاحمتی جدلیات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کوہموار سیاسی عمل کے ذریعے آگے بڑھنے کی راہ دینے میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے؛چنانچہ اسی گداز ماحول سے فائدہ اٹھا کرحکمراں اتحاد سے جڑی چھوٹی علاقائی جماعتیں بھی اپویشن سے روابط بڑھانے میں مشغول نظر آتی ہیں‘جس کی تازہ مثال کراچی کی پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کی مولانا فضل الرحمن سے علانیہ ملاقات میں ملکی اور بالخصوص سندھ کی سیاسی صورت حال پر مشاورت کو بھی بدلتے ہوئے سیاسی موسموں کی غماضی سمجھا گیا۔اس سے قبل پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں کے پیپلزپارٹی سمیت چھوٹے پارلیمانی گروپوں سے خفیہ رابطوں کی خبریں بھی مل رہی تھیں جس سے عمومی طور پہ یہی تاثر لیا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کی راہ میں حائل وہ آہنی رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں جو انہیں ہموار سیاسی عمل کے ذریعے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے سے روک کرمزاحمتی طرز عمل اپنانے پہ مجبور کر رہی تھیں۔
سیاست میں برسرپیکاراپوزیشن کی لیڈرشپ کے طرز عمل میں پیدا ہونے والاایک قسم کا ٹھہراو ٔاور توازن انہی تبدیل ہوتے حقائق کی تصدیق کرتا ہے‘اس لئے اب اس امر کا امکان ہر وقت موجود رہے گا کہ اپوزیشن اگلے ایک ڈیڑھ ماہ میں کسی بھی لمحہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف آئینی طریقہ کار کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک لاسکتی ہے۔سطح کے نیچے پنپنے والے ان تغیرات کی بھنک گورنمنٹ کو بھی ضرور پڑگئی ہو گی ؛چنانچہ اپوزیشن کی سیاسی پیش دستی کے علاوہ مریم نواز کی ہائی کورٹ میں اخراجِ مقدمہ کی درخواست اور الیکشن کمیشن میں زیرسماعت فارن فنڈنگ کیس کی سکروٹنی کمیٹی کی رپوٹ جیسے واقعات سے اثر لے کر وزیراعظم عمران خان نے اپنی کابینہ کے اجلاس میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی ڈیل کے تحت واپسی کے خدشات پر کھل کر بات کر ڈالی‘ البتہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس حوالے سے اپنی پریس کانفرنس میں مبینہ ڈیل کے اس حساس معاملہ کی وضاحت کردی ہے ‘تاہم یہ دونوں باتیں یعنی کابینہ کے اجلاس میں مبینہ ڈیل کی بازگشت اور آئی ایس پی آر کی وضاحت بجائے خود اس امر کا ثبوت تھیں کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں بھی اپوزیشن کی سیاسی چالوں کے اثرات کو شدت سے محسوس کیا جانے لگا ہے۔بلاشبہ سیاست کے مقاصد کے لیے اتنا کافی ہوتا ہے کہ ہم ان مشاہدات کو حقیقی سمجھیں جن کے متعلق مختلف لوگ اور متضاد واقعات ایک جیسی شہادت دے رہے ہوں‘تاہم اب اچانک پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے 27 فروری کو حکومت کے خلاف کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کے اعلان سے بظاہر یہی تاثر ابھرتا ہے کہ اپوزیشن مربوط انداز میں آئینی طریقوں کو بروئے کار لاکر رجیم بدلنے کے معاملہ پہ ابھی پوری طرح متفق نہیں ہو سکی۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے خفیہ منصوبوں کو کیموفلاج کرنے کے لیے اس طرح کی متضاد مساعی کے ذریعے حکومت کو اپنے دفاع میں ریاستی وسائل اور طاقت کے استعمال کا موقع دینے سے روکنا چاہتی ہوں۔بہرحال اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ سیاسی تنہائی سے نکلنے کی خاطر کچھ کر گزرنے کے آشوب میں بُری طرح مبتلا ہے لیکن اس کے پاس مستقبل کا کوئی واضح لائحہ عمل ہے نہ اتنی سیاسی استعداد کے وہ تنہا قومی سیاست میں کوئی مؤثر سیاسی کردار ادا کر سکے اس لیے وہ اپنی سیاسی بقا مقتدرہ اور بڑی اپوزیشن جماعتوں کے مابین سمجھوتہ کرانے میں تلاش کر رہی ہے۔اسی تناظر میں مسٹر آصف علی زرداری کی زنبیل میں اب بھی کئی ایسی مہمل تجاویز موجود ہوں گی جن کا مقصد معروف آئینی طریقوں کے ذریعے عوام کی نمائندہ گورنمنٹ تشکیل دینے کے برعکس طاقت کے مراکز کے ساتھ خفیہ ڈیل کے ذریعے ایسی کمزور حکومت کا قیام شامل ہو گا جس سے نہ صرف 2018 ء کے متنازع انتخابات کو وسیع سیاسی توثیق ملے بلکہ پی ٹی آئی گورنمنٹ کی ناکامیوں کا سارا ملبہ بھی اپوزیشن (اقتدار کی حریص)کے کاندھوں پہ آ گرے گا۔ایسی ہر مساعی دراصل ہمارے سیاسی تمدن کے مروجہ Status quoکو برقرار رکھنے کی کوششوں کے مترادف ہو گی۔اگرچہ اب سوشل میڈیا کی طلسماتی ابلاغی ٹیکنالوجی کی وسعت اور عالمی سطح پہ رونما ہونے والے کئی غیرمعمولی واقعات کی بدولت ہمارے سماج اور سیاستدانوں کی سوچ میں کئی جوہری تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں اس لئے ماضی کے سیاسی جمود کے تسلسل کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
ہماری کہنہ مشق لیڈر شپ نے جمہوری آزادیوں اور شفاف انتخابی عمل کے حصول کا جو ہدف متعین کیا اسے پانے کی بجائے اگر دوبارہ سودا بازی کی اسی فرسودہ سیاست کی طرف پلٹنے کی غلطی کی تو ان کی قربانیاں اور پوری جدوجہد رائیگاں چلی جائے گی جس سے دنیا بھر میں اس عظیم قوم کی انسانی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔لاریب‘تمام تر دعوؤں کے باوجود پی ٹی آئی گورنمنٹ خود تو کوئی مثبت تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی لیکن اسی پارٹی کے جارحانہ کلچر نے قومی سیاست میں ایسے بے حجاب مزاحمتی رجحانات کی داغ بیل ڈالی جو بالآخر یہاں بنیادی سیاسی تبدیلیوں کا محرک بن گئے۔بہرحال اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آصف علی زرداری اس وقت تحریک انصاف کی ناکامیوں کے آسیب سے جان چھڑانے کے لیے میدان ِکار زار میں مزاحمت کرنے والی اپوزیشن جماعتوں کی اعانت کے طلبگار ہیں لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت نے 2018 ء کے سیاسی بندوبست کی بڑی بینی فشری بن کر اپنے سیاسی مستقبل کو خود پی ٹی آئی کی سیاست کے ساتھ یوں وابستہ کر لیا کہ دونوں جماعتوں کو یکساں انجام سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔پیپلزپارٹی کا مخمصہ بھی یہی ہے کہ وہ منصفانہ الیکشن کے نتیجے میں وفاقی حکومت حاصل کر سکتی ہے نہ شفاف انتخابی عمل کے ذریعے بلاول بھٹوزرداری کے وزیراعظم بننے کا کوئی امکان موجود ہے‘اس لیے وہ مقامی اور عالمی مقتدرہ کے ساتھ سمجھوتوں کے ذریعے ایوانِ اقتدار تک رسائی کی خواہشمند ہے‘ لیکن بدقسمتی سے فی الوقت اس کی سودا بازی کی پوزیشن اس قدر کمزور ہے کہ یہاں طاقتور سیاسی گروپوں کی موجودگی میں ملکی و عالمی مقتدرہ اسے اتنا کچھ دینے کی روادار نہیں ہو سکتی جتنی پی پی پی کی توقعات ہیں؛چنانچہ اسی ناموافق ماحول سے اُکتا کر آصف علی زرداری کبھی کبھی سندھ کارڈ استعمال کرنے کی دھمکیاں دینے پر بھی اتر آتے ہیں لیکن سندھ میں قوم پرستی کی سیاست کرنے والے گروہوں کے پیپلزپارٹی کے ساتھ مراسم اتنے خوشگوار کبھی نہیں رہے کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کی دم توڑتی سیاست کو کندھا فراہم کرنے کو تیار ہو جائی۔پچھلے چالیس برسوں میں پیپلزپارٹی نے سندھی قوم پرستی کی بیخ کنی کی قیمت پر دو بار وفاق میں بے اختیار گورنمنٹ حاصل کرنے کے علاوہ گزشتہ 13 برسوں سے سندھ میں بلاشرکت غیرے لیلائے اقتدار سے ہم آغوش رہنے کے مزے لوٹ رہی ہے‘اس لئے یہ بھی ممکن ہے آئندہ الیکشن میں ایم کیوایم کے تمام دھڑوں سمیت پیر آف پگاڑا کا جئے سندھ ڈیموکریٹک الائنس بھی مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے ساتھ مل کر اندرون سندھ کی سیاست پہ پیپلزپارٹی کے طویل سیاسی قبضے کو تحلیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔