میرا بچپن مری‘ بھوربن میں گزرا ‘ وہاں رہنا اور پڑھنا آسان نہیں تھا۔ امی روز دادا کو فون کرتیں اورکہتیں کہ انہیں یہاں نہیں رہنا ‘واپس اسلام آباد یا کراچی جانا ہے۔ وہاں گیس نہیں تھی‘ بجلی چلی جاتی تھی ‘ امی کی ہمت ہے کہ وہ سارے گھریلو معاملات کو دیکھتی تھیں۔ یہ ان کا پہلا تجربہ تھا کہ وہ پہاڑوں پر تھیں‘تاہم علاقائی لوگوں نے ہمارا ساتھ دیا اور خیال بھی رکھا۔اس کے بعد جب واپس اسلام آباد آئے تو بھی میرے ابو ہر ہفتے ہمیں مری یا بھوربن لے جاتے۔ اب امی ابو ضعیف ہوگئے ہیں ‘ان کو ہم کہتے ہیں کہ ساتھ چلیں مری یا بھوربن تو وہ کہتے ہیں: اب سردی برداشت نہیں ہوتی نہ سفر ہوتا ہے۔
اس ہفتے جب موسم کی پیش گوئی دیکھی کہ مری‘ بھوربن میں برف باری اور اسلام آباد میں بارش ہو گی تو میں نے سوچا کیوں نا جمعہ سے اتوار بھوربن میں گزارا جائے۔ میں نے فیملی گروپ میں پوچھا کہ پلان کریں اور بکنگ کے لیے مینجر سے رابطہ کیا‘تاہم جب میں نے منگل کو ہزاروں گاڑیاں مری پہنچنے کی خبر دیکھی تو میں نے پلان کینسل کردیا کیونکہ مجھے ٹریفک جام میں شدید کوفت ہوتی ہے۔ اپنے فیس بک فرینڈز اور واٹس ایپ سٹیٹس پر بھی لوگوں کو خبردار کیا کہ اگلے پانچ دن برف باری ہے ‘گلیات کی طرف مت جائیں۔
عوام کی دوڑ مری تک ہی ہے۔ ہر کوئی دبئی لندن جانا افورڈ نہیں کرسکتا اس لئے عوام مقامی سیاحتی مقامات پر ہی جائیں گے۔کورونا کی وجہ سے لوگ ایک طویل عرصے سے تفریح نہیں کرسکے اس لئے اب وہ گھومنا پھرنا چاہتے ہیں‘ تاہم پاکستان میں تفریح بھی مہنگی پڑتی ہے۔ مری کی برف سیاحوں کے لیے قبر ثابت ہوئی اور متعدد سیاح برف باری‘ ٹھنڈ اور دم گھٹن کی وجہ سے اپنی جان کی بازی ہار گئے۔کیا انتظامیہ اس بات سے آگاہ نہیں تھی کہ موسم کی کیا صورتحال ہے‘ مری اتنے سیاحوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا‘ وہاں قیام و طعام کی کیا صورتحال ہے‘ وہاں کتنے افراد رہ سکتے ہیں‘ کتنی گاڑیاں داخل ہوسکتی ہیں ‘یہ سب کام انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت سردیوں کی چھٹیاں چل رہی ہیں‘ بچے والدین سے ضد کرتے ہیں کہ انہیں گھومنا ہے اس وقت انتظامیہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کو آگاہ کریں کہ کس جگہ جانا مناسب ہے‘ کسی جگہ نہیں۔موسم کا حال بتائیں‘ سڑکوں کی صورتحال بتائیں اور سیاحوں کو ان تفریحی مقامات پر جانے سے روکیں جہاں حد سے زیادہ سیاح چلے گئے ہوں۔ مری اور بھوربن ایک چھوٹے ہل سٹیشن ہیں‘ پورے ملک کے سیاحوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ انتظامیہ نے پہلے سے حکمت عملی کیوں نہیں بنائی‘ پہلے سے انتظامات کیوں نہیں کئے؟حب ایک المیے اور سانحے نے جنم لے لیا تو انتظامیہ حرکت میں آئی‘ پہلے حکومت کہاں تھی؟مری میں 21افرادجاں بحق ہوچکے ہیں‘ ایک پورا خاندان بچوں سمیت جہانِ فانی سے کوچ کرگیا۔ بہت سے لوگ جو سڑکوں پر تھے ان تک مدد نہیں پہنچی ‘ٹریفک جام میں شدید سردی کے باعث سیاح محصور ہوکر رہ گئے۔وہاں سے ایک سیاح نے ویڈیو اپ لوڈ کرکے سب سے اپیل کی کہ مری کا رخ نہ کیا جائے ‘ یہاں حالات ٹھیک نہیں۔اکثر مری اور بھوربن میں موبائل کے سگنل بھی ٹھیک نہیں ہوتے اور انٹرنیٹ بھی کام نہیں کرتا۔ اس دوران آپ سوچ سکتے ہیں سیاحوں نے جمعہ کی رات کیسے گزاری ہوگی؟نہ پانی‘ نہ کھانا ‘نہ انٹرنیٹ اور نہ ہیٹر۔ سردی میں کانپتے لوگوں کے لیے یہ رات زندگی کی مشکل ترین رات ہوگی۔وہ لوگ جو تفریح کے لیے گئے تھے ان کے لیے یہ تفریح جاں لیوا بن گئی۔ اے ایس آئی نوید اسلام آباد پولیس سے تعلق رکھتے تھے‘ وہ اپنے اہل خانہ سمیت مری تفریح کے لیے گئے‘ راستے میں برف باری اور ٹریفک جام میں گاڑی میں جاں بحق ہوگئے۔ ان کے اور ان کے بچوں کی ویڈیو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس ملک میں غریب عوام تفریح بھی نہیں کرسکتا‘ اس ملک میں صرف امیروں کو زندہ رہنے کا حق ہے‘ دبا کر کرپشن کریں اور سردیوں گرمیوں کی چھٹیاں باہر کے ممالک میں منائیں۔ کرپٹ امیروں کی وجہ سے عوام کے لیے نئے تفریحی مقامات نہیں بن سکے کیونکہ جو پیسے عوام کی فلاح کے لیے لگنے تھے وہ یہ لوٹ کر لے گئے اور آج تک سیاحوں کے لیے نئے تفریح مقامات نہیں کھل سکے۔ کیا پاکستانیوں کو تفریح کا حق بھی حاصل نہیں؟بالکل ہے‘ اچھے پارک‘ ہوٹلز پر ان کا بھی حق ہے‘کسی سیاحتی مقام کو بند کردینا مسئلے کا حل نہیں‘ اس وقت انتظامیہ کو چاہیے کہ سیاحوں کو آرمی اور دیگر اداروں کے ریسٹ ہاؤسز میں ٹھہرائے۔ائیر لفٹ سے اور سڑکوں کو صاف کرکے سیاحوں کو واپس بھجوائیں‘ فوری طور پر ادویات‘ کمبل ‘پانی اور کھانا سیاحوں کو دیا جائے۔
مری کے لوگوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اس مشکل گھڑی میں سیاحوں کی مدد کریں۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ مری‘ بھوربن کے لوگ بہت ملنسار اور مددگار ہیں۔ سانحہ مری جس میں 21 لوگ اپنی جانوں سے گئے اس کی ذمہ داری حکومت اور انتظامیہ پر ہے۔ جب چھٹیوں کے دوران برف باری کی پیش گوئی تھی تو پہلے سے انتظامات کیوں نہیں کئے گئے۔ سیاحوں کو جانے سے روکا کیوں نہیں گیا؟سیاحوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی ذمہ دار شہری ہونے کاثبوت دیں اور رش میں جانے سے گریز کریں۔ سرد علاقوں کا سفر کرتے ہوئے پٹرول کا ٹینک فل کرائیں ‘ گاڑی میں پینے کا پانی اور کھانے کی اشیا رکھیں۔ موسم کے مطابق کپڑے اور کمبل بھی ساتھ لے جائیں۔ حکومت فوری طور پر نئے سیاحتی مقامات پر کام کرے جن میں فورٹ منرو ‘ کوٹلی ستیاں‘ شاہ اللہ دتہ ایسے مقامات ہیں جہاں سیاح موسم کا لطف اٹھائیں اور چھٹیاں گزاریں۔
اس وقت نتھیا گلی کے تاجروں نے اپنے ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کے دروازے سیاحوں کے لیے کھول دیے ہیں ‘یہ پیسے کمانے کا وقت نہیں ہے یہ انسانیت ثابت کرنے کا وقت ہے۔ اس کے ساتھ حکومت نے بھی امدادی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔ مری میں پھنسے لوگوں کو نکالا جارہا ہے۔ امدادی اداروں نے بھی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے‘ تاہم سانحات ہونے سے پہلے کیوں نہیں کچھ کیا جاتا ؟ اگر انتظامیہ پہلے سے انتظام کرلیتی تو ایسا نہ ہوتا۔ غریب عوام کے پاس زیادہ مواقع نہیں ہوتے اس لیے وہ ساری زندگی ایک ہی جیسے مقامات پر تفریح کے لیے جاتے ہیں ‘وہ بھی سال میں ایک یا دو بار۔ اس سے زیادہ ان کا بجٹ نہیں ہوتا۔ حکومت یہاں پر سرکاری ریسٹ ہاؤسز کو کھولے اسلام آباد سے شٹل سروس چلے اور وہ سیاحوں کو سرکاری ریسٹ ہاؤسز لے جائے ‘وہاں سے واپس لے کر آئیں۔ اس کے ساتھ مال روڈ پر سیاحوں کے لیے گالف کار جیسی سروس ہونی چاہے تاکہ اس ہل سٹیشن پر گاڑیوں کا بوجھ کم ہو۔مری پر سیاحوں کا بوجھ ایسے ہی رہے گا جب تک نئے تفریحی مقامات نہیں بنائے جائیں گے۔ ہم سیاحوں کو کب تک سڑک بند کرکے روک سکتے ہیں ‘یہ مسئلے کا حل نہیں۔ اس کے ساتھ امدادی سرگرمیوں میں ہمیشہ فوج کو بلایا جاتا ہے‘ ہمیں چاہیے کہ سویلین ریسکیو کے اداروں کو فعال کریں تاکہ انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جائے۔
سیاح کیا چاہتے ہیں سڑک اچھی ہو‘ راستہ محفوظ ہو‘ قیام و طعام کی سہولیات اچھی ہوں‘ پٹرول پمپ ہوں ‘ ریسٹ ایریاز ہوں اور انٹرنیٹ کی سہولت ہو۔سیاح فوٹوگرافی کرسکیں انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرسکیں کوئی انکو تنگ نہ کرے‘ ان کا جان و مال محفوظ رہے۔ سیاحتی مقام پر نرخ کم ہونے چاہئیں۔اگر بارش برف باری میں جانا مقصود ہے تو گاڑی کی رفتار کم رکھیں۔ ساتھ برساتی اور چھتری رکھیں ‘ اگر طوفان آجائے تو کسی ریسٹ ایریا میں رک جائیں۔شاہراہوں پر غیر ضروری طور پر گاڑی روک کر راستہ بلاک مت کریں۔پہاڑی علاقے میں صرف ٹریک پر واک کریں ساتھ پانی اور چھڑی رکھیں۔ہرگز ویرانے میں مت جائیں ۔
سانحہ مری کسی ویرانے میں نہیں ہوا یہ ایک آبادی والی جگہ پر ہوا ہے اور افسوس ہے کہ سیاحوں تک بروقت امداد نہیں پہنچی۔ کورونا سے ستائے ہوئے عوام کو تفریح کی ضرورت ہے‘ ان کو تفریح کے مواقع دیں‘ ان کو موت کے منہ میں مت جانے دیں۔ جب بھی برف کی جگہ میں پھنس جائیں تو ہیٹر چلا کر مت سوئیں‘ انجن بھی بند کردیں کیونکہ اموات سردی سے نہیں دم گھٹنے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ سفر موسم کی صورتحال دیکھ کر پلان کریں تاکہ ناخوشگوار صورتحال سے بچا جائے۔