2018ء کے انتخابات کو اپوزیشن کی جانب سے پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا جا رہا اور تین ‘چار دھرنوں اور ریلیوں کے بعد اب خیر سے مارچ میں اپوزیشن کے ہر گروپ کی جانب سے ایک نیا دھرنا اور احتجاج شروع کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ملکی انتخابات کی تاریخ کچھ خوشگوار نہیں رہی کیونکہ اس میں پسند نا پسند کا خیال رکھا جاتا تھا۔ 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کو پاکستان کی تمام سیا سی جماعتوں نے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ انتہائی خوش دلی سے تسلیم کیا جس کی تکرار آج بھی جاری ہے اور ان انتخابات کو پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلے منصفانہ اور شفاف انتخابات کا اعزاز بھی حاصل ہے ان انتخابات کے ملکی تاریخ پر کیا اثرات ہوئے یہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے‘ ایک ایسی تاریخ جس نے ملک کے ایک حصے کو الگ کر دیا۔1970ء کے بعد ایک اور انتخابی مرحلہ 1977 ء میں پیش آیا جس نے ملک کو آگ اور خون میں نہلا دیا اور قریب تھا کہ ملک ایک او رحادثے کا شکار ہو تا کہ افواج پاکستان نے عوام کے بھر پور مطالبے پر مداخلت کرتے ہوئے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔اس مارشل لاء کوآج خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اورقومی اتحاد کی تمام مذہبی اور سیا سی جماعتوں کا جم غفیر پاکستان کے ہر شہر قصبے اور دیہات میں ایک دوسرے کے آمنے سا منے چھریاں‘ چاقو اور مختلف قسم کے آتشیں ہتھیار لیے ایک دوسرے کے گھروں اوردکانوں پر اس طرح حملے کررہا تھا جیسے کوئی خانہ جنگی ہو رہی ہو۔ لاہور میں پی پی پی کے مشہور لیڈر طارق وحید بٹ اور لاہور ہوٹل چوک کی آسٹریلیشیا بلڈنگ میں ہونے والی دست بدست لڑائی اور آگ کا طوفان بہت سے ذہنوں سے ابھی تک محو نہیں ہوا ہو گا۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے بعد 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد 88ء،90ء، 93ء،97ء‘ 2002ء‘2008ء2013ء اور 2018ء کے جو انتخابات ہوئے ان کے بارے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ جب جب میثاق جمہوریت کے کسی ایک فریق کی مدد سے دوسرے کی حکومت وقت سے پہلے گرائی جاتی وہ جانے سے پہلے ملکی خزانے کے ساتھ وہ سلوک کر جاتا کہ آنے والا چند دنوں بعد ہی ہانپنے لگتا ۔ خزانے پر یہ بوجھ نواز لیگ سب سے زیا دہ ڈالتی رہی۔ جیسا کہ اس نے2018ء کے انتخابات سے پہلے کیا ۔ شاہد خاقان عبا سی گواہ ہیں کہ تین سے چارارب ڈالر کی کچھ ادائیگیاں کرنا ضروری تھیں‘ جب اس بارے بطور وزیر اعظم شاہد خاقان عبا سی نے اسحاق ڈار کو کہا تو اس وقت تو وہ چپ رہے لیکن اگلے دن میاں نواز شریف نے عباسی کو کہا: کیا اگلی حکومت ہماری آئے گی ؟جو اگلی حکومت لائی جا رہی ہے یہ اسے کرنے دیں ‘ یہ رقم آپ ملک میں سڑکوں اور ارکان پارلیمنٹ کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں پر خرچ کر دیں۔اگر کوئی مجھ سے ملکی معاملات کے اس حد تک خرابی کے متعلق تفصیل سے بحث کرے تو تمام تفصیلات سامنے رکھ دوں گا۔
بات ہو رہی تھی ملک میں ہونے والے عام نتخابات کی تو اخبارات کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ ہر انتخاب پر کبھی پیپلز پارٹی نے احتجاج کیا تو کبھی نواز لیگ نے۔1990ء کے انتخابات میں مقابلہ اس وقت کے متحارب گروپوں پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی کے درمیان ہوا۔ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست ہوئی جس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے الزام لگایا کہ ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔محترمہ کا الزام یہ تھا کہ پنجاب میں سرکاری مشینری اور وسائل کو پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا گیا( سپریم کورٹ میں تین دہائیوں سے چلنے والا مہران بینک کا مشہور کیس سب کے سامنے ہے) پولنگ کے بعد انتخابی نتائج آئی جے آئی کے حق میں بد لے گئے۔ اس وقت پنجاب میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ کے طور پرکام کر رہے تھے۔
1990ء کے بعد 1993ء کے انتخابات منعقد ہوئے۔ اس وقت معین قریشی نگران وزیر اعظم بنے ‘ان کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوں گے ۔ ان انتخابات کے نتائج پیپلز پارٹی کے حق میں تھے لیکن اس وقت مسلم لیگ نواز نے ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیااوران انتخابات کے خلاف صرف تین ماہ بعد ہی تحریک نجات کے نام سے احتجاجی تحریک شروع کر دی گئی۔ 6 نومبر 1996ء کو اس وقت کے صدر سردار فاروق لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو بر طرف کر دیا اور تین فروری 1997ء کو عام انتخابات کا اعلان کر دیا ۔جماعت اسلامی نے حیرت انگیز طور پر 29 جنوری 1997ء کو ان انتخابات کے بائیکاٹ کا ا علان کرتے ہوئے کہا کہ وہ چار جنوری 1997ء کو پشاور سے انتخابات کے بائیکاٹ کی تحریک شروع کریں گے لیکن اس میں حسب معمول جماعت جیسی تیزی دیکھنے کو نہیں ملی‘ نہ جانے کیوں۔مسلم لیگ نواز کو ان انتخابات میں اس طرح بھاری اوریک طرفہ اکثریت دلائی گئی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ پنجاب میں اپوزیشن کے صرف چھ رکن تھے وہ بھی سارا عرصہ میاں شہباز شریف کے تابع فرمان بن کر رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر تے ہوئے ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ ان کے خلاف سائنٹیفک دھاندلی کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو تبدیل کیا گیا ہے ۔ ان انتخابات کا پس منظر جاننے کیلئے ملک کے چار سینئر صحافیوں کے ملکی ٹی وی پر دیے جانے والے متعدد انٹرویوز اور پروگرام سب کچھ بتاچکے ہیں کہ نواز شریف کی رہائش گاہ کے دورے کے بعد جولائی1990ء کی ایک دوپہر سینئر صحافیوں کو مری کے بھور بن ہوٹل میں کھانے پر بلایا گیا جہاں ان سے درخواست کی گئی کہ ہماری حکومت بننے جا رہی ہے آپ سے درخواست ہے کہ پہلے چھ ماہ آپ نے ہم پر کوئی تنقید نہیں کرنی بلکہ ہمارا ساتھ دینا ہے جس پر یہ صحافی میاں نواز شریف اور خواجہ آصف کی یہ بات سن کر قدرے حیران ہوئے۔ اس لنچ کے شرکا صحافی اس واقعے کا تذکرہ اکثر کرتے رہتے ہیں۔ اب یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ1997ء کے یہ انتخابات کس طرح کرائے گئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کس نے ‘ کیوں اور کیسے گرائی؟
2008ء کے وہ انتخابات جس میں پی پی کی کامیابی کی صورت میں آصف علی زرداری صدر پاکستان بن گئے‘ ان انتخابات کی کہانی چوہدری پرویز الٰہی لاہور اور اسلام آباد میں کی جانے والی اپنی پریس کانفرنسوں میں کھل کر بیان کر چکے ہیں کہ کس طرح امریکی سینیٹرز کا وفد امریکی سفیر کے ہمراہ ان کی رہائش گاہ پر پہنچا اور صاف الفاظ میں انہیں کہا کہ اگر (ق) لیگ جیت بھی گئی تویہ نتائج تسلیم نہیں کئے جائیں گے ‘ یہ ذہن میں رکھئے ۔ اب چلتے ہیں2013ء کے انتخابات کی جانب جن کے بارے میں میثاق جمہوریت کے دونوں فریقین کو اچھی طرح علم تھا اور وہ ہر پلان سے با خبر تھے کہ دوسری باری میاں نواز شریف کو دینے کے عہد و پیمان لندن میں میثاق جمہوریت کے سمجھوتے کے دوران ہی کئے گئے تھے لیکن ان انتخابات کے تیسرے جب نواز لیگ جشن منا رہی تھی‘اُس و قت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری کے کہے گئے یہ الفاظ کیسے مٹا ئے جائیں‘ کیسے جھٹلا دیئے جائیں کہ یہ ROs کے انتخابات تھے۔2013ء کے انتخابات کی کہانی بھی عجیب ہے‘ یہ بھی کسی کے ایجنڈے کا حصہ تھے اور راقم کو انتخابات والے دن دس بجے ہی پتہ چل گیاتھا کہ کیا اور کیسے ہونے جا رہا ہے جس پر تحریک انصاف کی سٹریٹجی کمیٹی کے فرید الدین جو سابق کمشنر رہ چکے ہیں کو فون کیا لیکن انہوں نے بے بسی ظاہر کردی جس پر شفقت محمود اور میاں محمود الرشید کو اس پلان کی خبر د‘ی نتیجہ یہ نکلا کہ یہ دونوں لاہور سے جیت گئے۔