اقتدار کے ایوانوں سے لے کر گھروں کے ڈرائنگ رومز تک آج کل جو موضوع زیر بحث ہے وہ منی بجٹ اور مریم نواز کے آڈیو کلپس ہیں۔ اپوزیشن نے منی بجٹ کو مسترد کیا ہے اور اسے عوام کے لیے مہنگائی کا ایٹم بم قرار دیا ہے جبکہ حکومت کا زور مریم نواز کے آڈیو کلپس کی تشہیر پر ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرکار عوام کی توجہ اصل مدعے سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہے۔ بحیثیت حکمران مسائل کا حل پیش کرنا اہلِ اقتدار کی اولین ذمہ داری ہے لیکن وزیراعظم کے اکنامک سٹریٹیجک گروپ کی حالیہ میٹنگ کا ایجنڈا یہ سامنے آیا ہے کہ عوام میں حکومتی معاشی پالیسیوں کو کس طرح مثبت انداز میں پیش کیا جائے۔ نو نجی ارکان پر مشتمل اس گروپ کی اکثریت نے مشورہ دیا ہے کہ الیکٹرانک‘ پرنٹ اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا پر کامیاب معاشی فیصلوں کی تشہیر کی جائے۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم بھی اس سے متفق دکھائی دیے‘لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ تمام ممبرز وزیراعظم کو یہ سچ بتانے سے قاصر رہے کہ پچھلے پانچ ماہ سے مہنگائی میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے۔ پچھلے ماہ یہ سوا بارہ فیصد تھی اور اس مہینے کے اختتام پر یہ ساڑھے تیرہ فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ ان زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے تصویر کا صرف ایک رُخ دکھانا عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہنگائی میں کمی اور عوامی مسائل کا حل سرکار کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اس کا اندازہ سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو کے چھ نومبر کو منعقد ہونے والے اجلاس کے ذریعے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس میٹنگ کا مقصد منی بجٹ کو زیر بحث لانا تھا جس میں اپوزیشن کی رائے بھی شامل کی جاتی ہے لیکن حکومت کی عدم دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ وزیرخزانہ سمیت کوئی بھی قابلِ ذکر حکومتی نمائندہ موجود نہیں تھا‘ چیئرمین ایف بی آر اشفاق صاحب بھی حاضری لگوا کر چلتے بنے حالانکہ کمیٹی کا اجلاس ہی سیلز ٹیکس سے متعلق تھا۔ (ن) لیگ کے مصدق ملک صاحب نے حکومتی غیر سنجیدہ رویے کی جانب توجہ مبذول کروائی۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کے پیسوں سے یہ اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں جب حکومت ہی میٹنگ میں موجود نہیں ہے تو ہمیں تجاویز دینے کا کیا فائدہ۔ سینیٹر طلحہ محمود نے اس میٹنگ کی سربراہی کی۔ ان کی جانب سے کمیٹی ارکان کو یقین دہانی کروائی گئی کہ شوکت ترین صاحب سے اس حوالے سے گفتگو ہوئی ہے انہوں نے کمیٹی کی تجاویز پر عمل درآمد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس یقین دہانی کے بعد کمیٹی کی کارروائی شروع ہوئی جس میں کئی اشیا پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی مخالفت کی گئی جن میں قابل ذکر بچوں کا دودھ‘ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو دیے جانے والے عطیات‘ بائیسکل‘ ماچس وغیرہ جیسی بنیادی اشیا شامل ہیں۔ حکومتی دعویٰ ہے کہ درآمد کیے جانے والے دودھ پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے اس سے مقامی دودھ کی قیمتوں پر اثر نہیں پڑے گا لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ مارکیٹ میں مقامی طور پر تیار کیے جانے والے خشک دودھ کی قیمت بھی درآمدی دودھ کی قیمت کے مطابق طے کی جاتی ہے۔ سرکار کی پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر مؤثر ہونے کی وجہ سے مقامی دودھ کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سکولوں اور ہسپتالوں کو اشیا کی مد میں دیے جانے والے عطیات پر 17 فیصد ٹیکس غریب آدمی کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ حکومت ایک طرف 10 لاکھ روپے مالیت کے صحت کارڈ سندھ کے سوا پورے ملک میں تقسیم کر رہی ہے تا کہ بلا تفریق ہر امیر‘ غریب کا مفت علاج ہو سکے اور دوسری طرف ڈونیشن پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف عام آدمی متاثر ہو گا بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان دنیا میں فی کس آمدنی کے حساب سے سب سے زیادہ ڈونیشن دینے والے ممالک میں شامل ہے۔ سٹینفورڈ سکول آف انوویشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان صدقہ خیرات کرنے کے حوالے سے برطانیہ‘ کینیڈا سمیت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستانی عوام جی ڈی پی کے ایک فیصد سے زیادہ ڈونیشن دیتے ہیں۔Pakistan Centre for Philanthropy کے مطابق پاکستانی ایک سال میں تقریباً دو ارب ڈالرز سے زیادہ صدقہ‘ زکواۃ‘ خیرات اور دیگر فلاحی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق تقریباً 98 فیصد پاکستانی خیرات دیتے ہیں جس میں ایک بڑا حصہ اشیا کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ اکثر صاحبِ حیثیت لوگ کیش دینے کی بجائے ہسپتالوں کو کروڑوں روپے کی مشینری ڈونیٹ کرتے ہیں۔ منی بجٹ میں 17 فیصد ٹیکس لاگو کرنے سے فلاح کے ان کاموں میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔کمیٹی کااسے مسترد کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے لیکن حکومت ان فیصلوں کو ماننے کی پابند نہیں ہے۔ اگر فلاحی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خیرات پر سیلز ٹیکس کا نفاذ نہ ہونا حکومت ‘ ملک اور عوام کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
جہاں منی بجٹ پر کئی اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں وہاں کچھ شعبے ایسے بھی ہیں جنہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی حکومتی تجویز درست دکھائی دیتی ہے۔ سونے ‘ ہیرے اور دیگر قیمتی زیورات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے فنانس نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے لیکن ایف بی آر نے جو اعدادوشمارپیش کیے ہیں وہ پریشان کن ہیں۔ ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں سونے کے کاروبار کا حجم تقریباً 2.2 کھرب روپے ہے جس میں سے صرف 29 ارب روپے کا کاروبار ڈکلیئر ہے۔ تقریباً 36 ہزار سونے کے بیوپاری ایف بی آر میں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے صرف 54 ایکٹو ٹیکس گزاروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں سالانہ 160 ٹن سونا استعمال کیا جاتا ہے جس میں سے 80 ٹن سونا سمگل کیا جاتا ہے۔ یہ اعدادوشمار پاکستان کے ٹیکس نظام پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ ایف بی آر کے پاس یہ اعدادوشمار ہونے کے باوجود سونے کے سمگلروں اور ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی؟ کیوں آج تک ایسی پالیسی نہیں بنائی جا سکی جس سے یہ مافیا ٹیکس نیٹ میں آ سکے؟ مجھے یاد ہے کہ ایف بی آر کے سابق سربراہ شبر زیدی نے سونے کے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے تھے۔ انہیں رجسٹرڈ کرنے کے لیے ایمنسٹی سکیم میں ہنگامی بنیادوں پر پالیسی بنائی گئی تھی اور ریٹرن میں سپیشل کالم شامل کروایا گیا تھا لیکن اس کے بعد انہیں وزرات سے ہاتھ دھونے پڑے۔ شاید یہ مافیا ہی اتنا مضبوط ہے۔ گولڈ ایسوسی ایشن سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے سارا ملبہ سرکار کے کندھوں پر ڈال دیا۔ان کے مطابق سونے کے تاجر حکومت کو ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں لیکن بدقسمتی سے سرکار آج تک اس حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنا سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ سونے کی سمگلنگ روکنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت سونے کی تجارت کو اپنے ہاتھ میں لے‘ ملک میں جتنا بھی سونا آتا ہے وہ سرکار خریدے اور سرکار سے بیوپاری اور عوام خریدیں جیسا کہ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔حکومت پاکستان ایک گولڈ بینک بنائے‘ بڑے شہروں میں اس کی برانچیں قائم کی جائیں۔عوام شناختی کارڈ دکھا کر اور انگوٹھے کے نشان کی آن لائن تصدیق کے ساتھ سونا خریدیں۔ یہ نظام سادہ بھی ہے اور مؤثر بھی۔ اس سے ایک طرف کالے دھن کو چھپانا مشکل ہو سکتا ہے اور دوسری طرف ٹیکس آمدن میں اضافے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔مگرتجاویز چاہے قائمہ کمیٹی کی ہوں یا ایسوسی ایشنز کی ان کا ملک کو فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر حکومت عام آدمی کو حقیقی ریلیف دینے اور نظام کو صاف ‘ شفاف اور مؤثر بنانے کے لیے سنجیدہ ہو۔ منی بجٹ اور وزیراعظم کے اکنامک سٹریٹیجک اجلاس کے فیصلوں بعد جس کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں۔