نئے سال کے آغاز پر نیک خواہشات کا تبادلہ اور امید افزا بیانات ایک روایت ہے۔ حکمران تحریک انصاف کے رہنماؤں نے قوم کو داخلی سماجی و اقتصادی حالات میں بہتری کی نئی امید دلائی ہے؛ تاہم اس امید افزائی پر بہت کم لوگوں کو یقین ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کو پچھلے سال جن اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے کچھ نئے سال میں بھی سنگین مسائل کے طور پر جاری رہیں گے۔ کچھ اقتصادی ترقی ہو سکتی ہے، جیسے جی ڈی پی میں معمولی بہتری‘ لیکن معاشی عدم مساوات برقرار رہے گی، اور عام لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں معاشی مشکلات کا سامنا کرتے رہیں گے۔
پاکستان نئے سال میں بھی کورونا وائرس کے چیلنج کا سامنا کرتا رہے گا۔ اومیکرون کی تازہ ترین لہر 2022 میں نئے خدشات کو جنم دے گی؛ تاہم توقع ہے کہ حالات قابو میں رہیں گے۔ پاکستان میں فروری 2020 کے آخری ہفتے میں کووڈ19 کا پہلا مریض سامنے آیا تھا‘ مارچ اپریل 2020 میں مکمل لاک ڈاؤن لگا دیا گیا تھا‘ جس کی وجہ سے ان لوگوں کیلئے شدید مشکلات پیدا ہوئیں جو روزی کمانے کے ذرائع سے محروم ہو گئے تھے لہٰذا پاکستان نے پھر منتخب یا سمارٹ لاک ڈاؤن اختیار کر لیا جس میں شہر اور اس کی تجارتی زندگی کو مکمل طور پر بند کرنے کے بجائے صرف ان علاقوں میں لاک ڈاؤن لگایا گیا‘ جہاں کووڈ19 کے کیسز سامنے آتے تھے۔
جیسے ہی پاکستان 2020 سے 2021 میں داخل ہوا‘ کورونا وائرس کی دونوں لہروں کی شدت میں کمی آئی جس سے لوگوں کو کچھ راحت ملی لیکن یہ ریلیف قلیل مدتی ثابت ہوئی کیونکہ پاکستان نے 2021 میں کورونا وائرس کی مزید دو لہروں کا تجربہ کیا۔ ایک اہم پیشرفت پچھلے سال مارچ میں چینی ویکسین کی آمد تھی۔ چینی ویکسین جزوی طور پر تحفہ تھی اور جزوی طور پر پاکستان نے خریدی تھی۔ امریکیوں اور برطانویوں کی بنائی ہوئی ویکسین کئی ماہ بعد کم مقدار میں یہاں پہنچی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے سود کی شرح میں کمی کرتے ہوئے بینکوں کو کاروباری اداروں کو کم شرح پر قرضے دینے کی اجازت دی تاکہ وہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کر سکیں۔ غریب خاندانوں کو احساس پروگرام کے تحت کچھ فنڈز فراہم کیے گئے۔ کئی غیرسرکاری رضاکار تنظیموں کے ساتھ ساتھ افراد نے انفرادی طور پر بھی معاشرے کے غریب طبقوں میں کھانے کے پیکیج تقسیم کئے۔ وفاقی حکومت کورونا وائرس کے چیلنج سے قابل تعریف انداز میں نمٹی؛ تاہم معیشت پر کورونا وائرس کے اثرات تباہ کن تھے۔ افراد اور ریاست‘ دونوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ معاشی سرگرمیاں طویل عرصے تک مکمل یا جزوی طور پر معطل رہیں؛ تاہم 2021 کے آخر تک کورونا وائرس پر قابو پا لیا گیا‘ لیکن کووڈ19 کے ویری اینٹ اومیکرون کی تازہ لہر نے اس بات کو مشکوک بنا دیا ہے کہ زندگی کے معمولات اور تجارتی سرگرمیاں‘ دونوں جلد مکمل طور پر بحال ہو سکیں گے۔
حکومت کو 2021 کے دوران سنگین معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان مسائل کی وجہ کچھ کورونا وائرس کے باعث تجارت و کاروبار اور ترقیاتی کاموں میں خلل پڑنا اور کچھ حکومت کی ناقص پالیسیاں تھیں۔ سال کے آخر تک حکومت کیلئے معیشت بڑا دردِ سر بن چکی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے پاس معیشت کو بہتر بنانے کیلئے آئیڈیاز اور اقدامات کا فقدان ہے۔ مسئلہ محض تجارتی توازن، کرنٹ اکاؤنٹ و بجٹ خسارہ، کم صنعتی پیداوار اور غیرملکی قرضوں و گرانٹس پر بہت زیادہ انحصار جیسے میکرولیول معاملات کا ہی نہیں۔ مائیکرولیول پر بھی معیشت کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کے منفی اثرات عام لوگوں پر پڑے۔ مہنگائی اور قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے پی ٹی آئی کے بہت سے حامیوں کو پارٹی سے دور کر دیا ہے۔ حال ہی میں پیش کردہ منی بجٹ میں نئے ٹیکسوں کے نفاذ یا پرانے ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے نئے سال میں قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکومت مارکیٹ فورسز کو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے سے روکنے میں ناکام ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، لیکن اس کی خوراک کی درآمدات میں 2021 میں اضافہ ہوا۔ اس نے چینی، گندم اور کپاس بیرون ملک سے درآمد کیں۔ گندم اور دیگر فصلوں کی بوائی کرنے والے کسانوں نے 2021 کے آخر مہینوں میں مارکیٹ میں کھاد کی قلت کی وجہ سے اس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی شکایت کی۔ یہ مسئلہ 2022 میں بھی زرعی شعبے کو پریشان کرتا رہے گا کیونکہ حکومت کھاد کی ذخیرہ اندوزی یا سمگلنگ روکنے کیلئے موثر اقدامات کرتی دکھائی نہیں دیتی۔
حکومت‘ اور اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پی ایم ایل این اور پی پی پی کے درمیان معاندانہ معاملات کا سلسلہ نئے سال میں بھی جاری رہے گا۔ اگست 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے دن سے اپوزیشن جماعتیں اس (حکومت) کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا رہی ہیں اور اسے ہر ممکن طریقے سے ہٹانے کی باتیں کر رہی ہیں۔ یہ منفی سیاست جاری رہے گی اور اپوزیشن وزیر اعظم کو اقتدار سے ہٹانے کا راگ الاپتی رہے گی۔ حکومت مشکلات کے باوجود قائم رہنے میں کامیاب رہی ہے اور جنوری 2022 میں اس بات کے کوئی آثار نہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے یہ گر جائے؛ البتہ اس کی مشکلات ختم نہیں ہوں گی جس کی بنیادی وجہ اس کی ناقص گورننس، داخلی ہم آہنگی میں کمی اور پالیسیوں کا ناقص نفاذ ہے۔ حزب اختلاف کی بڑی جماعت، پی ایم ایل این نے بار بار جمہوریت کو مضبوط کرنے اور سویلین فوقیت کے احیا کیلئے کام کرنے کا وعدہ کیا، لیکن اس نے اقتدار میں واپسی کے اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور بدعنوانی سے متعلق مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے غیر سیاسی قوتوں کی خیر سگالی حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔ توقع نہیں کہ پارلیمان سیاسی معاملات طے کرنے کا مرکز بنے گی۔ سیاسی کشمکش کا اصل میدان پارلیمنٹ سے باہر ہی رہے گا۔ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس سے نئے سال میں 2020 کی رفتار کو بحال کرنے کی توقع نہیں۔ پاکستانی جمہوریت کا معیار بدستور خراب رہے گا۔
2008 سے 2018 تک وفاقی سطح پر حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل این سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں کے احتساب کے کوئی قابل ذکر نتائج سامنے نہیں آئے۔ ان سے ایک روپیہ بھی وصول نہیں کیا جا سکا‘ جن پر کرپشن اور ریاستی وسائل کے ناجائز استعمال اور قانونی ذرائع سے باہر زندگی گزارنے کے الزامات تھے۔ اس سے احتسابی عمل پر شکوک پیدا ہوئے اور بہت سے لوگ اسے سیاسی انتقام کے طور پر دیکھنے لگے۔ حکومت امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کے مسئلے کو محتاط اور حقیقت پسندانہ انداز میں نمٹنے اور افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کا ایجنڈا پیش کرنے میں کامیاب رہی۔ دسمبر 2021 میں افغانستان کے سوال پر اسلام آباد میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی 17ویں کانفرنس کا انعقاد بھی اتنی ہی مثبت پیشرفت تھی۔ سال 2022 پاکستانی سیاست کی مستقبل کی سمت کیلئے اہم ثابت ہونے والا ہے۔ یہ اگلے عام انتخابات کیلئے سٹیج تیار کرے گا۔ اس لیے حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔ حکومت عام آدمی کی سطح پر اپنی سیاسی ساکھ بحال کر سکتی ہے اگر وہ نئی ہیلتھ انشورنس پالیسی اور احساس پروگرام کے تحت عام لوگوں کو معاشی ریلیف دے، مہنگائی کنٹرول کرے اور کم لاگت والے مکانات فراہم کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرے۔ اپوزیشن کو مستقبل کے لیے متبادل سماجی و اقتصادی پروگرام دینا ہو گا کہ وہ عام لوگوں کے مسائل کیسے حل کر سکتی ہے۔