تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     10-01-2022

مسلم بیانیے کی جیت …(7)

جنگِ حطین میں غازی سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتح کے بعد اسلامی افواج صلیبی جنگجوئوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر چھا گئیں۔ محاصرۂ الکرک‘ مرج عیون کی لڑائی‘ کوکب ھوہ کی تیز رفتار جنگ‘ الفولہ کی جنگ‘ عین جوزہ کی لڑائی‘ صور‘ عکہ‘ ارسوف کی لڑائی‘ یافاکی لڑائی‘ ہما کی جنگ اور مصر پر ایک کے بعد دوسری صلیبی یلغاروں کا دفاع ان جنگوں میں شامل ہے۔ اس سارے عرصے میں غازی سلطان صلاح الدین ایوبی نے صرف ایک قسم کھائی تھی‘ کنگ رینالڈ کو اپنے ہاتھ سے واصلِ جہنم کرنے کی قسم۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رینالڈ نبیٔ آخر الزمان حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخیاں کیا کرتا تھا۔ سال 1187 عیسوی میں صلاح الدین ایوبی کی قسم پوری ہو گئی۔
اس سے 88 سال پہلے 1099 عیسوی میں مغرب کی مسیحی افواج نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا اور یروشلم میں کرسچین حکومت قائم کر رکھی تھی جس کو وہ ''کنگڈم آف ہیون‘‘ کہتے تھے۔ یہ بادشاہی قائم کرنے کے لیے جب صلیبی فوجیں بیت المقدس میں داخل ہوئیں تو اُن کے گھوڑوں کی ٹانگیں بیت المقدس کے بے گناہ مسلمان عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور غیر مسلح مسلم شہریوں کے خون میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ بیت المقدس کی تاریخ کی اس سب سے بڑی خوں ریزی اور مسلمانوں کے قتلِ عام کو خود مغرب کے تحقیق کاروں‘ لکھاریوں‘ یہاں تک کہ فلم سازوں نے بھی ڈاکیومنٹ کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے ممتاز انگریز فلم ساز‘ پروڈیوسر Ridley Scott نے 2005ء میں فلم بنائی۔ اس فلم کا نام بھی 'کنگڈم آف ہیون‘ رکھا گیا اور اس میں کھل کر یہ حقیقت بیان کی گئی کہ صلیبی فوجیوں نے کس طرح بیت المقدس کی گلیوں میں مسلمانوں کے خون کے دریا بہائے تھے۔
حطین کی جنگ میں تاریخی فتح حاصل کرنے کے بعد سلطان صلاح الدین نے آرام کرنے کے بجائے اپنی گھوڑی کو ایڑ لگائی اور ساتھی مجاہدوں کو کہا: ہم بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے جا رہے ہیں۔ قبلہ اوّل کی آزادی کی تڑپ ہر مسلمان کے دل میں ہمیشہ سے تھی (ہے اور رہے گی) اس لیے وہ جذبۂ جہاد جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے مختصر ترین لفظوں نے لشکرِ اسلام میں پیدا کیا وہ دید کے قابل تھا۔ سلطان دن رات ایک کر کے بیت المقدس کے باہر جا پہنچے۔ ایک ہفتے کی مسلسل اور خونریز جنگ کے بعد صلیبی لشکریوں نے ہتھیار ڈال دیے اور سلطان صلاح الدین ایوبی سے اُن پر رحم کرنے کی درخواست کی۔ اس موقع پر صلیبی بادشاہی کے کمان داروں اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوئے۔ اُن کے کچھ حصے Ridley Scott کی 2005ء والی فلم میں شامل کئے گئے ہیں۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے 88 سال بعد بیت المقدس اور قبلہ اوّل کو آزاد کرانے کا عظیم تاریخی کارنامہ سرانجام دیا۔ بیت المقدس میں داخلے کا منظر ویسا ہی تھا جیسا فتح مکہ کا منظر۔ قابض‘ ظالم اور قاتل حکمرانوں اور اُن کے کارندوں کو بھی سلطان نے امان دے دی۔ جو لوگ زرِ فدیہ نہیں ادا کر سکتے تھے اُن کے حصے کی رقم سلطان صلاح الدین اور اُن کے بھائی ملک عادل نے خود ادا کر دی۔ بیت المقدس اور فلسطین پر تقریباً 761 سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ 1948ء میں امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس نے مسلم فلسطین میں یہودی سلطنت قائم کروا دی۔
غازی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس کی آزادی کی خبر مغرب میں پہنچی تو سارے یورپ میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف مسلمانوں سے لڑائی کا بیانیہ‘ ہر ملک میں جنگی ترانے‘ ہتھیاروں کی پروڈکشن اور صلیبی جنگ کی تیاری ہونے لگی۔ جرمنی‘ اٹلی‘ فرانس‘ انگلستان سمیت پورا مغرب اُٹھ کھڑا ہوا۔ انگلستان کا بادشاہ Richard-i‘ لائن ہارٹ اور فرانس کا بادشاہ Phillip Augustus اپنے اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر فلسطین پر حملہ آور ہوئے۔ جرمنی کا بادشاہ Frederick Barbarossa بھی اس مہم میں اُن کے ساتھ تھا۔ لاکھوں فوجی جدید ترین ہتھیاروں اور بارود سے مسلح ہو کر ایک بار پھر بیت المقدس پر قبضے کے لیے چڑھ دوڑے۔ ایسا ماحول بنایا گیا جس میں مسلم مخالف بیانیے کو مسلمانوں کے خاتمے کی آخری جنگ تک پہنچا دیا گیا۔ صلیبی بادشاہ‘ حکمران‘ شہزادے‘ شہزادیاں اور اس قدر لا تعداد فوجیں بھیجیں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ دوسری جانب سلطان صلاح الدین ایوبی کی مدد کسی اسلامی ملک کے سربراہ یا حکمران نے نہ کی۔ اس کے نتیجے میں عکہ کی بندرگاہ صلیبیوں کے قبضے میں چلی گئی۔ عکہ سے شروع کر کے عسقلان کے ساحلی شہر تک پہنچتے پہنچتے تیسری صلیبی جنگ کے اتحادیوں کا سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ 11 12 مختلف مقامات پر شدید جنگی مقابلہ ہوا۔ اس دوران بے شمار علاقوں کے مسلمان قبائلی سردار اور زعما خلیفہ بغداد سے درخواست کرتے رہے کہ وہ بیت المقدس کی آزادی اور فلسطین کے مسلمانوں کے خلاف اس جنگِ عظیم میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی مدد کریں مگر بد قسمتی سے تختِ بغداد کی طرف سے صورتِ حال بقول اقبال ایسی رہی:
مجھے آہ و فغانِ نیم شب کا پھر پیام آیا
تھم اے رہ رو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا
سب سے خوں آشام جنگ تاریخ میں معرکۂ ارسوف کے نام سے محفوظ ہے۔ اس دوران یورپی اور مغربی اتحادی ملکوں کی فوجوں اور ہتھیاروں کے خلاف اسلام کے غازی سلطان صلاح الدین ایوبی نے جواں مردی اور دلیری کی درخشندہ مثالیں قائم کیں۔ سلطان نے عسقلان کا شہر از خود تباہ کر کے ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ اس عرصے میں بیت المقدس کی حفاظت کے سارے انتظامات اور بھرپور تیاریاں مکمل کیں اور مختصر سی فوج کے ساتھ غازی سلطان بیت المقدس میں قلعہ بند ہو گئے۔ تیسری صلیبی جنگ کے مغربی اتحادیوں کا عظیم لائو لشکر میلوں تک پھیلا تھا۔ ہر کمانڈر‘ بادشاہ کے اپنے اپنے خیموں کے شہر تھے مگر اس سب کا مقابلہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے بڑی ہمت‘ عسکری کاری گری اور حوصلے سے کیا۔ آخر کار جب فتح کی کوئی اُمید باقی نہ رہی تو تیسری صلیبی جنگ کے خاتمے کے لیے رچرڈ شیر دل نے سلطان سے صلح کرنے کی درخواست کر دی۔ رچرڈ شیر دل سلطان کی فیاضی‘ انسان دوستی‘ بہادری اور کوڈ آف وار سے بہت متاثر ہوا‘ جس کا اظہار اُس نے ہمیشہ کھل کر کیا۔ جرمنی کا بادشاہ Frederick Barbarossa محاصرے کے دوران بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا۔
اس جنگ میں چھ لاکھ سے زیادہ صلیبی فوجی مارے گئے۔ صلیبِ اعظم بدستور مسلمانوں کے قبضے میں رہی‘ ہر مذہب کے زائرین کو پہلے کی طرح بیت المقدس میں آمد و رفت کی اجازت دی گئی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے تاریخ میں ثابت کر دکھایا کہ وہ دنیا کے سب سے رحم دل‘ طاقتور ترین اور صرف تاریخ اسلام نہیں بلکہ تاریخِ عالم کے مشہور ترین فاتحین اور حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ موجودہ دور کے انگریز مؤرخ لین پول نے ہم عصر بادشاہوں اور سلطان میں ایک عجیب فرق بیان کیا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved